کرونا نہيں عوام کو بھوک مارے گی

عبداللہ سلیم

ميں نے سوچا کيوں نہ ميں بھی کروونا وائرس کے بارے ميں اپنے خيالات کا اظہار کروں۔ميں ایک اچھالکھاری تو نہيں دوسروں کی
طرح ليکن کوشش یہی کہ جو معلومات ہيں وہ آپ تک پہنچاوں۔
اس مرض کے بارے ميں پوری دنيا جانتی ہے کہ جس نے پوری دنيا کو اپنے قبضے ميں ليا ہے۔جس کو ورلڈ ہيلتھ آرگنائزیشن نے کرووناوائرس کا نام دیا ہے۔
سال 2019 کے آخر ميں والڈ ہيلتھ آرگنائزیشن نے اس وائرس کی موجودگی کا دعوی چين کے شہر ووہان ميں کيا۔اس وائرس کی
کوئی ویکسين اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے اس وائرس نے پوری چين کو آسانی سے اپنے لپيٹ لے ليا۔ليکن چينی حکومت کی بروقت
اقدامات سے اور پورے شہر کو لاک ڈاون کرنے کے بعد اس وائرس کو بہت مشکلات کے بعد آخر کار بہت حد تک کنٹرول کيا۔ليکن اس وائرس کی وجہ سے چين کی معيشت بہت بڑی حد تک کمزور ہوا۔اور بہت سے اموات بھی ہوئی ہیں۔
اس وائرس کا چين ميں تباہ کاریوں کے بعد روس نے یہ دعوی کيا کہ یہ ایک بایولاجيکل ہتھيار ہے جو امریکہ نے چين کی معيشت تباہ
کرنے کے لئے چين پر استعمال کيا۔اور چين نے بھی یہی کہا کہ وہ امریکہ کو اقوام متحدہ ميں لے جائے گا۔
یہاں تک تو ٹھيک ہے سال 2020 کے دوسرے مہينے فروری ميں اس وائرس کا انکشاف ایران ميں ہوا۔اور اس کا بھی الزام امریکہ پر آیا کيونکہ ایران اور امریکہ کے تعلقات ایک دوسرے کے ساتھ ٹھيک نہيں ہيں۔ان دونوں ممالک کے بعد اس وائرس نے پوری دنيا کوآہستہ آہستہ اپنے قبضے ميں لينا شروع کيا ہے جن ميں اٹلی،فرانس،پاکستان،انڈیا،امریکہ اور بہت سے دوسرے ممالک موجود ہيں۔اس وائرس سے جو موجودہ سب سے زیادہ تباہ و برباد ممالک امریکہ،اٹلی اور فرانس ہيں جو چين سے بھی بدتر تباہ ہيں۔
امریکہ تو خود برباد ہے تو کيا یہ وائرس ایجاد کردہ ہے یا پھر خدا کی طرف سے ہماری کردہ گناہوں کا عذاب ہے یہ سوال سائنسدانوں
کے اوپر چھوڑ دیتا ہوں۔
اب آتے ہيں اپنے اصل موضوع کی طرف جب یہ مرض پاکستان ميں آیا تو حکومت نے دوسرے ممالک کی طرح ملک ميں لاک ڈاون
کر دیا۔ہمارے وزیر اعظم عمران خان صاحب خود یہی بات کہتے ہيں کہ جب لاک ڈاون ہوتا ہے تو اس کا مطلب ملک ميں کرفيو لگتا ہے
تو اس کا مطلب ملک قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں چلا جاتا ہے۔اس بات سے کسی کو کسی قسم کی پریشانی نہيں۔
احتياط ایک اچھی چيز ہے۔ليکن اوپر ميں نے جيتنے ممالک کی بات کی وہ لاک ڈاون رے کے بھی وہاں کے حکومت اپنی عوام کو ہر
قسم کی ریليف دے رہی ہے۔ان کے راشن ان کے گھر کے دروازے پر رکھ دیا جاتا ہے۔تو وہاں پر حکومت کامياب ہو رہی ہے۔پاکستان معاشی لحاظ سے ان ممالک سے بہت پيچھے ہےاور پاکستان کی آدھی آبادی غربت کا شکار ہے۔تو گھر ميں محصور ہوکر ان کو ایک وقت کی روٹی بھی نصب نہيں ہوگی۔تو اس طرح پاکستانی عوام کو کرونا نہيں پيٹ کی بھوک مارے گا۔حکومت کی یہ لاک ڈاون اس
وقت تک کامياب نہيں ہو سکتا جب تک عوام کو ریليف نہيں دی جائے گی۔پاکستان ميں پيٹ سے بڑ کر کوئی اور وائرس نہيں ہو سکتا ہے۔
بھوک پھرتی ہے ميرے ملک ميں ننگے پاؤں

اپنا تبصرہ بھیجیں