بلوچستان: کوئلہ کان مالکان کو حفاظتی اخراجات کے مقابلے میں موت سستی پڑتی ہے

رپورٹ: عبدالکریم
احمدخان بنگلزئی ضلع کچھی کے علاقے مچھ کا رہائشی ہے وہ گزشتہ آٹھ سال سے مچھ میں کوئلہ کان میں مزدوری کررہا ہے ان کے مطابق اس کے چھ بچے ہے اور وہ ایک کرایے کے مکان میں رہتے ہیں روزگار کے دیگر ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ کوئلہ کان میں بیروزگاری کی وجہ سے کام کرنے پر مجبور ہیں ان کے مطابق روزانہ کوئلہ کان میں میں زمین کے اندر چودہ سو فٹ بغیر کسی احتیاطی آوزار کے کام کرنے پر مجبور ہے انہیں ہمیشہ کان میں اترنے کہ دوران یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ وہ کان سے واپس نکلیں گے بھی یا نہیں لیکن پھر یہ سوچ کر اپنی ہمت بندھاتے ہے اگر کام نہ کرے تو بچے بھوک سے مر جائیں گئے ۔
احمدخان کے بقول؛ خطرات کے باوجود ہم کام کررہے ہیں ہمیں تنخواہ اتنی ملتی ہیں جس سے صرف ہم گھر کا راشن پورا کرسکیں بچوں کے تعلیم کیلئے کوئی انتظام نہیں ہیں۔
احمدخان بتاتے ہیں کہ ہم نے کوئلہ کانوں میں حادثات کی وجہ سے بہت سے دوستوں کو کھویا ہے رواں ماہ بھی ہمارے نزدیک قبرستانی کوئلہ کان میں حادثے میں دو کانکن جانبحق ہوئے جس کو ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت چوبیس گھنٹے بعد ان کی جسدیں نکالے۔
گل باران کوئلہ کان مالک ہیں وہ سمجھتے ہیں کان کن جان پر کھیل کر کان کے اندر کام کرتے ہیں لیکن بلوچستان کے کوئلے کے کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی زندگیاں ہمیشہ حفاظتی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے خطرے سے دوچار رہتی ہیں ۔
گل باران کے مطابق ؛حکومت مزدوروں کی زندگیاں محفوظ بنانے کیلئے کوئی تعاون نہیں کررہی ہیں حالانکہ حکومت فی ٹن کوئلہ دس روپے لیبر ٹیکس کے مد میں کوئلہ کان مالکان سے وصول کرتا ہے جو کہ سالانہ تقریبا دو کروڑ چالیس لاکھ روپے بنتے ہیں ۔ لیکن حکومت اس باوجود مزدوروں کی فلاح و بہبود اور حادثات کو کم کرنے کیلئے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھا رہا ہے۔
گل باران کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کانوں کی نگرانی کو یقینی بنائے، جس کان میں مزدور بغیر کسی حفاظتی آلات کا کام کررہا ہوں اسے منع کرے اور مالکان پر اس مد میں بھاری جرمانہ عائد کرے اور اسے پابند کرے کہ وہ مزدورں کو حفاظتی آلات فراہم کرے اور ایسے کانوں کو بند کردے جہاں مٹی نرم ہو جو حادثے کی سبب بنتی ہیں اور اس کے ساتھ کانوں میں متبادل راستے کا انتظام کیا جائے اور کانوں میں روازنہ کے بنیاد پر متھین گیس کی موجودگی اور اس کی مقدار کو ناپنے کیلئے آلات فراہم کیا جائے اور کانوں کی چھتوں کو معیاری اس میں کیکر کی لکڑی کا استعمال ممکن بنایا جائے، اسی طرح کوئلہ کانوں کی گہرائی چھ ہزار تک جا پہنچی ہے جس کی وجہ سے راستے تنگ ہوچکے ان کو وسیع کردیا جائے اور حادثے کے وقت مزدور فوری طور پر محفوظ ہو اس کیلئے جدید آلات فراہم کرے اور چراغ کے بجائے ملٹی ڈی ڈیٹکٹر استعمال کرنے پر کان مالکان کو پابند بنائے۔
یاد رہےبلوچستان میں کوئلہ کانوں کی تعداد چھبیس سو کے قریب ہیں اور ا ن کانوں سے محکمہ معدنیات و کانکنی کے مطابق 24لاکھ ٹن کوئلہ سالانہ نکالا جاتا ہے جبکہ کوئلہ کان مالکان حکومت کو سیلز ٹیکس کی مد میں تقریبا ایک ارب بیس کروڑ، رائیلٹی کے مد میں اکتیس کروڑ بیس لاکھ اور لیبرٹیکس کی مد میں دو کروڑ بیس لاکھ روپے ٹیکس کی صورت میں ادا کرتے ہیں۔
پاکستان ورکرز فیڈریشن کے سروے کے مطابق ان کانوں میں تین لاکھ کے قریب مزدور کام کرتے ہیں ایک لاکھ کے قریب مزدور کوئلہ کانوں میں زیرزمین کام کرتے ہیں جبکہ باقی کانوں کی اوپری سطح میں کام کرتے ہیں ، مذکورہ پاکستان ورکرز فیڈریشن کے سروے کے مطابق اب تک ای او بی ائی کے ساتھ اب تک صرف آٹھ ہزار کے قریب مزدور رجسٹرڈ ہیں۔
محکمہ معدنیات و کانکنی کے اعداد و شمار کے مطابق 2019میں 42حادثات میں 98سے زائد مزدور کام کے دوران جانبحق ہوچکے ہیں اور200 کے قریب مزدور شدید زخمی ہوئے ہیں ۔ جبکہ رواں سال کے مارچ تک اب تک 14حادثات 27مزدور کانوں میں پیش آنے والے واقعات میں اپنے جان سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔
بلوچستان میں کانکنی کے حوالے سے نافذ العمل جو اہم قانون ہے وہ انگریز دور میں بنا ہوا ایکٹ ہے جس کو مانئنز ایکٹ 1923 کہتے ہیں
اس قانون کا مقصد بلوچستان میں ماینئز اور کیوریز میں شرائط کار، جائے کار کا ماحول، ورکرز کے حقوق کا تحفظ اور صحت و سلامتی کو باضابطہ بنانا ہے ۔ مذکورہ ایکٹ میں خواتین کو زیرزمین کانوں میں کام سے منع کیا گیا ہے اور اس ایکٹ کا چیپٹرپانچ مالکان اور آجر سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ کانکنوں کیلئے بیت الخلاء، کینٹن، پناہ گاہیں، طبی آلات، ابتدائی طبی آلات اور دوسرے حفاظتی اقدامات کا بندوبست کرے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں کول مائنز اینڈ ریگولیشن 1926،کونیلڈڈ 1952،میٹل فروس ریگولیشن 1926اور الیکٹرسٹی رولز1952قوانین رائج ہے یہ تمام قوانین کوئلہ کان مالکان کو اس بات کا پابند بناتے ہے کہ وہ مزدورں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کیلئے درکار تمام حفاظتی اقدامات اٹھائیں۔
پیرمحمدکاکڑ پاکستان ورکرز فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں رائج قانون انگریز دور کا ہے اور یہ قانون 98سال سے لاگو ہے اس میں ترامیم کی ضرورت ہیں ان کے مطابق موثر قانون نہ ہونے کی وجہ سے کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے کانکنوں کی زندگیاں محفوظ نہیں ہے جبکہ ان کے مالکان ارب پتی ہے اوروہ محفوظ اور پراسائش زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان کے مطابق کانوں میں ہلاکتیں زیادہ ہوتی ہے خاص کر کھوسٹ،شاہرگ، چمالنگ اور دکی میں لیکن ان علاقوں میں متعلقہ انتظامیہ ان ہلاکتوں کو چھپاتے ہیں
پیرمحمد کاکڑ کے مطابق؛ کمپنیوں کے پاس حٖفاظتی آلات بہت کم ہوتے ہیں جو نہ ہونے کی برابر ہے قانون کے مطابق کانوں میں ککری کی لکڑی لگانا لازمی ہے کیونکہ یہ لکڑی پہاڑ کی پھسلن کو روکنے میں کارآمد ثابت ہوتی ہے لیکن اکثر مالکان ککر کی لکڑی کی بجائے سپیدہ استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر نرم پہاڑ پھسل جاتے ہیں اور اس وجہ سے مزدور اپنے جان گنوا دیتے ہیں۔
پیرمحمد کاکڑ بقول: بلوچستان کے کوئلہ کانوں میں حادثات حفاظتی اقدامات کا فقدان، صحت و سلامتی کے قانون پر عمل درآمد کا نہ ہونا،آگاہی کی کمی،آجر کا غیر ذمہ دارانہ رویہ، جانچ پڑتال کے نظام پر مکمل عمل درآمد کا نہ ہونا، ذاتی حفاظتی سامان کا عدم دستیابی، ابتدائی طبی امداد کا میسر نہ ہونا اور میتھین گیس کا کوئلہ کانوں میں بھر جانے سے پیش آتے ہیں۔
سلطان خان پاکستان مائنز لیبر فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل ہے وہ سمجھتے ہیں کہ کوئلہ کان مالک کو حٖفاظتی اخراجات کے مقابلے میں موت سستی پڑتی ہیں اس لیے وہ حفاظتی اقدامات کوئلہ کانوں میں نہیں جو قانون کی مطابق ہونے چاہیے ، ان کے مطابق کام کے دوران جانحق ہونے والے مزدورں کے اہلخانہ کو ملک کے دیگر صوبوں میں پانچ پانچ لاکھ روپے معاوضہ دیا جاتا ہے لیکن بلوچستان میں یہ معاوضہ محکمہ مائنز اور مائنز مالکان کی گٹھ جوڑ کی وجہ سے لواحقین کو دو لاکھ روپے دی جاتی ہیں۔
