عاصم سلیم باجوہ اور آزاد میڈیا

تحریر: انورساجدی
عاصم سلیم باجوہ جب کوئٹہ سے رخصت ہوئے تھے تو منظر قابل دیدنی تھا ہر طرف بگل باجے گونج رہے تھے موصوف ایک شاہی بگھی میں سوار تھے اور موقع پر موجود حاضرین سے داد وصول کررہے تھے ایسا لگتا تھا کہ برٹش راج کا کوئی وائسرائے اپنی مدت پوری کرکے واپس ولایت جارہا ہے ولایت توعاصم سلیم باجوہ کو بھی جانا ہی ہے لیکن فی زمانہ ولایت انگلینڈ نہیں امریکہ ہے اور قوم کے بڑے محسن کو وہاں پر جانا ہے وہاں انہوں نے اپنی جمع پونجی سے پاپا جونز پیزے کی فرنچائز حاصل کررکھی ہے امریکہ جیسے ملک میں اگر مالک موجود نہ بھی ہوتو سسٹم سے کاروبار چلتا ہے کوئی رکاوٹ نہیں آتی اسی لئے انہوں نے سی پیک کی چیئرمنی بھی سنبھالی اور کاروبار بھی کرتے رہے نہ جانے وزیراعظم کو کیا سوجھی کہ انہوں نے باجوہ صاحب کو اپنا معاون خصوصی مقرر کردیا پبلک آفس میں آنے کے بعد انہیں اپنے اثاثے ڈیکلیئر کرنا پڑے یہ ظاہری اور باطنی اثاثے دیکھ کر دنیا حیران رہ گئی کیونکہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ایک معصوم شخص بھی ارب پتی ہوسکتا ہے چونکہ دشمنان بہت تھے اس لئے انہوں نے ان اثاثوں کا کھوج بھی نکالا جو ظاہر نہیں کئے گئے تھے پاکستان سے فرار ہوکر امریکہ جانے والے صحافی احمد نورانی تو جنرل صاحب کے پیچھے پڑ گئے انہوں نے ساری دولت کا فرانزک آڈٹ کرڈالا چونکہ صحافی نورانی معقوب تھے اس لئے اسے را کا ایجنٹ قراردے کر اس کی رپورٹ کو سی پیک کیخلاف اذلی دشمن کی سازش قراردیا گیا باجوہ صاحب چونکہ بااصول شخص تھے اس لئے اسکینڈل آنے کے بعد انہوں نے وزیراعظم کو استعفیٰ پیش کیا جو کہ قبول نہیں کیا گیا وزیراعظم خود بھی بہت ہی بااصول اور کرپشن کے سخت خلاف ہیں اس لئے انہوں نے جنرل صاحب کی ذاتی وضاحت کوکافی سمجھ کرقبول کیا اور کہا کہ کام جاری رکھیں اس دوران بدخواہوں نے بڑی افواہیں پھیلائیں تاکہ چین کو نادرض کرایا جاسکے کہ باجوہ صاحب کا سارا کاروبار امریکہ میں ہے اس لئے وہ سی پیک کو سست روی کا شکار کردیں گے تاکہ امریکہ خوش ہوجائے لیکن چین نے یقین نہیں کیا تاہم داسو کے واقعہ کے بعد جب چین اضطراب کا شکار ہوا تو غالباً اس نے باجوہ صاحب کے بارے میں بھی کوئی بات کی ہوگی اسے بھانپ کر انہوں نے منگل3جنوری کو اپنا حتمی استعفیٰ دے ڈالا وجہ یہ تھی کہ وزیراعظم نے ان کے استعفیٰ سے قبل ہی خالد منصور نامی شخص کو سی پیک کا سربراہ مقرر کردیا تھا اور ان کے معاوی خصوصی کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوچکا تھا خالد منصور وفاقی وزیر اسد عمر کے نائب رہے ہیں ان کے جانے کے بعد وہ پاکستان کی سب سے بڑی نجی کمپنی اینگرو یوریا کے سی ای او رہے غالباً ان کا نام اسدعمر نے پیش کیاہوگا۔
