گر تُو سمجھ پائے میری بات

تحریر ۔ منیر بلوچ
آج ھمارے محلے کے چوک کے پاس ایک آٹھ دس سال کا بچہ گھر میں سلے ہوئے کپڑے کے ماسک بیچ رہا تھا، میں نے یونہی اس سے پوچھا؛
"کتنے کا دو گے بھئی؟”
کہنے لگا "آپ کے لیے 30روپے کا”
میں نے پوچھا;
"میرے لیے کیوں؟ میرے پاس تو اتنے پیسے بھی نہیں”
جواب آیا "آپ 20روپے دے دیں، اس سے کم نہیں”
میں نے نہ جانے کس ترنگ میں آ کر کہا؛
"بھئی میرے پاس تو 20روپے بھی نہیں ہیں، تو کیا کروں؟”
اس نے کہا کہ آپ مفت لے جائیں، جب کبھی پیسے ہوئے تو دے دینا؟
میں اس جواب سے بہت حیران ہوا، اور استفسار کیا کہ ماں تم سےلڑے گی نہیں کہ مفت کیوں دے آئے؟
بچے کے جواب نے مجھے سر تا پاء لرزا دیا، کہنے لگا؛
"نہیں..امی نے کہا تھا کہ اگر کسی کے پاس پیسے نہ ہوں تو اسے ویسے ہی دے دینا، اتنی وبا پھیلی ہوئی ہے نہ”
اللّٰہ اکبر…
قوم کی بات کرتے ہو…!
ایک ماں جس نے فاقوں سے مجبور ہو کر کپڑوں کے ماسک سی سی کر اپنے معصوم سے بچے کو چوراہے پر مزدوری کے لیے بھیجا. اس نے یہ سوچ کر کہ وباء کے دنوں میں کوئی ضرورت مند ایسا بھی ہو سکتا ہے جس کے پاس ماسک خریدنے کے پیسے نہ ہوں تو اسے بغیر قیمت دینے کا سبق سکھا کر بھیجا.
قوم کی بات کرتے ہو…!
اس قوم کی مائیں ابھی اتنی بانجھ نہیں ہوئیں کہ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللّٰہ جیسے نہ سہی ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے بچے پیدا نہ کر سکیں، جنہیں بس ایک ہی سبق آتا ہے اور وہ سچ کا ہے.
قوم کی بات کرتے ہو…!
یہ قوم غربت اور بھوک سے لڑتے ہوئے بھی دوسروں کا احساس کرنا نہیں بھولتی.
آج کل سوشل میڈیا پر ہر طرف قوم، قوم ہو رہی ہے، ہماری قوم یہ، ہماری قوم وہ، ہر بات میں ہر وقت قوم کو لتاڑنے والے یاد رکھیں، ابھی اس میں وہ دم خم ہے کہ کورؤنا جیسی وباء کا سامنا ایک دردِ دل رکھنے والے انسان کے طور پر کر سکے.
میں اس تذکرے کو چھوڑ دیتا ہوں کہ بچے کی مدد کی یا نہیں، صرف اتنا کہوں گا اس پُر آشوب دور میں چند بے حس لوگوں کا راگ الاپنے کی بجائے ایسی ماؤں اور ایسے بیٹوں کے کردار کو سلام پیش کرو جو ہماری قوم کا فخر ہیں کیونکہ یہ وقت منفی نہیں مثبت سوچ کو فروغ دینے کا ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں