انوکھاسافٹ ویئر
تحریر: انورساجدی
بظاہر اسلام آباد میں جرائم سے قطع نظر امن وآشتی اور خوشحالی کا دور دورہ ہے عمرانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ہرلحاذ پر کامیابیاں قدم چوم رہی ہیں معیشت جمپ لگاکر کھڑی ہوگئی ہے سیاسی استحکام بھی مثالی ہے حکومت کوکوئی خطرہ نہیں ہے کشمیر میں فتح کے جھنڈے گاڑھنے کے بعد حکمران جماعت نے ڈسکہ کاضمنی انتخاب بھی جیت لیا ہے اپوزیشن نیم بے ہوشی کی حالت میں ہے لہٰذا کسی طرف سے بھی کوئی چیلنج درپیش نہیں ہے کل سے وزراء اورحکومتی اکابرین آسمان سر پہ اٹھائے ہوئے ہیں کہ نوازشریف کے ویزے میں توسیع مسترد ہوگئی ہے ایسی صورت میں جبکہ ان کا پاسپورٹ بھی منسوخ ہوچکا ہے لہٰذا وہ برطانیہ سے نکلے ہی نکلے۔
لیکن زمینی حقائق حکومتی دعوؤں کے برعکس ہے مثال کے طور پر داخلی محاذ پر بے شک سرپرستوں کی آہنی گرفت کی وجہ سے حالات ٹھیک نظرآرہے ہیں لیکن خارجہ محاذپر ناکامی ہی ناکامیاں دکھائی دے رہی ہیں داسو کے واقعہ کے بعد جب ہمارے رنگ رنگیلے وزیرخارجہ معافی مانگنے چین گئے تو وہاں ان کے ساتھ دوستانہ سلوک نہیں ہوا بلکہ ایئرپورٹ پر کوئی چینی اہل کار انہیں لینے نہیں آیا البتہ اگلے روز چینی وزیرخارجہ سے ان کی ملاقات ہوئی جس کا نتیجہ عاصم سلیم باجوہ کی رخصتی کی صورت میں نکلا اسی طرح کاسلوک بلکہ اس سے بدتر سلوک قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کے ساتھ واشنگٹن میں ہوا حالانکہ وہ امریکی شہری وہاں کی درسگاہوں سے تعلیم یافتہ اور امریکہ تھنک ٹینکس سے وابستہ رہے ہیں لیکن ڈپلومیسی کے میدان میں ناتجربہ کار اور نووارد ہیں سوشل میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق یا دروغ برگردن راوی ان کی ملاقات امریکی قومی سلامتی کے مشیر سے ہوئی لیکن یہ ملاقات کسی خاص اہتمام کے بغیر ایک ایسے کمرے میں ہوئی جو انتظار گاہ تھا جہاں کوئی پرائیویسی نہیں تھی ملاقات کیلئے10منٹ کاوقت دیا گیا تھا جو ایک منٹ پہلے ختم ہوگئی ناتجربہ کار مشیر نے ملاقات کے بعد اپنی ناراضگی کااظہار شہرہ آفاق روزنامہ فنانشل ٹائمز کو ایک انٹرویو میں کیا اور دھمکی دی کہ اگرامریکہ نے رویہ نہ بدلا تو پاکستان کے پاس دیگرآپشن ہیں انہوں نے یہ حرکت بھی کی کہ انٹرویو میں کہہ ڈالا کہ آخر صدرجوبائیڈن ہمارے وزیراعظم عمران خان کو ٹیلی فون کال کیوں نہیں کرتے مشیر سلامتی بھول گئے تھے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد جناب عمران خان نے قومی اسمبلی میں آکر کہا تھا کہ وہ مودی کو کال ملاتے ہیں لیکن وہ ان کی کال نہیں سنتے اگرمودی جیسا چھوٹا آدمی ٹیلی فون سننے کے روا دار نہیں ہیں تو امریکی صدر ان کی کال کیوں سنیں گے۔
امریکی صدر نے اب تک جن رہنماؤں سے ٹیلی فون پر بات کی ہے ان میں سعودی فرماں روا شاہ سلمان اسرائیلی وزیراعظم اردن کے شاہ عبداللہ افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی اورجنوبی کوریا اور جاپان کے لیڈر شامل ہیں روسی صدر پوٹن سے امریکی صدر نے ایک طویل ملاقات بھی کی جوبائیڈن اتنے ضدی ہیں کہ سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل کولیکر وہ ولی عہد محمدبن سلمان سے بات چیت کے روادار نہیں وہ ترکی کے بڑھک باز صدر طیب اردگان کو بھی ناپسند کرتے ہیں لیکن سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ ہردلعزیز پاکستانی وزیراعظم سے کیوں کنی کتراتے ہیں حالانکہ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے ہمارے نزدیک پاکستان اہم ترین ملک ہے امریکہ ایسا نہیں سمجھتا اس کی ناراضی کی کیا وجوہات ہیں یہ اگر ڈپلومیسی کے ماہرین ہی بتاسکتے ہیں بظاہر امریکہ کو طالبان کے حوالے سے شکایات ہیں ایک لاکھ وضاحتوں کے باوجود امریکہ بضد ہے کہ طالبان کو پاکستان کی پشت پناہی حاصل ہے حالانکہ طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز تک پاکستان ہی لے آیا اگرچہ امریکہ صدرجیسی قد آور شخصیت چھوٹی باتوں کو اہمیت نہیں دیتا لیکن ڈونلڈٹرمپ کی حمایت اور پاکستانیوں کو اس کے حق میں ووٹ ڈالنے کی تلقین سے جوبائیڈن کو شدید رنج وغم ہے واشنگٹن میں تصور کیاجاتا ہے کہ کسی بھی مسئلہ پر پاکستانی حکومتوں کا موقف واضھ نہیں ہوتا اور وہ دوغلی پالیسیوں پرچلتے ہیں زیادہ دور کی بات نہیں جب پاکستان کی حکومت سے چینی انجینئروں کے قتل کوحملہ کی بجائے حادثہ قراردیاتو چین سخت ناراض ہوگیا اس کا موقف تھا کہ ایک واقعہ کو غلط رنگ دینے کی کیا ضرورت تھی امریکہ میں عمومی طور پر یہ تاثر پایاجاتا ہے کہ عمران خان ایک منتخب لیڈر نہیں ہیں بلکہ انہیں انجینئرنگ انتخابات کے ذریعے کامیابی دلوائی گئی ہے وہ ایک فرنٹ مین اور کٹھ پتلی ہیں عوام میں ان کی پذیرائی کا پروپیگنڈہ جھوٹ پر مبنی ہے یقینی طور پر حالیہ کشمیری انتخابات میں جس طرح سے تحریک انصاف کو کامیابی دلوائی گئی عالمی سطح پر تحریک انصاف کے بارے میں کٹھ پتلی ہونے کے تاثر کو مزید تقویت ملی ہوگی۔
لیکن اندازہ یہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ دنیا اسکے بارے میں کیا کہتی ہے وہ جانتی ہے کہ جب تک اوپر کی آشیرباد حاصل ہے کوئی اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا ویسے بھی اس کا کوئی خاص ہدف نہیں ہے اس کا واحد ہدف حکومت کرنا اور اپنے لوگوں کو یایوتھیا بریگیڈ کو خوش رکھنا ہے کیونکہ یہ حکومت جانتی ہے کہ اس کے حدود وقیود کیا ہیں اسے پتہ ہے کہ خارجہ پالیسی چلانا اس کی ذمہ داری نہیں ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ آج تک جتنی اہم ملاقاتیں ہوئی ہیں وہ عمران خان سے نہیں ہوئیں خارجہ پالیسی کاایک اہم فیکٹر افغانستان ہے لیکن اسے سیکورٹی مسئلہ قرار دے کر حکومت کو رائے زنی یا دخل اندازی سے دور رکھا گیا ہے اسی طرح داخلی سیکورٹی سے بھی حکومت کو دور رکھا گیا ہے بس ایک وزیرداخلہ چنا گیا ہے جو کہ اصل میں ادھر کا آدمی ہے عمران خان کا آدمی نہیں اسی طرح اسد عمر کے بعد جو دووزرائے خزانہ آئے ان کاتعلق بھی تحریک انصاف سے نہیں ہے حفیظ شیخ رضا باقر اور شوکت ترین بھی دیوار کی اس طرف کے لوگ ہیں وہی پالیسی چلارہے ہیں جو دیوار سے اس طرف طے ہوتی ہے چونکہ امورمملکت چلانے کیلئے ایک ظاہری چہرے کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا ہمارے وزیراعظم وہی کردارادا کررہے ہیں۔ان کا سب سے بڑا کام کرپشن کیخلاف نام نہاد اپنے جعلی بیانیہ کو عوام میں زوردار طریقہ سے پیش کرتا ہے گزشتہ تین سال سے اسے جو رٹہ یادکروایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ نوازشریف اور زرداری بڑے ڈاکو ہیں انہوں نے نہایت بے شرمی اور بے رحمی کے ساتھ ملک کو لوٹا ہے اور یہ کہ کسی کو این آر او نہیں دوں گا اسے پتہ ہے کہ مخالفت سیاستدانوں کیخلاف نیب اور ایف آئی اے کن کے احکامات پرعملدرآمد کرتے ہیں اگریہ ہتھیار نہ ہوں تو حکومت کو کون پوچھے گا۔
پس دیوار تصویر انتہائی ہولناک ہے کیونکہ موجودہ حکومت کے وزراء اور بڑے اکابرین نے تین سال کے عرصہ میں وہ گل کھلائے ہیں جو زرداری اور نوازشریف 10سال میں بھی نہیں کرسکے تھے یہی وجہ ہے کہ جہانگرترین کو زبردستی این آر او دیاجارہا ہے تاکہ وہ اپنی زبان بندرکھے۔ان سے یقین دہائی حاصل کرلی گئی ہے اگرانہوں نے اپنا گروپ ختم نہ کیا تو گروپ میں شامل لوگوں کا براحشر کردیا جائیگا بہت جلد توتلے راجہ ریاض کی باری آنے والی ہے لوٹ والی سرکاری فیصل واؤڈا نے باالکل سچ کہا تھا کہ جہانگیرترین کا گروپ ایک ایس ایچ او کی مارہے اگرحکومت اسی طرح ڈراؤ دھمکاؤ اورمارو کی پالیسی اختیار کرے تو ظاہر ہے کہ کون میدان میں ٹھہرے گا۔
دہلی پرانگریزوں کے قبضہ کے بعد ہندوستان کے عظیم ترین شاعر مرزا غالب نے ایک قصیدہ لکھا لیکن اسکے آخر میں لکھ دیا کہ قصیدہ نہ لکھوں تو کیا کروں آخر کو پیٹ بھی لگاہوا ہے۔
اسی طرح کا کام نوازشریف کے متوالے ”خواجہ سیالکوٹیا“ نے بھی کیا جیل کے اندرمعافی مانگنے اور اس کے بدلے رہائی پانے کے بعد انکشاف کیا کہ ان کا سافٹ ویئراپڈیٹ ہوچکا ہے یہ بات اتنی وائرل ہوئی کہ آج کل اسے ضرب المثل کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے یعنی جو لوگ سرنڈر کریں توبہ تائب سے کام لیں اور حکومت کے ساتھ مل جائیں تو ان کے بارے میں کہاجائیگا کہ ان کا سافٹ ویئراپڈیٹ ہوچکا ہے یعنی وہ راہ راست پر آگئے ہیں غالباً حکومت اور اس کے سرپرستوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کا زور توڑنے کیلئے ضروری ہے کہ ان کا سافٹ ویئردرست کیاجائے چنانچہ پنجاب میں ن لیگ کے اراکین اسمبلی کیخلاف جلد ایک کریک ڈاؤن شروع ہونے والا ہے جبکہ سندھ میں آپریشن کے نام پر پیپلزپارٹی کے تمام رہنماؤں کو ڈاڑھیل قراردیا جائیگا جن میں وزراء اور ایم پی اے بھی شامل ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ آئندہ سال تک تحریک انصاف کیلئے راہ ہموار کی جائے تاکہ ضروری ایکٹیشن کے بعد اسے2023ء کے انتخابات میں دوبارہ کامیابی دلوائی جاسکے۔
لیکن یہ مدت کافی دور ہے اس دوران داخلی اور خارجی طور پر بہت کچھ ہوسکتا ہے یہ ممکن نہیں کہ آئندہ مدت کو چرانے کیلئے پیشگی تیاری کرلی جائے۔بلکہ آئندہ مدت میں نیب اور ایف آئی اے موجودہ حکومت کے وزراء اور اکابرین کیخلاف اسطرح کارروائی کررہے ہونگے جو گزشتہ تین سال میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کیخلاف کررہے ہیں انہیں سرچھپانے کی جگہ نہیں ملے گی اگرنوازحکومت میں ایل این جی 9ڈالر پرخریدنا کرپشن ہے تو موجودہ دور میں 15ڈالر کا سودا کیا ہے بڑے بڑے اسکینڈل جنم لے چکے ہیں لہٰذا حکومتی اکابرین کو سوچنا چاہئے کہ وہ اپنا سافٹ ایئرکس سے اپڈیٹ کروائیں گے۔