لوگ اللہ نذر کے ساتھ ہیں،براہمداغ بگٹی ہو یا خان قلات، دونوں کا مسلح جدوجہد کاروں پر کوئی اثر و رسوخ نہیں، انوار الحق کاکڑ

لندن(انتخاب نیوز) بلوچستان میں حکمران جماعت کے سینیٹر انوار الحق کاکڑ سے جب سوال کیا گیا کہ موجودہ صورتحال میں حکومت کو مذاکرات کی ضرورت کیوں پیش آئی تو اس پر انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ’کبھی اختر مینگل تو کبھی زبیدہ جلال جیسے لوگ کہتے ہیں کہ مذاکرات کریں ان جیسے لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ مسئلے کا حل یہ ہی ہے حالانکہ وہ اصل صورتحال سے لاعلم ہیں وہ مسلح لوگ تو اپنی شناخت اور آزادی کی لڑائی لڑ رہیں وہ تو یہ نہیں کہتے کہ ہمیں سڑک چاہیے یا ہسپتال چاہیے۔‘سینیٹر انوارالحق کاکڑ کا ماننا ہے کہ یہ مذاکرات بھی ماضی کی طرح بے سود ثابت ہوں گے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ براہمداغ بگٹی ہو یا خان آف قلات دونوں کا مسلح جدوجہد کاروں پر کوئی اثر رسوخ نہیں۔’خان آف قلات تو ایک یونین کونسل نہیں جیت سکتا جبکہ براہمداغ بگٹی کا اثر بھی صرف ایک تحصیل تک محدود ہے جبکہ پورے جنوبی مکران میں اللہ نذر (بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ) مضبوط ہے۔ براہمداغ کو کون پوچھتا ہے، چار ہوں یا چار ہزار ہوں جو بھی ہوں وہ لوگ اللہ نذر کے ساتھ ہیں۔‘سینیٹر انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ براہمداغ بگٹی کے لیے واپسی پر بھی مشکلات کم نہیں ہوں گی۔’براہمداغ بگٹی حکومت سے مذاکرات کر کے واپس بھی آ جائیں لیکن قبائل کا سامنے کیسے کریں گے کیونکہ اس لڑائی میں 800 سے 900 بگٹی مارے گئے ہیں وہ تو اسے نہیں چھوڑیں گے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’1992 میں تو فوج نہیں تھی، نواب اکبر بگٹی کی وضاحتوں کے باوجود بھی صلال بگٹی کو مارا گیا تھا اس صورتحال میں براہمداغ خود کو کیسے بچائیں گے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں