تحریک بحالی بی ایم سی اورہماری حقیقی جدوجہد

تحریرآصف بلوچ
آج بھی جب بال پوائنٹ ہونٹوں میں دبائے اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں. کہ اس صبح جب میں اپنا لیب کوٹ اور نوٹ بک اٹھائے کالج جارہا تھا اور کالج میں جا کر پتہ چلا کہ” کچھ” سفید ریش ملازمین نے احتجاج کی کال دی ہے. تو میرا ذہن بس مجھے سوچوں کی ایک گہری دنیا میں دھکیل دیتا ہے. یہاں پہ اس” کچھ” سے میری مراد 1400_1500 ملازمین جو کہ بی ایم سی میں ملازم ہیں. اور انھوں نے احتجاج کیا ہے. بعد میں انکے مسائل کے بارے میں آگاہی لی تو پتہ چلا کہ انکے مطالبات تو حق ہیں.انکا مطالبہ تھا کہ بی ایم سی کو بحال کیا جائے. کیوں کہ حال ہی میں بی ایم سی یونیورسٹی میں تبدیل ہو گئ تھی اور اسکی وجہ سے ان تمام ملازمین کی نوکریوں کو خطرہ لاحق تھا کہ کہیں انکی نوکریاں نہ چلی جائیں تمام ملازمین نے20. 22دسمبر2019 کواپنا پر امن کیمپ لگایا اور اپنے مطالبات کے حق میں بیٹھ گئے اب آتی ہے بات طلباء کی طرف تمام طلبا من ہی من میں خوش تھے کہ اب یونیورسٹی بن گئی ہے تو ہماری فیس بھی ختم ہو جاے گی اور ہمارا سکالرشپ بڑھ جائے گا اور ٹائم پے ملے گا.پر یہ کیا تھا وقت نے ایسی کروٹ بدلی کہ طلباء کو منہ کی کھانی پڑی.
اور ایک ساتھ تیرہ گنا طلباء کے فیسوں میں اضاضہ کیا گیا جی ہاں تیرہ گنا یعنی کے 5000سے 114000 تک فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا گیا اور اسکالرشپ میں کٹوتی کر کے 6000 سے 3000 کر دیئے گئے. بس پھر ہونا کیا تھا مظلوم نے مظلوم کا ہاتھ تھام لیا اور اس ظلم کے خلاف ایک آواز ہو کر ایک صف میں طلباء اور ملازمین ایک ساتھ کھڑے ہوگئے اور اپنے حقوق کی جنگ ایک دوسرے کے سنگ لڑنے کی بیعت کر لی اب تحریک مزید طوالت پکڑتی گئی لیکن ایوانوں میں بھیٹے گونگے اور بہرے نمائندوں کے کانوں تک طلباء اور ملازمین کے آواز کی گونج سنائی نہیں دے رہی تھی …. اب بات پر امن کیمپ سے آگے بڑھ چکی تھی. تو اب کی بار 15جنوری کو پریس کلب کی طرف کوچ کیا گیا اور وہاں پے اپنا پرامن احتجاج ریکارڈ کروایا کہ ہاں شاہد اس دفعہ ہماری آواز حکام بالا کے کانوں میں گونجے گی ضرور لکین کیا ہونا تھا پھر سے وہی مایوسی پر طلباء اور ملازمین نے ہمت نہیں ہاری اور پھر سے 30جنوری کو پریس کلب کے سامنے احتجاج ریکارڈ کرایا گیا کہ ہاں اس دفعہ تو ہماری آہیں اور سسکیاں ایوانوں کی دیواروں سے ٹکرا کر گونجیں گی اور ہمارے حق میں بولا جائے گا پر ایک دفعہ پھر کچھ حاصل نہیں ہوا اس دوران پریس کانفرنس بھی ہوتی رہی اب یہ تحریک ایک مظبوط چٹان کی سی بن چکی تھی اس بات کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ ایپکا کے تمام ملازمین جو کہ زیادہ تر سفید ریش ہوچکے ہیں اب تو انکی زندگی میں سکون کے دنوں کو جنم لینا تھا لیکن یہ کیا تھا. وہ تو دن بہ دن جوش میں نظر آتے جا رہے تھے. انکی رگوں میں مانو! خون کی روانی کی ایسی لہر دوڑ اٹھی تھی کہ اب وہ جوانوں میں شامل ہوچکے تھے. آخر وہ اس لاوارث بلوچستان کے باسی جو ٹھہرے6فروری کو طلبا نے صبح سورج کے طلوع ہونے سے پہلے ہی آکر کالج بند کر دیا اور پھر سے اپنے جائز مطالبات کے حق میں بیٹھ گئے لیکن یہاں ان طلباء کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا. جی ہاں ایک میڈیکل کالج سے منسلک طلبا پہ تشدد کیا گیا لیکن اب بھی حکام بالا خوابِ خرگوش سوتا رہا
