امریکہ پاکستان کو نہیں چھوڑسکتا

تحریر: انورساجدی
افغانستان کی صورتحال تو ہے گھمبیر ایک لاحقہ کے طور پر پاکستان بھی ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچارہوتا ہے جارہاہے طالبان کابل پردستک دے رہے ہیں اگر اشرف غنی اور ساتھیوں نے آہنی گیٹ نہیں کھولا تو وہ اسے توڑ کر اندر جائیں گے کابل کی40لاکھ آبادی جس خوف اور کرب میں مبتلا ہے اسے صرف وہی محسوس کررہے ہیں ایک ہنستا بستا دلرباشہرجو پھولوں سے بھرا پڑا ہے ایک بار پھر وحشناک خانہ جنگی کا شکار ہونے جارہا ہے امریکہ بگرام کا فوجی اڈہ خالی کرکے فرار ہوگیا اوریہ پہلا موقع نہیں کہ امریکہ کو راہ فرار اختیار کرنا پڑا ہے20سالہ کوششوں کے باوجود امریکہ افغانستان میں طالبان کو زیر نہیں کرسکا اور نہ ہی القاعدہ کی بیخ کنی کرسکا اب تو داعش کا عفریت بھی وہاں پر موجود ہے۔
پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے فرمایا کہ کابل پرحملہ نہیں ہونا چاہئے یہ بڑی گہری بات ہے یعنی افغان حکومت اور شمالی اتحاد لڑے بغیر ہتھیار ڈال دے نہ جانے اشرف غنی کا حشر ڈاکٹرنجیب اللہ جیسا ہوگا یا وہ محفوظ راستہ تلاش کریں گے اگر وہ ڈٹ گئے توخونریزی بڑھ سکتی ہے خانہ جنگی زیادہ خوفناک شکل اختیار کرسکتی ہے۔
عجیب بات ہے کہ جنگ ویتنام میں عوام کے ہاتھوں شکست کے باوجود امریکہ نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ ہی وہ جنگ وجدل اور انسانوں کے قتل عام سے باز آیا بظاہر پاکستانی قیادت کی جانب سے اڈے دینے سے صاف انکار کے بعد امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان میں کارروائی کیلئے قطر کا اڈہ استعمال کرے گا یہ دوبارہ سینٹ کام کا ہیڈ کوارٹر بنے گا ظاہر ہے کہ امریکہ جنگی جہازوں سے میزائل داغ سکتا ہے اور کچھ تو نہیں کرسکتا لیکن یہ میزائل پاکستان کی فضاؤں سے گزرکر افغانستان جائیں گے جدید ٹیکنالوجی کو آسانی کے ساتھ نہیں روکا جاسکتا غالباً پاکستان کے پاس میزائلوں کو مارگرانے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے اگر ہوتو بھی وہ اس حد تک نہیں جائیگا کہ امریکی میزائلوں کو مارگرائے کیونکہ یہ روئے زمین کی سب سے بڑی طاقت کیخلاف براہ راست اعلان جنگ ہوگا ادھر امریکی حکام کاکہنا ہے کہ پاکستان سے رابطے جاری رہیں گے معلوم نہیں کہ یہ رابطے کس نوعیت کے ہیں اور امریکہ اڈے نہ سہی اور کیا سہولیات چاہتا ہے اس بارے میں توصرف عسکری قیادت کو ہی صورتحال کا علم ہے۔
حال ہی میں ایک امریکی مصنف کی نئی کتاب آئی ہے جس میں دلائل کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے کہ امریکہ کسی قیمت پر پاکستان کو نہیں چھوڑسکتا کیونکہ اسے خدشہ ہے کہ اگرامریکہ نے پاکستان کو اپنے حال پر چھوڑا تو یہ ایک اور شمالی کوریا بن سکتا ہے مصنف کے مطابق امریکہ پاکستانی فوج اور جدید اسلحہ سے خوفزدہ ہے اس کا خیال ہے کہ اگرنظر نہ رکھی گئی تو پاکستان نہ صرف اپنے خطہ بلکہ پوری دنیا کے عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے چونکہ مصنف سرکاری عہدیدار نہیں ہے اس لئے اسکی رائے ذاتی ہے کیونکہ امریکہ کا سب سے بڑا مقصد چین کے معاشی اور فوجی پھیلاؤ کوروکنا ہے اس مقصد کیلئے اس نے بھارت کو تذدیراتی پارٹنر بنایا ہے اس کے خیال میں انڈیا ایک بڑا ملک ہے چین سے اسکے شدید اختلافات ہیں بہ وقت ضرورت وہ امریکہ کا ساتھ دے سکتا ہے۔اسکے برعکس پاکستان کبھی چین کیخلاف نہیں جاسکتا اسکی کئی وجوہات ہیں جنہیں بیان کرنے کیلئے بڑا دل گردہ چاہئے اگر امریکہ نے پاکستان کودشمن قراردیا تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ پاکستان ہر معاملہ میں صرف اور صرف چین پرانحصار کرے یہ تو معلوم نہیں کہ پاکستانی قیادت افغانستان کے بارے میں کیا پالیسی اختیارکرے گی لیکن یہ بات طے ہے کہ پشتون ہونے کے ناطہ طالبان سے اسے ہمدردی ہے1996ء میں بھی طالبان پاکستان کی مدد سے کابل پرقبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے اگرچہ وہ ایک مستحکم سیاسی ومعاشی نظام دینے میں ناکام رہے تھے البتہ انہوں نے وفاق المدارس کی گائیڈ لائن کے مطابق شرعی نظام نافذ کیا تھا اور افغانستان کو اسلامی امارات قراردیا تھا پاکستان کو افغانستان کے طالبان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ وہ پاکستانی طالبان کے بارے میں فکر مند ہے اور اسے خدشہ ہے کہ طالبان کے کئی گروپوں کودشمن ممالک بدامنی پھیلانے اور دہشت گردی بڑھانے کیلئے استعمال کریں گے۔جس کی وجہ سے پاکستان کے مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوسکتا ہے بظاہر تو پاکستان کا موقف غیرجانبدارانہ افغانستان کے تمام گروپوں کونمائندگی دینے اور ایک وسیع ولبناد حکومت کے قیام پر مبنی ہے لیکن افغانستان افغانستان ہے وہاں کے اپنے معاملات ہیں وہاں دوبڑے گروپوں میں سے کوئی بھی شکست تسلیم کرنے کا روادار نہیں ہے تاوقتیکہ یہ ریاست شمال اورجنوب کے درمیان تقسیم نہ ہوجائے ظاہری طور پر اشرف غنی جو کہ پشتون ہیں اپنی قوم کی نمائندگی کررہے ہیں لیکن دراصل انہیں وقتی طور پر شمالی اتحاد کی حمایت حاصل ہے کابل کے دفاع کیلئے بھی شمالی اتحاد آگے آکر طالبان کامقابلہ کرے گا گویا وہی صورتحال پیدا ہوجائے گی جو90کی دہائی میں پیدا ہوئی تھی افغان فوج زیادہ تربیت یافتہ نہیں ہے امریکہ کے جانے کے بعد اچانک افغانستان کے مالی وسائل بھی کم ہوگئے ہیں اشرف غنی کیلئے مشکل ہوگا کہ وہ اپنی فوج کو تنخواہیں اور دیگرسہولتیں فراہم کریں چنانچہ یہ فوج یاتو طالبان سے مل جائے گی۔یا لوٹ مار میں مصروف ہوجائے گی۔
دوسری جانب یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ طالبان اگربرسراقتدار آگئے تو اب کی باروہ مختلف ثابت ہونگے وہ پاکستان کے ساتھ سرحدی امور آمدورفت تجارت اور ٹرانزٹ ٹریڈ کے بارے میں واضح معاہدے کرنے کی کوشش کریں گے عین ممکن ہے کہ طالبان کی حکومت مستحکم ہونے کے بعد سرحدی تنازعہ کو زندہ کرے اور سرحد کے دونوں پار آبادی کو آسانی کے ساتھ آنے جانے کی سہولت کامطالبہ کرے یعنی ایک غیریقینی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے اگر پاکستان طالبان سے مذاکرات کرکے انہیں راضی کرے کہ وہ ایک ٹرانزٹ یاپرامن انتقال اقتدار کی راہ ہموار کریں اس کیلئے بہتر ہوگا کہ ایک نگران حکومت قائم کی جائے جو عام انتخابات کا انعقاد کرے جس میں جس گروپ کوکامیابی ملے اقتداراسکے حوالے کیاجائے لیکن افغانستان افغانستان ہے وہاں پر مغربی جمہوریت کی روایات نہیں ہیں گزشتہ دوانتخابات میں شمالی اتحاد نے نتائج تسلیم نہیں کئے تھے جس کی وجہ سے امریکہ کو ثالثی کرنا پڑی تھی اور شمالی اتحاد کے لیڈر عبداللہ تاجک کو چیف ایگزیکٹو کاعہدہ دینا پڑا تھا لہٰذا اس ملک میں آزادانہ انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے اور نہ ہی انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کی روایت ہے خدا کرے کہ نہ ہو لیکن ایک خوفناک خانہ جنگی شروع ہوا چاہتی ہے اگریہ شروع ہوئی تو کابل سے نیچے کا جو علاقہ ہے وہاں سے پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں داخل ہوگی سیکورٹی بریفنگ میں واضح عندیہ دیا گیا ہے کہ پاکستان ان پناہ گزینوں کو قبول کرے گا کیونکہ عالمی قانون یہی کہتا ہے لیکن یہ معاملہ اس وقت واضح ہوگا کہ پناہ گزین کتنی تعداد میں آئیں گے اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہاجاسکتا اس سلسلے میں بلوچستان اور پشتونخوا کے لوگوں کو میزبانی کیلئے تیار رہنا چاہئے کیونکہ یہ وہ وقت نہیں جب ضیاؤ الحق کے دور میں افغان پناہ گزینوں کے آنے کے بعد پشتونخوا میپ نعرے لگاتی تھی کہ افغان بھگوڑوں کو واپس بھیجا جائے اب تو صورتحال بدل چکی ہے پشتونخوا میپ ممکنہ پناہ گزینوں کو خوش آمدید کہے گی افغان صورتحال کے تناظر میں دو بڑی جماعتوں اے این پی اور پشتونخوا میپ کی ہمدردیاں اشرف غنی کے ساتھ ہیں اس لئے طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد ان دونوں جماعتوں کیلئے حالات ناموافق ہوسکتے ہیں طالبان قوم پرستوں کو اپنا حریف بلکہ دشمن سمجھتے ہیں کیونکہ وہ لبرل نیشنلسٹ فورسز کو تسلیم نہیں کرتے وہ اپنے ملک میں اسلامی رواجی اور قبائلی قوانین کو نافذ کرنے میں یقین رکھتے ہیں بنیادی حقوق پر تو وہ یقین نہیں رکھتے انہوں نے گزشتہ دور میں خواتین کے ساتھ جو سلوک روارکھا تھا وہ ساری دنیا جانتی ہے وہ جدید دنیا کی متعدد ایجادات پرپابندی کے حق میں ہیں جن میں انٹرنیٹ اورڈیجیٹل میڈیا بھی شامل ہے تاہم توقع کی جانے چاہئے کہ طالبان افغانستان کوقرون وسطیٰ میں دھکیلنے کی بجائے ایک جدید ریاست بنائیں گے اور تمام طبقات اور اصناف کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھیں گے۔
اے بساآرزوکہ خاک شدہ