سیاسی مزاحمت تاریخ رقم کرتی ہے۔!!!

تحریر: راحت ملک
آزادی کشمیر اسمبلی کے انتخابات مکمل ہوگئے نتائج بھی سامنے آچکے ہیں جو انتخابی مہم کے جلسوں سے قطعی ہم آہنگ نہیں لیکن مجھے نتائج پر حیرت نہیں 21جولائی کو انتخابات کے پس پردہ عوام اور معاملات کے بارے جو کچھ میں نے لکھا تھا بلا مبالغہ ان تقاضوں کیلئے ویسے ہی نتائج در کار تھے جو سامنے آئے یا حاصل کر لئے گئے ہیں۔اگلہ مرحلہ وہاں حکومت سازی کا ہے اپوزیشن کی تمام جماعتیں مل کر بھی حکومت بنانے کی استعدادنہیں رکھتی۔دیکھتے ہیں وہاں کی حکومت کا تاج سینٹورس کے سر پر سجتا ہے یا پی ٹی آئی کے۔!!!
ان انتخابات کے فوری بعد سیالکوٹ حلقہ پی پی38کی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی مسلم لیگ کو تو شکست ہوئی۔مگر اس انتخاب کا فاتح کون ہے؟اس کا ذکر چھوڑیئے صاحب۔یہ کہے دیتا ہوں کہ کسی طور بھی پی ٹی آئی اس معرکے کی فاتح نہیں نکلی۔
محترم مکرم جناب سہیل وڑائچ نے گزشتہ شب جیو کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مذکورہ انتخابی نتائج کا جو تجزیہ پیش کیا ہے وہ بادی النظر میں غلط نہیں لیکن سیاسی اعتبار سے قابل قبول نہیں ہوسکتا، جناب سہیل وڑائچ اپنے مخصوس دھمیے پن کے ساتھ فرماتے ہیں کہ
”مسلم لیگ نون کی رہنماء محترمہ مریم نواز بلا شبہ عوامی مقبولیت کی حامل ہیں وہ کراڈ پولرجلسہ گاہ بھرنے کی بھرپور کشش رکھتی ہیں عوام انہیں سننے کیلئے جوق در جوق آتے ہیں لیکن یاد رکھیں مزاحمتی سیاست اور انتخابی سیاست میں فرق ہوتا ہے۔مزاحمتی سیاست سے بھر پور جلسے ہوسکتے ہیں لیکن انتخابی سیاسی مہم کیلئے مزاحمتی بیانیے کو انتخابی بیانیے میں بدلنا ضروری ہوتا ہے ووٹرز کو یقین دلانا پڑتا ہے کہ ہم جیت رہے ہیں ہم حکومت بنائیں گے اس امید پر عوام ووٹ دینے پر تیار ہوتے ہیں نون لیگ کی سیاست دو دھڑوں میں منقسم ہے۔مریم نواز مزاحمتی سیاسی اجتماعات اور انتخابی مہم کے لئے فعال ہوتی ہیں جبکہ شہباز شریف کو پی ڈی ایم اور پارلیمانی سیاست تک محدود کردیا گیا ہے وہ آزاد کشمیر میں پارٹی کی انتخابی مہم میں نظر نہیں آے یہ بہت اہم سوال ہے،نون لیگ کو اپنے مزاحمتی سیاسی انداز میں انتخابی سیاسی کامیابی کیلئے تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔؟
تبدیلیوں کی نوعیت کے متعلق جناب سہیل نے خاموشی اپنائی پھر اشارے کنایے سے وہ جس جانب اشارہ فرما رہے تھے وہ اب کھلا ” راز ” ہے
اگلے روز محترمہ فردوس اعوان نے بھی ذرائع ابلاغ پر ارشاد فرمایا کہ آزاد کشمیر کے جلسوں میں مریم نواز نے جس طرح کی گفتگو کی وہ ان کی انتخابی شکست کا باعث بنی اسی طرح فوج پر تنقید کے نتائج کا سامنا سیالکوٹ میں بھی سامنے آیا اس حلقے کے ووٹر بھارتی سرحد سے متصل علاقے کے باسی ہیں جو اپنی فوج کے ساتھ محبت وعقیدت رکھتے ہیں وہ فوج پر تنقید اور مودی کے ساتھ ” یاری ” کو برداشت نہیں کرسکتے،مریم نواز نے اپنی پارٹی کو خود تباہ کردیا ہے”
