بھٹو اور بلوچستان
فاطمہ بھٹو
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی فاطمہ بھٹو کی کتاب Songs of Blood and Sword سے بلوچستان کے حوالے سے اقتباس
ترجمہ :زبیر بلوچ
یہ کہنا درست ہوگا کہ ذوالفقار بھٹو کا دور حکومت کئی حوالوں سے نمایاں رہا ان میں ان کی روشن خیالی‘ سماجی پروگرامز اور دانشمندانہ خارجہ پالیسی شامل ہیں۔ لیکن انہیں اپنی کچھ غلطیوں کی وجہ سے کئی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ وہ ایک پیچیدہ شخصیت کے مالک تھے ان کی شخصیت ایسی تھی کہ یا تو آپ کو ان سے بے پناہ محبت ہو جاتی یا شدید نفرت۔ان کو اپنے دور حکومت میں سب سے بڑا مسئلہ بلوچستان کی صورت میں پیش آیا۔. بلوچستان پاکستان کا ایک نظر انداز صوبہ ہے۔بلوچوں کا سماجی نظام بیشتر قبائلی ہے کچھ بلوچ ایرانی نسل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ کچھ سامی نسل۔اکثر بلوچوں کا دعویٰ ہے کہ وہ شام سے ہجرت کر کے بلوچستان آباد ہوئے ہیں۔ انیسویں صدی میں موجودہ پاکستانی بلوچستان چار ریاستوں میں تقسیم تھا۔جن کی اکثریت برطانوی سماج کے ماتحت تھی۔ جب برصغیر کا بٹوارا ہوا توبلوچستان اورنیپال وہ دو ریاستیں تھیں جن کو یہ آپشن دیا گیا تھا کہ دو نئی ریاستوں میں سے کس کا انتخاب کرنا چاہیں گے۔ اکثر بلوچوں کا یہ دعویٰ ہے کہ نیپال کی طرح انہوں نے آزادی کا انتخاب کیا لیکن اس وقت بلوچستان میں حکومت چند اشرافیہ خاندانوں کی تھی جو باآسانی خریدے جا سکتے تھے۔خان آف قلات احمد یار خان نے دباؤ میں آ کر پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیا۔لیکن ان کے چھوٹے بھائی پرنس عبدالکریم نے یہ فیصلہ تسلیم نہیں کیا اور کسی دباؤ میں نہیں آئے۔انہوں نے بلوچوں کیلئے جدوجہد کی اور پہلی شورش کی بنیاد رکھی۔دوسری سورش دس سال کے بعد ہوئی جس کی اہم وجہ ایوب خان کی جانب سے رائج کردہ ون یونٹ کا نظام تھا۔جس کا مقصد مضبوط مرکز تھا اور اسے بلوچوں نے قبول نہیں کیا۔تیسری شورش 1960ء کی دہائی میں پیش آئی جس کی وجہ صوبہ بھر میں فوجی چھاؤنیاں کا قیام تھا۔ اس کے نتیجے میں مختلف قبائل کے عسکریت پسندوں نے سرکار کیخلاف مسلح جدوجہد کی۔جنرل یحییٰ خان نے شورش پر قابو پانے کیلئے ون یونٹ کے نظام کو ختم کر دیا اور مختلف گروہوں کے باغیوں سے جنگ بندی کی لیکن یہ امن کا دور عارضی ثابت ہوا اور جلد ہی ایک اور شورش شروع ہوئی۔1972ء میں بلوچوں کو پھر سے دیوار سے لگایا گیا بلوچ رہنماؤں کا عوامی لیگ کے ساتھ اتحاد تھا لیکن ان کے جداہو نے کے بعد بلوچ رہنماء اکیلے رہ گئے تھے انہوں نے مختلف سیاسی جماعتوں سے اتحاد بنا کر نیشنل عوامی پارٹی(NAP) بنائی جس نے بھٹو حکومت کے خلاف اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ متعدد بلوچ رہنماؤں نے وفاق سے زیادہ نمائندگی مانگی اور خود سے علیحدگی کے منصوبہ بھی بنائے۔اسی دوران اسلام آباد میں قائم عراقی سفارت خانے سے بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا۔ پولیس نے یہ الزام عائد کیا کہ یہ اسلحہ مری جنگجوؤں کیلئے بلوچستان بھیجے جانے کا منصوبہ تھا۔