اب کی بار یہ تحریک صوبائی اسمبلی کی طرف کوچ کر گئ. 10فروری کی صبح طلوع آفتاب کے ساتھ ہی اسمبلی کے سامنے دھرنہ دیا گیا. لیکن پھر سے اسی نا امیدی کے ساتھ واپس لوٹنا پڑا. شاہد اس دفعہ بھی ہماری آواز حکام بالا کو گہری نیند سے جگا نہیں سکی تھی. اور پھر بس وہی جھوٹے وعدے وہی جھوٹی تسلیاں دے کر طلبا اور ملازمین کو واپس بیھج دگیا.12فروری کو پھر سے اسی جوش و خروش کے ساتھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دے دیا گیا اور اب کی بار طلبا اور ملازمین کی ثابت قدمی دیکھنے لائق تھی 12فروری کی صبح وہ نوید لے کے آیا کہ لوگوں کا سمندر جمع ہو چکا تھا. پر امن دھرنا جاری تھا کہ جس کا ڈر تھا وہی ہوا. تمام طلبا پر تشدد کیا گیا اور بلوچستاں کے ان میڈیکل کے طلبا اور ملازمین کو جیلوں کی زینت بنایا گیا ایک پورا دن جیل میں بھوک پیاس کی حالت میں کاٹنے کے باوجود سب ثابت قدم رہے اور کسی کے چہرے پر کوئی تھکن ظاہر نہیں تھی ابھی بھی سب کے نعروں میں وہی گونج تھی وہی درد تھا کہ وہ نعرے سن کر مردوں میں بھی جان آجائے پر افسوس صد افسوس ہمارے زندہ پر مردہ ضمیر کے مالک نمائندوں کو وہ نعرے جگا نہیں سکےاور رات گئے ہمیں جیل سے رہا کیا گیا لیکن سب نے دوبارہ اسی جوش کے ساتھ اسمبلی کا رخ کیا اور اس وقت احساس ہواکہ ہماری تحریک دیکھتے ہی دیکھتے کتنی مضبوط ہوتی جا رہی تھی. اور ان سب میں جس طریقے سے فیمیل اسٹوڈنٹس نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا تھا وہ قابل تعریف تھا. انکی اس جدوجہد نے ہمیں بتایا کہ وہ ہماری اس تحریک میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتی ہیں. اور ایک دفعہ پھر سے وہی جھوٹے وعدے ہمارے دامن میں باندھ دئیے گئے. اور ان جھوٹے وعدوں کو طلبا کے پلو سے باندھا گیا حکومت کے تحریری وعدے بس دھرے کے دھرے رہ گئے اب اس نا امیدی کی وجہ سے سب کے حوصلے پسپا ہوتے جا رہے تھے سب منتشر ہو رہے تھے سب کے دلوں کے اندر سوالوں کا ایک طوفان جنم لے رہا اور اس طوفان کے آنے سے پہلے کی خاموشی کو ہم سب کہیں نا کہیں محسوس کر رہے تھےلیکن ہمارے لیڈرز نے اس طوفان کے آنے سے پہلے کی خاموشی کو محسوس کر لیا تھا. اور طلبا کو منتشر ہونے سے بچانے کے لیے وہ اب بھی مظبوط چٹان کی طرح حئ بلوچ ہارون بلوچ ڈاکٹر الیاس بلوچ عبداللہ صاحب گودی ماہ رنگ بلوچ اور ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کی شکل میں ہمہ وقت طلبا کی رہنمائی کے لیئے موجود رہے اور انکی رہبری کے سائے تلے ہم منتشر ہونے سے بچے رہے ہاں یہی ادنیٰ مثال تھی بلوچسان کے باقی طلبا کے لیئے کہ یکجئتی سے ہی انقلاب ممکن ہے.
United we stand.
Divied we fall.
کا نعرہ زور و شور سے ہمارے خون میں گردش کرنے لگا. ایک بار پھر سے طلبا اور ملازمین نے دھرنا دینے کا فیصلہ کر لیا اور 24 فروری کو دوبارہ سے پر امن دھرنا دیا گیا اور ایک بار پھر سے سیاہ تاریخ نے خود کو دہرایا اب کی بار طلبا اور ملازمیں تو ویسے ہی جیل کی زینت بنے رہے. لیکن شاہد اس دفعہ تاریخ میں پہلی مرتبہ میڈیکل کے طالبات کو جیل کی زینت بنایا گیاجی ہاں ہمارے ننگ و ناموس جیلوں کی زینت بنے رہے وہ وقت تو گزر گیا پر اپنے پیچھے تاریخ کا ایک سیاہ دن چھوڑ گیا.اور اس دفعہ ہماری جدوجہد رنگ لائیں ہمارے مطالبات تو مان لئیے گئے. اور طئے پایا کہ 40 دن کے اندر اندر بی ایم سی کو یونیوورسٹی سے علحیدہ کیا جائے اور طلبا کے فیسوں میں کمی کی گئی اور اسکارشپ بحال ہوگئےاور بڑی مدتوں بعد بی ایم سی جھوم اٹھا تھا ایک بار پھر سے طلبا نےچین کا سانس لیا. لیکن اب بھی پوری طرح ہمارے مطالبات حل نہیں ہوئے اب بھی اکثر ملارمین کی تنخواہیں بند ہیں اب بھی بی ایم سی کی پرانی حیثیت کو بحال ہونا باقی ہےلیکن آج میں اپنی اس تحریر کی توسط سے بتاتا چلوں کہ ……
ہم پھر سے ابھر کر آئیں گے
ہم پھر سے ایک امید کی روشنی کے ساتھ طلوع ہوں گے
ہم پھر سے یکجہتی کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں گے
ہم پھر سے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے پوری قوت کے ساتھ
‏ہم جھکے نہیں ہم بکے نہیں، کہیں چھپ چھپا کے کھڑے نہیں
جو ڈٹے ہوئے ہیں محاذ پر ،ہمیں ان صفوں میں تلاش کر
Dedicated to my All leaders.
حىء بلوچ

dr sabiha baloch
Haroon Baloch.

abdullah safi
Dr Ilyas baloch
Mahrang Baloch

APCA BUMHS

اپنا تبصرہ بھیجیں