عاصم سلیم باجوہ ایک تذدیراتی ماہر تھے بلوچستان کو دوحصوں میں تقسیم کرنے کا آئیڈیا انہی کا تھا تاکہ ساؤتھ بلوچستان میں ترقی کی رفتار کو تیز کیاجاسکے انہوں نے مختصر مدت میں ایک بڑا پلان تیار کیا تھا جس کے تحت مشکے سے لیکر جیونی تک کے بہت ہی مشکل علاقے کو قوم دھارے میں شامل کرنا تھا سرنڈر کرنے والے جنگجوؤں کیلئے قومی دھارے میں آنے کی اصطلاح بھی انہی کی ایجاد تھی جب عمران خان نے محکمہ اطلاعات انہیں سونپا تو انہوں نے ایسا کام کردکھایا جو انفارمیشن منسٹری کے لوگ آج تک نہیں کرسکے تھے میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی ان کی ذاتی کاوشوں کا نتیجہ ہے انہوں نے ایسے قوانین مرتب کئے کہ پاکستان میڈیا تاابد تابع فرمان رہے اس قانون پر عملدرآمد کے بعد نہ صرف میڈیا کی تمام اقسام ایک ہی میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے کنٹرول میں آجائے گی بلکہ آزاد میڈیا کاوجود مکمل طور پر ختم ہوجائے گا اگر انہیں اطلاعات کے معاون خصوصی کی حیثیت سے قبل از وقت استعفیٰ نہ دینا پڑتا تو یہ قانون کب کالاگو ہوچکا ہوتا وہ جدید ابلاغ اور ہائبرڈ وافیئر اور پروپیگنڈہ کے ماہر تھے اپنے دور میں انہوں نے آئی ایس پی آر کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا نہ صرف یہ بلکہ پہلی بار آئی ایس پی آر نے اپنے کام کے علاوہ دیگر میڈیا کو بھی کنٹرول کیا مجھے حقیقت کا علم تو نہیں لیکن میراگماں ہے کہ وہ علاقائی میڈیا یا ریجنل پریس پر یقین نہیں رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے دور میں یہ میڈیا جو جان بلب ہوا تو آج تک آئے سی یو میں ہے حالانکہ یہ بے ضرر میڈیا کسی کو نقصان پہنچانے کے قابل نہیں تھا باجوہ صاحب جس قومی میڈیا کے حامی تھے وہی اس کا اسکینڈل سامنے لے آیا جس کی وجہ سے بالآخر جنرل صاحب کا کیریئر تمت باالخیر کوپہنچا ان کے دور میں کراچی سے شائع ہونے والے دو میڈیا ہاؤس بھی بری طرح زد میں آئے جس کا فائدہ پنجاب کے میڈیا نے اٹھایا غالباً اس کے پاس حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ تھا ویسے تو ہر سیاسی حکومت اشتہارات کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی تھی لیکن باجوہ صاحب نے اس ہتھیار کا استعمال سیکورٹی کے حوالے سے کیا ان کا خیال تھا کہ علاقائی پریس کی کوئی افادیت نہیں ہے صرف ایک قومی پریس ہوناچاہئے لیکن جب سوشل میڈیا کا انقلاب آیا تو ان کا سارا پلان چوپٹ ہوگیا کیونکہ سوشل میڈیا کی توڑنکالنا یا اسے اپنے کنٹرول میں لانا ممکن نہ تھا اس کے لئے چین،روس،ترکی اورایران کے طریقہ کار کا جائزہ لیا گیا اسی کی روشنی میں نئے قوانین وضع کئے گئے اگرعمران خان 2023ء کے انتخابات میں دوتہائی اکثریت لے کر آگئے تو ان کا پہلا کام میڈیا سے متعلق نئے قوانین کو نافذ کرنا ہوگا اس وقت چونکہ انہیں دوتہائی اکثریت حاصل نہیں ہے اس لئے وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ آسانی کے ساتھ ان قوانین کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کرواسکے لیکن میڈیا سے ان کا جو بغض اور عناد ہے وہ بڑھتا جارہا ہے وہ پرنٹ میڈیا کا ایک طرح سے خاتمہ کرچکے ہیں وفاقی اشتہارات کاکوٹہ کم کیا گیا ہے جو ہیں وہ صرف نام نہاد کارپوریٹ میڈیا کو جاری کئے جارہے ہیں پرنٹ میڈیا عدم تحفظ غیر یقینی صورتحال اور مالی بحرانوں کا شکار ہے ایک چال کے طور پر پرنٹ میڈیا کا حصہ کاٹ کر الیکٹرانک میڈیا کو جاری کیا گیا تاہم بہت جلد مالی معاونت من پسند سوشل میڈیا کی طرف موڑدی گئی موجودہ حکومت کا خیال ہے کہ معاشرے کی خرابی افراتفری اورسیاسی عدم استحکام کی ذمہ دار میڈیا ہے لہٰذا اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں جو اخبارات شائع ہورہے ہیں ان کی تعداد 10ہونی چاہئے وہ بھی حکومتی ایڈوائس کے پابند ہوں اسی طرح جو درجنوں نیوزچینل ہیں ان کی ضرورت بھی نہیں ہے خبروں کے لئے پی ٹی وی کافی ہے جبکہ باقی چینلوں کو تفریحی پروگراموں تک محدود ہونا چاہئے ٹی وی چینلوں کو کنٹرول کرنے کیلئے حکومت نے من پسند اینکر اور پروگراموں میں شرکت کیلئے حکومت کے حامی لوگوں کو بلانے کی ہدایت کی تھی جس پر کامیابی کے ساتھ عمل کیاجارہا ہے اس کے ساتھ ہی کمرشل ٹی وی چینلوں کو حکومتی سرمایہ داروں نے خریدنا شروع کردیا ہے تاکہ مخالفین کیلئے کوئی گنجائش باقی نہ رہے اور تو اور صوبائی محکموں کو بھی وفاقی حکومت کنٹرول کررہی ہے پشتونخوا اور بلوچستان تو ہیں مرکز کے ماتحت لیکن حیرانی کی حد تک صوبہ سندھ بھی اسی پالیسی پر چل رہا ہے جو مرکزی اداروں نے وضع کی ہے۔
جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے پرنٹ میڈیا کے نمائندوں اور حکومتی اکابرین کے درمیان بحث ومباحثہ چل رہا ہے میڈیا کے نمائندوں کا موقف ہے کہ اگر حکومت اشتہارات جاری نہیں کرنا چاہتی بے شک نہ کرے لیکن اپنی خبریں اور تصاویر بھی اشاعت کیلئے نہ بھیجے اس کے ساتھ وہ خبروں کی اشاعت بھی نہ روکے اس کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ اخبارات کوئی کردار ادا کرنے کے قابل ہیں کہ نہیں مثال کے طور پر اگراخبارات نے حکومتوں کے مالیاتی اسکینڈل شائع کرنا شروع کردیئے یا حکومتی شخصیات کے اخلاقی معاملات اچھالنا شروع کردیئے تو حکومت کو لینے کے دینے پڑیں گے اس صورت میں سوشل میڈیا خودبخود پرنٹ میڈیا کی تقلید کرنے پر مجبور ہوجائے گی جس کی وجہ سے بھونچال آجائے گا۔
چونکہ تحریک انصاف حقیقی جمہوریت کے نفاذ کی مخالف ہے وہ ایک کنٹرول اسلامی جمہوری نظام چاہتی ہے جس کا خاکہ جنرل ضیاؤ الحق نے ترتیب دیا تھا اس لئے وہ آزاد میڈیا کے حق میں نہیں ہے اسی وجہ سے جناب عمران خان نے اخبارات پڑھنا بند اورٹی وی چینل دیکھنا چھوڑدیئے ہیں وہ صرف اپنے تعریفی پروگراموں کی ریکارڈنگ دیکھتے ہیں ان کا موقف ہے کہ پاکستان میں میڈیا مادربدرآزاد ہے جس کی ہمارے سماج میں گنجائش نہیں ہے حالانکہ دنیا بدل رہی ہے ٹیکنالوجی میں انقلاب برپا ہے دنیا سکڑ گئی ہے اس انقلاب کو کوئی بھی حکومت نہیں روک سکتی اور اگرحکومت اس خوش فہمی میں ہے کہ وہ چین،روس،ترکی اور شمالی کوریا جیسا نظام لاسکتا ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا ایسا نظام لانے والے حکمران خود صفحہ ہستی سے معدوم ہوجائیں گے آج ڈونلڈ ٹرمپ کہاں ہے وہ بھی میڈیا کے سخت مخالف تھے حالانکہ بہت طاقتور حکمران تھے ہمارے حکمران تو بہت کمزور ہیں وہ کیسے آمرانہ نظام لانے میں کامیاب رہیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں