تاریخی غلطی

تحریر: انورساجدی
جوآمریت ہے اس کے پاس طاقت ہوتی ہے طاقت ادارے ہوتے ہیں قانون کی لاٹھی ہوتی ہے اس لئے اس سے صف آزا عناصر کمزور ہوتے ہیں انہیں کسی وقت بھی زیر کیاجاسکتا ہے ریاست میں طاقت کا استعمال ایوب خان نے شروع کیا تھا اس کے اردگرد طابع آزماؤں کی فوج ظفرموج جمع تھی مارشل لاء کے نفاذ سے لیکر زوال تک ایوب خان کو ایک مطلق العنان حکمران کے اختیارات حاصل تھے کسی دن مصاحبین کے بہکاوے میں آکر انہوں نے دوسری مدت کیلئے صدارتی الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیاالیکشن سے پہلے انہوں نے اپنی ایک عدد مسلم لیگ بھی قائم کررکھی تھی جس کا نام تھا کونسل مسلم لیگ جب ایوب خان نے1964ء میں اعلان کیا کہ وہ صدارتی الیکشن لڑیں گے تو ان کو خوش فہمی تھی کہ ان کا کوئی مدمقابل کوئی متبادل امیدوار موجود نہیں ہے لیکن جب بانئی پاکستان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح ان کیخلاف کھڑی ہوگئیں تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے محترمہ کا بطور امیدوار انتخاب اس وقت کے بڑے لیڈروں باچا خان اور ساتھیوں نے کیا تھا ایوب خان نے ناموافق حالات دیکھ کر یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ محترمہ فاطمہ جناح غدار اور آزاد پختونستان کے حامی ہیں اگرچہ بہ راہ راست الیکشن نہیں تھا حلقہ انتخاب بی ڈی ممبروں پر مشتمل تھا لیکن محترمہ کی شخصیت اتنی پاور فل تھی کہ ایوب خان گھبراگئے موصوف کو یہ پتہ تھا کہ مشرقی پاکستان سے انہیں ووٹ نہیں ملیں گے کیونکہ رہاں پر شیخ مجیب کھل کر میدان میں آگئے تھے یہ وہ زمانہ تھا کہ تمام میڈیا ایوب خان کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا تھا پریس اینڈ پبلیکشنز کاقہرآلود قانون نافذ تھا حکومت کی مرضی کے بغیر کوئی خبرشائع نہیں ہوسکتی تھی اس کے باوجود محترمہ کی مہم کامیابی سے چل رہی تھی وہ جہاں جاتیں ہزاروں افراد استقبال کیلئے امڈ پڑتے چنانچہ1965ء میں جب الیکشن ہوئے تو حقیقت میں ایوب خان ہارگئے تھے لیکن بیوروکریسی کی مدد سے انہوں نے بدترین دھاندلی کاارتکاب کیا اس کے باوجود وہ مشرقی پاکستان سے اکثریت حاصل نہ کرسکے۔ان کی دھاندلی کا مرکز سینٹرل پنجاب تھا جس کی تاریخ ہے کہ وہ ہرطاقتور حکمران کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے ووٹوں کی گنتی میں گڑبڑ کرکے انہوں نے زبردستی اپنی جیت کا اعلان کیا لیکن اندر سے اسے پتہ تھا کہ ان کا عروج ختم ہونے والا ہے اپنے اقتدار کو طوالت دینے کیلئے انہوں نے ہندوستان میں مہم جوئی کا فیصلہ کیا ان کے ایئرچیف ایئرمارشل اصغر خان کے مطابق انہوں نے آپریشن جبرالٹر کے تحت مجاہدین کشمیر بھیجے ان کا خیال تھا کہ انڈیا کوئی جوابی کارروائی نہیں کرے گا لیکن6ستمبر1965ء کو اس نے مغربی پاکستان پرحملہ کردیا جن کے نتیجے میں ایک ہولناک جنگ چھڑگئی یہ پہلی بڑی اور خوفناک پاک بھارت جنگ تھی یہ جنگ17دن تک جاری رہی مزید طوالت پاکستان کے حق میں نہ تھی اگرچہ لاہور پر قبضہ کا منصوبہ ناکام ہوگیا تھا لیکن جنگ ہارجیت کے بغیر ختم ہوگئی وہ بھی روس کی مداخلت سے ایوب خان نے خفت مٹانے کیلئے قومی اور جنگی ترانے بناکر لوگوں کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کی وہ جنگ جیت گیا ہے معاہدہ تاشقند کے بعد ایوب خان اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئے ان کا دل بھیجواب دے گیا تھا چنانچہ ایک عوامی تحریک کے نتیجے میں وہ مستعفی ہوگئے جس طرح ایوب خان کے میڈیا منیجر سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر تھے اسی طرح ان کے جانشین یحییٰ خان کے کرتا دھرتا نوابزادہ شیرعلی خان تھے جو ان کے وزیراطلاعات تھے اور نظریاتی طور پر وہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے تھے۔