ذوالفقار بھٹو نے جلد ہی اس پر اپنا رد عمل ظاہر کیا اور اس عمل کو بغاوت قرار دیا اور بلوچوں کی صوبائی حکومت کو برطرف کر دیا۔ لیکن اصل مسئلہ کچھ اور ہی تھا اوراس سے بڑی نوعیت کا تھا۔دراصل ایران کے شاہ کی جانب سے کافی دباؤ تھا ان کا یہ خدشہ تھا کہ ایرانی بلوچستان میں مقیم بلوچ ان کی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد کی تیاریاں کر رہے ہیں اس لئے انہوں نے پاکستان سے مداخلت کرنے کو کہا جس کے نتیجے میں ایک دفعہ پھر سے بلوچستان میں فوج کشی ہوئی۔ اگرچہ ذوالفقاربھٹو وہ پہلے رہنماء نہیں تھے جنہوں نے بلوچستان میں طاقت کا استعمال کیا لیکن انہیں ماضی کے رہنماؤں کے برعکس بلوچستان میں طاقت کے استعمال سے گریزکرنا چاہئے تھا۔سردار خیر بخش مری نے اس عمل کے جواب میں بھٹو حکومت کیخلاف گوریلا جنگ لڑنے کا انتخاب کیا جس کے نتیجے میں دونوں فریقین کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ خیر بخش مری سمیت متعدد قبائلیوں کو ذوالفقاربھٹو کے احکامات پر جیل بھیجا گیا اور ان کی اختلاف رائے کو طاقت کے ذریعے خاموش کرنے کی کوشش کی گئی۔ انہوں نے کبھی بھی بھٹو کو ان کے اس اقدام کیلئے معاف نہیں کیا۔ اس سورش کے حوالے سے جاننے کیلئے میں نے سردار خیر بخش مری سے انٹرویو کی درخواست کی اگرچہ وہ بھٹو خاندان کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن میری درخواست پر انہوں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا جب میں ان کے کراچی کی رہائش گاہ پر گئی تو مجھے انہوں نے کافی عزت بخشی اور میری مہمان نوازی بھی کی۔ دوران گفتگو سردار مری نے کہا کہ ”پاکستان کوئی آزاد ملک نہیں بلکہ ایک کالونی ہے ماضی میں یہ برطانیہ کی کالونی رہا ہے اور اب امریکہ کی کالونی ہے۔آپ کالونیوں سے آزاد رویئے کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں؟
جب میں نے سردار مری سے 1970ء کے آپریشن کے تجربات سے متعلق سوال پوچھا تو وہ ہچکچائے اور بہت ہی احترام سے یہ کہا کہ آپ ذوالفقار بھٹو کی پوتی ہیں لہذا آپ کے سامنے بات کرنا مناسب نہیں ہو گا۔ میں نے ان کو مسکراتے ہوئے یہ یقین دہانی کروائی کہ میں ان کی کسی بات کا برا نہیں مناؤنگی تو انہوں نے کہا کہ ”بھٹو ہٹلر سے مختلف نہیں تھا آپریشن کے آغاز میں مظالم چند مخصوص علاقوں میں ڈھائے گئے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ظلم کا دائرہ صوبہ بھر میں پھیل گیا۔ اس سے قبل ہماری مزاحمت روایتی اور قبائلی تھی لیکن اس کے بعد یہ ایک قومی شکل اختیار کر گئی“ شورش کے بارے میں مزید جاننے کیلئے میں نے ایک اور بلوچ رہنماء یوسف مستی خان سے انٹرویو کی درخواست کی جو انہوں نے قبول کی۔یوسف مستی خان کو بھی 1974ء میں گرفتار کیا گیا تھا وہ اس وقت ایک نوجوان سیاسی کارکن تھے اور ان کے والد اکبر مستی خان ذوالفقار بھٹو کے پرانے اور قریبی دوست تھے دونوں (باپ اور بیٹے) میں ذوالفقار بھٹو کی پالیسیوں سے متعلق کافی بحث و مباحثہ ہوا کرتا تھا۔ جب چھوٹے خان (یوسف مستی خان) جیل سے رہا ہوئے تو ان کے والد اکبر مستی خان کو ان کے گہرے دوست ذوالفقار بھٹو نے راولپنڈی میں قائم اپنی سرکاری رہائش گاہ پر مدعو کیا تھا اور ان کو بلوچستان کی ہائی ویز کو بنانے کیلئے ایک ٹھیکے کی پیشکش بھی کی تھی۔ یوسف مستی خان نے اس حوالے سے مجھے بتایا ”میں نے اپنے والد کو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ اگر آپ نے بھٹو کے ٹھیکے کی پیشکش کو قبول کیا تو میں پہاڑوں کا رخ کروں گا جس پر میرے والد نے جواب دیا کہ بھٹو بہت ضدی اور انتقامی انسان ہیں میں انہیں منع نہیں کر سکتا“ بقول یوسف مستی خان کے کہ جب ان کے والد بھٹو سے ملنے کیلئے ان کی سرکاری رہائش گاہ پر گئے تو یہ ارادہ کر کے گئے تھے کہ وہ بھٹو کی پیشکش کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے اور بھٹو کو اشتعال نہ دلانے کیلئے کوئی درمیان کا راستہ نکال لیں گے۔جب وہ وزیراعظم ہاؤس پہنچے تو بھٹو نے گفتگو کا آغاز عام اور کچھ پرانی باتوں سے کیا کچھ وقت گزرنے کے بعد بھٹو نے مدعے کی بات کی اور پوچھا کہ بلوچستان کی صورتحال کیا ہے؟ جس پر اکبر مستی خان نے جواب دیا کہ آپ کیا چاہتے ہو کہ میں آپ سے کس طرح بات کروں بطور ایک دوست یا بطور وزیراعظم؟ ذوالفقار بھٹو نے کہا کہ کھل کر بات کرو اکبر مستی خان نے کہا کہ آپ کیوں بلوچستان میں لوگوں کا قتل عام کر رہے ہو؟ ذوالفقار بھٹو اس سوال کے جواب میں بلوچ عسکریت پسندوں کی جانب سے ریاستی فورسز پر حملوں کا ذکر کیا۔ بھٹو نے کہا کہ میں طاقت کا استعمال نہیں کرنا چاہتا لیکن میں اور کیا کر سکتا ہوں؟ جس پر اکبر مستی خان نے جواب دیا کہ فورسز کو بلوچستان سے واپس بلا لو۔ بھٹو نے اس پر اپنا سر جھکاتے ہوئے کہا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا۔
یہ ایک روایتی بات تھی بھٹو بھی ماضی کے سول حکمرانوں کی طرح مقتدرہ کے آگے بے بس تھے۔ملک میں جب بھی کسی آپریشن کا آغاز کیا گیا توکسی بھی سول رہنماء میں یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ اس آپریشن کو ختم کرواسکے۔ جس لمحے ذوالفقار بھٹو نے اپنے ہی ملک کے لوگوں سے لڑنا شروع کیا (چاہے وہ غدار ہو یا محب وطن) اسی وقت ہی انہوں نے خود کو خود کی ہی طاقت سے دور کردیا تھا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مقتدرہ کو سیاست میں آنے کا پھر سے موقع مل گیا اور جلد ہی انہوں نے بھٹو مخالف اقدامات شروع کر دیئے۔اکبر مستی خان کو بھی بعد میں گرفتار کیا گیا۔معراج محمد خان جو بھٹو کے پرانے سیاسی ساتھی تھے اور پیپلز پارٹی کے بانی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ”بلوچستان آپریشن نے مقتدرہ کی طاقت میں اضافہ کیا۔ان کو اس بات کا علم ہو گیا تھا کہ جمہوری حکومت کو ان کی ضرورت ہے۔ ذوالفقاربھٹو اپنے ہی نظریاتی ساتھیوں سے لڑ ھ رہا تھا NAPوالے بھی پیپلز پارٹی کی طرح سوشلسٹ اور ترقی پسند تھے۔لہذا ذوالفقار نے اپنے نظریاتی ساتھیوں کو ناراض کیا اور ایسا کر کے انہوں نے اپنی ہی کمر توڑ دی“معراج خان نے 1974ء میں بلوچستان میں ریاستی طاقت کے استعمال کی وجہ سے احتجاجاً پیپلز پارٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ استعفیٰ کی ایک اور وجہ بھٹو کا یونینز کے ساتھ بدلتا ہوا رویہ بھی تھا۔معراج خان نے مزید کہا کہ مزدوروں کے احتجاج اور ہڑتالوں کو ختم کرنے کیلئے بھٹو نے طاقت استعمال کرنے کی بات کی پولیس نے وزیراعلیٰ کے حکم پر مزدوروں پر فائرنگ بھی کی۔ دراصل پارٹی میں شامل جاگیرداروں کااثرورسوخ بھٹو پر بڑھ گیاتھا اور اپنے مفاد کیلئے انہوں نے ذوالفقار بھٹو کو ان کی طاقت عام عوام سے دور کر دیا تھا۔معراج محمد خان کے علاوہ جے. اے. رحیم نے بھی پیپلز پارٹی سے استعفیٰ دیا۔ جے. اے.رحیم وہ رہنماء تھے جنہوں نے پیپلز پارٹی کا منشور لکھا تھا۔ معراج محمد خان نے مجھے کہا کہ ”میں نے بھٹو کو سمجھایا کہ مقتدرہ آپ کو گمراہ کر رہے گی اور وہ آپ کو آپ کی طاقت سے دور لے کر جا رہی ہے ”ایک سال کے بعد معراج محمد خان کو بھی گرفتار کر لیا گیا“ ڈاکٹر مبشر حسن جن کے گھر میں پیپلز پارٹی کا قیام ہوا اور بھٹو دور حکومت میں وزیر خزانہ تھے انہوں نے بھی وزارت سے استعفیٰ دیا تاہم وہ بھٹو کے ساتھی رہے۔