دونوں نقطہ ہائے نظر باہم مماثل ہیں جناب وڑائچ بین السطور میں مزاحمتی بیان یے میں مفاہمانہ اجزائے ترکیبی کی مقدار بڑھانے کی ترغیب دے رہے ہیں ان کے اخلاص پر کچھ کلام نہیں،کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ جس بیانیے یا مزاحمتی سیاسی گفتگو کو سنتیاور جوش وجذبات سے بھر جاتے ہیں۔اسی بیانیے کو ووٹ دینے سے گریز کیوں کر سکتے ہیں؟ دونوں شخصیات کے موقف کی منطقی توضیح نظر نہیں آتی۔ کیا آپ عوام/ ووٹرز کو بالواسطہ طور پر منافق دوغلا اور موقع پرست کہنے کا حق رکھتے ہیں۔؟
تمام جمہوری ممالک میں انتخابی مہم میں عوامی شرکت کی مقدار سے ہی متعلقہ پارٹی کی حاصل عوامی پذیرائی کا اندازہ لگایا جاتا ہے چناچہ اگر عوامی پذیرائی اور انتخابی نتائج میں ہم آھنگ موجود نہ ہو تو انہیں مشکوک تصور کیا جاتا۔ آزاد کشمیر میں نون لیگ کو مجموعی طور جتنے ووٹ ملے اس نسبت سے نشستیں نہیں ملیں دوسرے نمبر پر ووٹ لینے والی جماعت کو پانچ نشستیں جبکہ پیپلز پارٹی کو ملنے والے ووٹ کم مگر گیارہ نشستیں مل گئی ہیں۔۔یہ ریاضی کا عجیب سوال ہے تاہم اس کی ایک درست وضاحت جناب نبیل گبول نے کردی ہے۔جسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔
اسی سال ہونے دس ضمنی انتخابات میں نون لیگ نے سرکاری جماعت کو انتخابی شکست دی نون لیگ اور مریم نواز نے ان ضمنی انتخابات میں آئین جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر مبنی اپنے مزاحمتی بیانیے کو ببانگ دھل۔ بار بار دھریا۔اور فتحیاب ہوئیں یہ نتائج بھی جناب سہیل وڑائچ اور محترمہ فردوس عاشق کے موقف کی تائید نہیں۔ بلکہ نفی کرتے ہیں۔ دوسری طرف حکمران جماعت جو کاسہ لیسی سے مزین ہے اور مزاحمتی بنانیے کی آئینی جمہوری توضیح کرنے کی بجائے اسے” دفاعی محکمے” کی کردار کشی قرار دینے پر مصرہتی ہے کیا وہ تسلیم کرے گی کہ دس ضمنی انتخابات میں اس کی انتخابی شکست ” ملکی ادارے” کے ساتھ عوام کی نفرت کا اظہار تھی؟ یقینا ایسا سوچنا یا قرار دینا سیاست کی کیمسٹری سے ناواقف اور اسے مزید آلودہ کرنے کے مترادف ہے،ملک کی کوئی بھی جمہوری جماعت جو آئین پارلیمنٹ اور جمہوری اقدار کی بالادستی عوامی حاکمیت کی پاسداری پر پختہ یقین رکھتی ہو وہ ملک کے دفاع کے ذمہ دار محکمے کے پیشہ وارانہ کردار کی اہمیت۔ افادیت اور ضرورت سے انکار نہیں کرسکی، کیونکہ آئین ملک کی جغرافیائی سالمیت،خود مختاری اور حق حاکمیت پر غیر متزلزل یقین رکھنے کی شرط عائد کرتا ہے۔دفعہ چھ پر عملداری سے قبل آئین پاکستان دفعہ 5کی مکمل پاسداری کا متقاضی ہے، تو یہی آئین ریاست کے تمام اداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا توازن قائم کرتا اور،تین ستون پر ریاست کی بیناد اٹھاتا ہے(واضح رہے کہ آئین سے عاری ملک۔ مملکت یا سلطنت ہوتا ہے) پاکستان ایک آئینی ریاست ہے جس میں طاقت کے تین متوازن حصے ہیں،مقننہ،انتظامیہ اور عدلیہ۔
انتظامیہ کے مختلف محکموں میں ملکی سرحدوں کی نگہبانی و دفاع پر مامور محکمہ دفاع بھی شامل ہے (آجکل اسے ریاست کی غلط العام اصطلاح سے پکارنیکا چلن ہے) جس کے افسران فوج کا قابل احترام یونیفارم پہنے ہوئے ملک کے آئین کی مکمل پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔
اس مثالی کردار سے جب جب عملاً انحراف ہوتا ہے تو سیاسی عمل سکڑنے لگتا ہے عوام،شہری رتبے سے گر کر سلطنت کی رعایا بن جاتے ہیں، اور اپنی فوقیت یا حاکمیت کھونے کے بعد بعید نہیں کہ وہ آئین شکنی کے کسی بھی اقدام یا کردار پر تقنید نہ کریں،یہی تنقید سیاسی لغت و جہد میں پرامن سیاسی مزاحمت کہلاتی ہے۔بدقسمتی جمہوری عمل میں مداخلت ورخنہ اندازی سے مستفید ہونیوالے کچھ افراد یا جماعتیں اس مزاحمتی سیاست کو ناکام بنانے کے لیے اسکی غلط توضیح. کے ذریعے اسے بدنام کرتے ہیں تاکہ اپنے محدودگروہی شخصی وسیاسی مقاصد کے متوتر حصول کیلئے ایسے فوج مخالف بیانیہ قرار دینے جیسی بھیانک حرکت سے بھی گریز نہیں کرتے،
بہ الفاظ دیگر اس انداز بیان سے وہ خود کو نیک یارسا محب وطن جبکہ آئینی مثالیت پسندوں کو یدکردار ڈاکو اور ملک دشمن کہتے ہیں، یہ انتہائی بھیانک بچگانہ طرز عمل ہے جس سے ملک میں سیاسی اتفاق رائے واستحکام کی بجائے اضطراب اور بے یقینی پھیلتی ہے۔
سیالکوٹ کے ضمنی انتخاب میں جیسا کہ محترمہ فردوس اعوان نے دلیل دی ہے۔ ” مزاحمتی بیانیہ مسترد ہوا ہے” مگر اس انتخابی نتیجے میں فیصلہ کن کردار تو پی ٹی آئی و قاف لیگ کے سرکاری امیدوار کو ملنے والے سات ہزار ملنے والے وہ ہیں جنہوں نے برتری دلائی ہے باقی ووٹ تو دونوں پلڑوں میں برابر تھے اس تناظر میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ نون لیگ کو ملنے والے ووٹ مزاحمت کے حمایتیوں کے تھے جبکہ فیصلہ کن ووٹ وہ تھے جنہیں جناب سہیل وڑائچ انتخابی بیانیہ بدلنے کی ترکیب وترغیب سے ظاہر کررہے ہیں یعنی مفاہمت یا جمہوری نظام سے دستبرداری!!! توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ جمہوری انتخابات میں تو عملاً دو فریق شریک ہوتے ہیں، اول متحارب امیدواران اور ان کی جماعتیں اور دوم عوام یا ووٹر، پھر مزاحمتی سیاسی بیانیے کو انتخابی کامیابی کیلئے بدلنے کے معنی کیا ہونگے؟جناب سہیل وڑائچ اور فردوس اعوان صاحبہ جو کچھ کہہ رہی ہیں وہ دراصل مزاحمت کو مفاہمت میں بدلنے کی ترغیب ہے۔کس قسم کے مفاہمتی انداز میں بدلنے کی کی خواہش؟ سوچنا یہ ہے کہ کسی ملکی ادارے کے حکام بالا کے ساتھ سیاسی انتخابی امیدواران کو مفاہمت کرنی چاھیے تاکہ وہ انتخاب جیت. سکیں؟سیاسی جماعتوں کو آئین پاکستان کی پاسداری کے ساتھ؟ یا پھر عوام کو رواں تلخی ایام کے تسلسل کے ساتھ مفاہمت کرلینی چاہیے؟
صحافتی و جمہوری حلقوں کی رائے ہے کہ
جناب شہباز شریف نے آزاد کشمیر اور سیالکوٹ کے انتخابی عمل سے فاصلہ اختیارکر کے اپنی سیاسی ساکھ پر آئین وعوام دوست نہ ہونے کا الزام مضبوط کیا ہے۔ کیا اسی مفاہمت کی تبلیغ ہر جانب سے ہورہی ہے تو کیوں؟
تاریخ تو مزاحمتی عمل کا ساتھ دیتی ہے!!!، ہم تاریخ کی درست سمت میں کھڑا ہونے سے خائف کیوں ہیں؟
حرف آخر۔ضمنی انتخابات کے عرصہ میں مزاحمتی بیانیے کی راہ مسدودکرنے کی اگر کوشش نہیں ہوئی تو اسے ہی کامیابی ملی۔ اس عنائت کا ممکنہ طور ایک غایت یہ بھی رہی ہوگی کہ مفاہمت کاری کی کوشش کار گر ہوسکے مگر ایسا ہوا نہ ہونے کی امید باقی رہی چنانچہ مزاحمتی سیاسی بیانیے کو روندنے کا فیصلہ ہوگیا۔آزاد کشمیر سے سیالکوٹ تک اور بس!!!

اپنا تبصرہ بھیجیں