انتہا درجہ کے رجعت پسند اور آمرانہ ذہینت کے مالک تھے جب یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں معاملہ بگاڑ دیا تو شیر علی خان ریڈیو پاکستان پی ٹی وی اور اخبارات میں گمراہ کن تصویر پیش کرتے تھے حتیٰ کہ16دسمبر1971ء کو جب سقوط ڈھاکہ کاسانحہ ہوا تھا ریڈیو ٹی وی اور پرنٹ میڈیا نے حکومتی احکامات کے تحت یہ خبر چھپائی بلکہ لوگوں کو پاکستان کے دولخت ہونے کا واقعہ کا پتہ بی بی سی کی8بجے کی خبروں سے چلا۔
یحییٰ خان کے بعد بھٹو نے اقتدار سنبھالا انہوں نے بھی پریس میں آمرانہ قدغن برقراررکھی حکومت مخالفانہ خبروں کی اشاعت پر پابندی لگادی صحافیوں کو جیلوں میں ڈالا کئی اخبار اور میگزین بند کردیئے حالانکہ بھٹو کو اس طرح کے جابرانہ اقدامات کی ضرورت نہیں تھی1977ء کے انتخابات کے بعد ان کے خلاف جو تحریک چلی پریس پر کنٹرول سے کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ لوگ غیر ملکی نشریاتی اداروں سے معلومات حاصل کررہے تھے1977ء جولائی کو جب ان کا تختہ ہوگیا تو ضیاؤ الحق نے مارشل لاء کے تحت پریس پر کھلی سنسرشپ نافذ کی طویل عرصہ تک ان کی پابندیاں جاری رہیں لیکن ان پابندیوں کا ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ان کی تمام ترکوششوں کے باوجود 10لاکھ لوگوں نے10اپریل1986ء کو لاہور میں بینظیر کا استقبال کیا۔
باقی ادوار کو چھوڑ کر موجودہ دور کو دیکھئے اس دور میں تحریک انصاف کی حکومت نے بلاوجہ میڈیا کیخلاف قہرآلود اقدامات شروع کئے ہیں حالانکہ2011ء کو جب انہیں جنرل پاشا نے لاہور میں متبادل قوت کے طور پر لانچ کیا تھا تو ٹی وی چینلوں سے لیکر اخبارات نے ان کو بھرپور کوریج دی اور جب2014ء کو انہوں نے دھرنا دیا تو پورا میڈیا عمران خان پر دل وجان سے فدا تھا گھنٹوں گھنٹوں لائیو کوریج دی جاتی تھی لیکن حکومت میں آنے کے بعد وہ اس منصوبہ کا حصہ بن گئے کہ ایک گماشتہ اورتابع فرمان میڈیا کے سوا آزاد میڈیا کو جڑسے اکھاڑ پھینکا جائے۔انہوں نے گزشتہ تین سالوں سے جو کچھ کیا وہ بدترین ہے ایوب خان،یحییٰ خان،ضیاؤ الحق اور پرویز مشرف نے پابندیاں ضرور عائد کیں لیکن انہوں نے ایسا کوئی منصوبہ نہیں بنایا کہ سرے سے آزاد میڈیا کا وجود ہی ختم ہوجائے موجودہ دور میں صحافیوں کیخلاف کافی واقعات ہوچکے ہیں آج تک اتنی تعداد میں صحافیوں کو ہراساں نہیں کیا گیا دوسری جانب حکومت نے کارپوریٹ سیکٹر کے چار پانچ اخبارات کو چھوڑ کر باقی تمام اخبارات کو مالی نقصان پہنچا کر کے ان کے قتل کااہتمام کیا جبکہ ایک بدترین قانون بن گیا ہے جو نفاذ کا منتظر ہے ایسا لگتا ہے کہ یا تو عمران خان کو مستقبل میں سیاست نہیں کرنی ہے یا انہیں یہ خوش فہمی ہے کہ وہ آزاد میڈیا کے بغیر سیاست اور انتخابات میں مزید کامیابیاں حاصل کریں گے۔حالانکہ انہیں ذہن میں رکھنا چاہئے جس دن ان کی بیساکھیوں کو کھینچا گیا تو اسی دن وہ ڈھڑام سے ایسے گرجائیں گے کہ اٹھانے والاکوئی نہیں ہوگا انہیں کم از کم نوازشریف کے انجام سے کچھ سبق سیکھنا چاہئے بھٹو کے دور میں تو مخالفین کو دلائی کیمپ میں ڈالا جاتا تھا لیکن عمران خان کے دور میں صحافی غائب کئے جاتے ہیں اب تو ایف آئی اے کو سائبر کرائم کا ہتھیار ہاتھ آگیا ہے جو مخالف صحافی ہے اس کیخلاف پوری کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے لگتا ہے کہ آنے والا وقت آزاد میڈیا کیلئے بہت برا ہوگا حکومتی اقدامات کیخلاف وقتی طور پر کمزور صحافتی تنظیمیں آواز اٹھاتی ہیں لیکن اتحاد اورطاقت میں کمی کی وجہ سے وہ لمبی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اگر یہی حالات رہے تو کوئی بعید نہیں کہ کسی دن حکومت میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا قانون چپکے سے منظور کرالے جس کے بعد میڈیا کا وہی حشر ہوگا جو اس وقت چین،روس،شمالی کوریا اور ایران میں ہے حالانکہ یہ عمل مستقبل میں حکومت کیلئے بھی سود مند ثابت نہیں ہوگا لیکن اتنی ضدی ہے کہ آزاد میڈیا کو ہر قیمت پر شہادت کے درجہ پر فائز کردیاجائیگا جب تحریک انصاف دوبارہ اپوزیشن میں ہوگی تب اسے محسوس ہوگا کہ اس نے کیا تاریخی غلطی کی ہے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں