پولیو کا مرض آج بھی زندہ

تحریر:نبیلہ ناز
صدیاں گزرنے کے باوجود پولیو آج بھی موجود ہے ۔یہ بات واضح ہے کہ پولیو کا خاتمی پاکستان اور افغانستان کے سوا تمام ممالک سے کیا گیا ہے ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اب تک کیوں ہم اس مرض سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے ۔مانا کہ ماضی میں ہمیں کچھ مشکالات کا سامنا رہا ہے جس میں سر فہرست پولیو عملے کی سیکیورٹی، لوگوں کے شک و شبہات اس مرض کی ویکسین کے متعلق وغیرہ وغیرہ  دنیا پولیو کے علاؤہ اور بہت سی بیماریوں پہ قابو پا چکی ہے تو پھر ہم کیوں 2014 سے پولیو کے بڑھتے ہوئے بحران میں شامل ہوئے جا رہے ہیں ۔

ہمارے حکمرانوں اور شعبہ صحت کے پاس وہی پرانے جواز موجود ہوتے ہیں ہر بار حکومت کی بدلی اسکی منتقلی کا بہانہ ، عملے کی کمی ، ناقص سیکورٹی اور بہت کچھ ۔  اس کے علاؤہ ہماری اپنی نا اہلی ہے کہ اندرون علاقوں جس میں خاص طور پر اندرون سندھ اندرون بلوچستان وغیرہ شامل ہیں یہاں ہم” پولیو سے بچاو” پروگرام کو سہہی طریقے سے نہیں چلاتے لوگ اسے غیر ملکی پروپیگنڈا سمجھتے ہیں ، قصور ان کا بھی نہیں کیونکہ انکا زہن اسی طرح کا بنا دیاگیاہے کہ انہیں چار دیواری سے باہر کی دنیا کی کوئی خبر نہیں۔
جب اندرون علاقوں میں پولیو ورکرز جاتے ہیں تو سیکیورٹی کے بعد دوسرا بڑا مسلہ وہاں کے لوگوں کو راضی کرنا ہوتا ہے انہیں یہ سمجھانا ہوتا ہے کہ یہ دو قطرے آپ کے بچوں کی صحت کیلے ہیں نا کہ انہیں مزید کوئی بیماری دینے کیلے ۔”پولیو خاتمہ سے متعلق ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ کے فیلڈ مشن نے اپنی 2019 کی رپورٹ میں کہا ہے کہ "پاکستان پروگرام ناکام راہ پر گامزن ہے ، جس سے باقی عالمی پروگرام خطرے میں پڑ گئے ہیں”

پاکستان سے پولیو کا خاتمہ صرف عالمی ادارہ صحت کی ذمہ داری نہیں ہے ۔ جب تک حکومت پاکستان خود کوششیں شروع نہیں کرتی اس مرض سے نجات حاصل نہیں ہو گی ۔اس کیلے بیرونی فنڈنگ کا درست جگہ استعمال ، سیاسی مداخلت سے بالاتر ہونا ، اور مقامی حکومتوں کا درست ایکشن پلان کرنا ضروری ہے ۔ اگر ہم اس بنیاد پہ پہ بیٹھے ہیں کہ بیرونی امداد ہوتی رہے جس کیلے ہم جان بوجھ کہ پولیو کا مرض ختم نہیں کر رہے تو پھر چاہے اربوں کی بھی امداد ہو جائے یہ مرض جوں کا توں رہےگا ۔درست نشاندہہی پہ اگر ایک پولیو کیس بھی سامنے آ جائے تو اسکے بدلے ہم اور بہت سے کیسسز کو کنٹرول کر سکتے ہیں ۔۔

2015 سے 2020 تک کی پاکستان کی ایک پولیو رپورٹ کچھ یوں پنجاب میں 2015 میں 2 کیسز رپورٹ ہوئے ، 2016میں صفر ، 2017 میں 1 کیس ، 2018 میں بھی صفر ، 2019 اور 2020 میں بالترتیب 12 اور 14 کیسسز رپورٹ ہوئے ۔ سندھ میں 2015 میں 12 کیسز رپورٹ ہوئے ، 2016 میں 8 کیسسز ، 2017 میں 2 کیس ، 2018 میں بھی ایک کیس ، اور 2019 2020 میں بالترتیب 30 اور 22 کیس رپورٹ ہوئے ۔

خیبرپختونخوا میں 2015 میں 33 کیسسز ، 2016 میں 8  کیسسز ، 2017 میں ایک کیس رپورٹ ہوا ، 2018 میں میں دوبار 8 کیسسز رپورٹ ہوئے اور2019 2020 میں بالترتیب 93 22 کیسسز رپورٹ ہوئے جو کہ ایک بڑی تعداد ہے ۔ بلوچستان میں 2015 2016 میں بالترتیب 7 اور 2 کیسسز ، 2017 اور 2018 میں 3، 3 کیس رپورٹ ہوئے اور 2019 2020 میں 12 اور 26 کیس رپورٹ ہوئے۔اس کے بعد گلگت اور آزاد جموں کشمیر کی بات اگر کی جائے تو وہاں ان گزشتہ چھ سالوں میں کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا ۔حکومت پاکستان سے اور ساتھ میں عوام سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ اس مرض کو ختم کرنے کیلے اقدامات اور ان اقدامات میں حکومت کا ساتھ دیں۔یہ کوئی معمولی مرض نہیں جسے ہم کوئی اہمیت نہیں دیتے، بات دو قطروں کی ہے جو آپ کے بچوں کی زندگی سنوار بھی سکتے ہیں اور نہ ملنے پہ آپ کے بچے کیلے عمر بھر کی معزوری بھی بن سکتی ہے ۔
پولیو سے بچاؤ کے دو قطرے
صحت مند زندگی کی ضمانت  

اپنا تبصرہ بھیجیں