سلطان خان کے مطابق: کوئلہ کانوں میں حادثات قوانین پر عمل درآمد نہ کرنا ، کوئلہ کانوں میں متبادل راستہ نہ بنانا، گیس کو چیک نہ کرنا اور ناقص لکڑی کا استعمال کرنا ہے ان کے مطابق اگر کوئلہ کان مالکان اور حکومت مذکورہ باتوں پر سنجیدگی سے عمل درآمد کرے تو کوئلہ کانوں میں حادثات میں کمی واقع ہوسکتی ہیں۔
سلطان خان کے بقول؛ کوئلہ کانوں میں جانحق ہونے والے افراد کی تعداد زیادہ ہوتی ہے لیکن مقامی انتظامیہ اور مالکان اس کو چھپاتے ہیں ان کے مطابق 2018میں حادثات کے دوران 88 مزدور جانبحق ہوئے تھے اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے جبکہ 2019میں یہ تعداد بڑھ کر 98ہوگی بجائے کہ کم ہوتے حادثات میں ہلاکتوں کی زیادہ ہورہی ہیں اور یہ وہ تعداد ہے جو ہم نے جمع کی ہے اصل میں تعداد کہیں زیادہ ہے۔محمدعاطف ہزارہ محکمہ معدنیات و کانکنی بلوچستان میں انسپکٹر اف مائنز ہے وہ حادثات کی وجہ بلوچستان کی پہاڑی جغرافیہ کو قرار دیتا ہے ان کے مطابق بلوچستان میں کوئلے کی کانیں جن پہاڑوں میں موجود ہے وہ جغرافیائی نیچر کے حوالے سے منفرد ہیں ان کے اوپر کی سطح مضبوط نہیں ہے اور کانیوں میں متھین گیس بھی موجود ہوتی ہیں اور کوئلے سے متھین گیس کا اخراج ہوتا ہے ان کے مطابق بعض جگہوں پر پتھروں سے بھی گیس نکل رہی ہوتی ہیں ، اگر اس صورت میں کانکن تھوڑی سی بھی غلطی کرجاتا ہے تو حادثات رونما ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق اکثر حادثات ناعلمی اور کانوں کی جغرافیائی نیچر کی وجہ سے پیش آتی ہیں بعض اوقات تو پہاڑ اچانک اس طرح گرتا ہے کہ معائنے کی دوران اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا ہے حالانکہ لکڑیاں بھی قوانین کے مطابق رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔
محمدعاطف کے مطابق: قوانین پر عمل درآمد ہورہا ہے تو بلوچستان میں چھ ہزار گہرائی سے کوئلہ نکالا جا رہا ہے اسی طرح مزدوروں کی صحت کیلئے حکومت نے باز جگہوں پر بنیادی صحت کے مراکز قائم کئے ہیں اور سنجیدی میں ایک ہسپتال بھی ہے اب ان میں سہولیات کی کمی بیشی ہوسکتی ہیں لیکن ہر کان میں بنیادی دوائیاں موجود ہوتی ہیں اگر خدانخواستہ کسی مزدور کو کوئی بڑا مسئلہ درپیش ہو تو کان مالک یا کمپنی اس کی پابند ہوتی ہیں کہ وہ مزدور کے تمام طبی اخراجات برداشت کرے۔
محمد عاطف کے بقول: ڈیتھ گرانٹ پانچ لاکھ ہے جو حکومت حادثے میں جانبحق ہونے والے مزدور کو ادا کرتا ہے جبکہ کمپنی کی طرف سے دو لاکھ روپیہ معاوضہ دیا جاتا ہے جو کہ دیگر صوبوں میں چار لاکھ سے پانچ لاکھ ہے اس کو بڑھانے کیلئے قانون سازی ہوچکی ہیں اور اس کو منظوری کیلئے اسمبلی بھیجوایا ہیں اب وہ ان کا کام ہے کہ اس کو کب منظور کرلے۔
خواتین کا کانوں میں کام کے بارے میں بات کرتے ہوئے محمدعاطف کا کہنا تھا کہ قانون خواتین کو اجازت نہیں دیتی کہ وہ کوئلہ کانوں میں کام کرے اس لیے بلوچستان میں کوئی بھی خاتون کوئلہ کان میں کان کے اوپر سطح اور زیرزمین کام نہیں کرتی۔لیکن انتظامی امور میں وہ کام کررہی ہیں۔
تنظیموں کے مطابق کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدور بہت سے مشکلات کے شکار ہے ناقص حفاظتی انتظامات اور سہولیات کی فقدان کی وجہ سے ان کی زندگیاں پہاڑوں کی رحم کرم پر ہوتی ہیں حکومت کو اس معاملے میں سنجیدگی سے سوچنا پڑیگا تاکہ مزدورں کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جاسکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں