رونے کی اداکاری

انور ساجدی
عقل حیران ہے دل پریشان ہے کہ کرونا کے تباہ کن بحران کے باوجود جو کچھ ہورہا ہے اس پر کیالکھا جائے اور کیا نہ لکھا جائے بدھ کو رونے کی دو دلکش تصاویر وائرل ہوئیں ایک میں وزیراعلیٰ سندھ سیدمرادعلی شاہ پریس کانفرنس کے دوران ہاتھ باندھ کر روپڑے اور اشارتاً وفاقی حکومت سے دست بستہ گزارش کی کہ وہ کرونا کے مسئلہ پر سیاست نہ کرے یہ رونا بے ساختہ تھا یا مصنوعی اس کا فیصلہ عوام خود کرسکتے ہیں دوسری تصویروزیراعظم عمران خان کی ہے وہ تنہائی میں کچھ سوچ کررورہے ہیں اس تصویر پرتحریک انصاف کے متوالوں نے کیپشن لگاکر اسکی اہمیت کم کردی جبکہ مخالفین نے سوال اٹھایا کہ وزیراعظم کو کیمرہ مین رکھ کر رونے اور تصویر اتروانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
ایسے وقت میں جبکہ وفاقی اورسندھ حکومت دست وگریبان ہیں تو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران وزیراعظم نے کراچی سے تعلق رکھنے والے دو وزراء علی حیدر زیدی اور فیصل واؤڈا کوسندھ حکومت کوایکسپوز کرنے پر زبردست شاباش دی یعنی سندھ حکومت کیخلاف جو مہم چل رہی ہے اسے وزیراعظم کی اپنی آشیرباد حاصل ہے کراچی میں تحریک انصاف ٹائیگر فورس کے سربراہ حلیم عادل شیخ کو بھی وزیراعظم نے بے حد مصروفیات کے باوجود ملاقات کیلئے وقت دیا اور انکی کارکردگی کوسراہا بلکہ حلیم عادل شیخ اس ملاقات کے بعد اپنے تئیں تبدیلی کی صورت میں سندھ کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار بن کر باہر آئے جہاں وزیراعظم کے حکم پر انکے لئے خصوصی پریس کانفرنس کااہتمام کیا گیا تھا جس میں اطلاعات کی معاون خصوصی آپاں فردوس بذات خود موجود تھیں لیکن پریس کانفرنس کے دوران حلیم عادل شیخ کی قابلیت کابھانڈہ پھوٹ گیا وہ دعویٰ کررہے تھے کہ وزیراعظم نے چند دنوں کے دوران پاکستان کے30ارب عوام میں امداد بانٹی انہیں آخرتک اپنی غلطی کا احساس نہیں ہوا البتہ رات گئے ان پر وزارت اعلیٰ کی امیدواری کاخماراتر گیا تھا سندھ کی وزارت اعلیٰ کے دو اور امیدوار بھی ہیں ایک خرم شیرزمان اور دوسرے فردوس شمیم نقوی یہ دونوں بھی ایک سے بڑھ کرایک ہیں فردوس شمیم کیخلاف تو روز مظاہرہ ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے فلیٹوں کی قیمتوں میں اچانک اضافہ کردیا ہے اور غریب الاٹیوں کی ایک سننے کوتیار نہیں ہیں حالانکہ ان کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف غریب عوام کی پارٹی ہے۔ادھر کراچی میں ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق شہر میں کرونا وائرس سے ہلاک شدگان کی تعداد سینکڑوں میں ہے رپورٹ میں تین سوسے زائد ہلاک شدگان کی موت کو پراسرار قراردے کر اس کا کھاتہ بند کردیا گیا ہے جناح اسپتال کی ڈاکٹرسیمین جمالی کے مطابق گزشتہ ایک ماہ میں فوت شدہ لوگوں کی بڑی تعداد کو اسپتال لایاجارہا ہے جبکہ ایسے لوگ بھی لائے جارہے ہیں جو قریب المرگ ہوتے ہیں گمان ہے کہ یہ لوگ کرونا سے متاثرشدہ ہیں فیصل ایدھی نے بھی اسی طرح کی بات کی ہے کہ آج کل فوت شدہ لوگوں کی بڑی تعداد ایدھی سینٹر میں آرہی ہے انکے مطابق اگرچہ ان کا ٹیسٹ نہیں ہوا ہے لیکن شبہ ہے کہ یہ بھی کرونا کے مریض تھے سندھ کے وزیراعلیٰ سخت لاک ڈاؤن پرزوردے رہے ہیں لیکن وہ عوام سے حقائق چھپارہے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ سندھ میں تبلیغی جماعت کے پانچ ہزار لوگ مقیم ہیں جنہیں رائے ونڈ بھیجاجائیگا جہاں سے وہ جہاں مرضی جائیں انہوں نے صاف بات نہیں کی لیکن لگتا ہے کہ یہ لوگ کرونا کی لپیٹ میں ہیں دوسری بڑی تعدادزائرین کی ہے جنہیں ایران شام اور عراق میں کرونا لگا تھا خود وزیراعلیٰ کے بہنوئی بھی شام گئے تھے جہاں انہیں بیماری لگی تھی اور وہ کراچی کے پرائیویٹ اسپتال میں فوت ہوگئے۔سندھ حکومت کی ایک اور کوتاہی یہ ہے کہ اس نے ابھی تک بہت کم ٹیسٹ کئے ہیں اگرزیادہ ٹیسٹ کئے جاتے تو کرونا کے مریضوں کی اصل تعداد کا ابتک پتہ چل چکا ہوتا سندھ حکومت کی ایک اور بدانتظامی یہ ہے کہ کرونا کی وجہ سے تمام سرکاری اسپتالوں کے اوپی ڈیز بند کردیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے دمہ،دل اور دیگرامراض میں مبتلا لوگ بھی علاج نہ ہونے سے بڑی تعداد میں ہلاک ہورہے ہیں یہ جو وفاقی حکومت سندھ پر حملہ آور ہے اس کا موقع خود سندھ حکومت نے دیا ہے کیونکہ اس نے راشن کی تقسیم کا مناسب انتظام نہیں کیا ہے بعض علاقوں میں مخالفین نے2010ء کے سیلاب زدگان کیلئے رکھا گیاسڑا ہوا راشن میڈیا کو دکھایا اور اس کا الزام سندھ حکومت پر لگایاابھی تک سندھ حکومت اسکی صحیح وضاحت پیش نہیں کرسکی ہے وزیراعلیٰ نے بدھ کو جوپریس کانفرنس کی اگرچہ وہ پرتاثیرتھی لیکن انہوں نے اس میں یہ کہہ کر وزیراعظم کودھمکی دی کہ اگر وہ کراچی آئیں تو سندھ حکومت کے رولز پر عملدرآمد کریں اور لوگوں کا ہجوم اکٹھا نہ کریں اس بات کے بعد وزیراعظم نے دورہ کراچی ملتوی کردیا حالانکہ اگروزیراعظم کراچی آتے تو انہوں نے کونسا وزیراعلیٰ کے پاس جانا تھا بلکہ وہ گورنرہاؤس جاتے جہاں سیٹھوں سے خطاب کرتے اور ان سے مزید چندے کی اپیل کرتے حالیہ دنوں میں وزیراعظم نے ملکی اور غیرملکی پاکستانیوں سے چندے کی جواپیل کی ہے اس پر سوشل میڈیا میں سخت تنقید کی جارہی ہے نیویارک میں مقیم ایک فری لانس صحافی طیبہ ضیاء چیمہ نے تو رو کر کہا کہ نیویارک اور نیوجرسی میں سینکڑوں پاکستانی کرونا کی وجہ سے ہلاک ہوگئے ہیں لیکن وزیراعظم نے تعزیت کے دو بول بھی نہیں کہے بلکہ الٹا وہ ان پاکستانیوں سے چندے کی اپیل کررہے ہیں جنہیں خود گورے کھانا پہنچارہے ہیں غالباً چندے کی اپیل کرتے وقت وزیراعظم بھول گئے تھے کہ اس وقت ساری دنیا کرونا کی لپیٹ میں ہے اور پاکستانی جن ممالک میں مقیم ہیں ان کا اپنا براحال ہے وہ اپنے عزیزوں کی لاشوں کو دفنانے کی پوزیشن میں نہیں تو چندہ کہاں سے دیں وزیراعلیٰ کے اس طرز عمل سے ساری دنیا میں انکی سبکی ہوئی ہے۔
اس ساری صورتحال میں اگر کسی نے چندے کی اپیل نہیں کی تو وہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان صاحب ہیں انہیں پتہ تھا کہ بلوچستان میں کوئی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کچھ دے سکے انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ کوئٹہ چیمبر کے اراکین بھی زیادہ تر تاجر اور صنعتکار نہیں بلکہ کیبن والے اورنسوار فروش ہیں لہٰذا وہ کہاں سے چندہ دیں گے بلوچستان کے وزیراعلیٰ کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ وہ بڑی سے بڑی بات پربھی نہیں گھبراتے۔کرونا کے حالیہ بحران نے انکے مضبوط اعصاب کو ثابت کیا ہے جبکہ وہ پہلے4پشتون اور بعد میں 8بلوچ وزراء کے نازنخرے سے بھی نہیں گھبرائے بلکہ انہیں کچھ تسلیاں دے کر راضی کرلیا ان وزراء نے بھی موقع خوب چنا تھا ایک طرف کرونا کاگھمبیر مسئلہ درپیش ہے تو انہوں نے ایک اور کرونا کھڑا کردیا۔
جام صاحب کو غصہ تو آتا ہوگا لیکن وہ اپنا غصہ ہمیشہ اندررکھتے ہیں۔جام صاحب کے برعکس انکے اکلوتے ترجمان لیاقت شاہوانی زیادہ کام کی وجہ سے گھبرائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں انہوں نے گزشتہ روز بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ جن 15لوگوں کے کرونا ٹیسٹ ہوئے ان میں سے 22کے رزلٹ پازیٹو آئے اس پر سارے سوشل میڈیا پر شورمچ گیا حالانکہ زبان پھسل جانے کی وجہ سے بھی کبھی کبھار ایسی غلطیاں ہوجاتی ہیں۔کرونا کے بحران کے دوران ایک عجیب تصویر یہ دیکھنے میں آئی کہ ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی سے وزیراعظم عمران خان ایک کروڑ عطیہ کا چیک لے رہے ہیں حالانکہ ایدھی نیٹ ورک اس وقت کرونا سے فوت شدہ لوگوں کی تدفین اورغریبوں کی مدد کرنے میں مصروف ہے ہونا یہ چاہئے تھا کہ وزیراعظم فیصل ایدھی کو بلاکر10کروڑ کا عطیہ دیتے وہ الٹااتنے بڑے رفاحی اورخیراتی ادارہ سے خود چندہ وصول کررہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عطیات چندہ اور خیرات لینا ایک نفسیاتی اورمعاشرتی عادت ہے اپنے اداروں کیلئے صاحب ثروت اورعام پاکستانیوں سے چندہ لیتے لیتے یہ وزیراعظم کی عادت ہوگئی ہے جس طرح کہ سندھ حکومت نے انڈس اسپتال،ایس آئی یوٹی،سیلانی اورچھیپا کو فنڈز دیئے ہیں وفاق کو اس سے زیادہ فنڈز دینا چاہئے تھا وزیراعظم کے اس طرز عمل سے یہ خوف پیدا ہوا ہے کہ وہ کرونا کے بعد جبکہ ملک کی معاشی صورتحال اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہوجائے گی تووزیراعظم کس کس سے اورکہاں کہاں سے چندہ لیکر معیشت کودوبارہ کھڑا کردیں گے کبھی کبھار توایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم کاکردار کرونا کے آنے تک تھا اسکے جانے کے بعد ان کا کردارختم ہوجائے گا اور ملک کو چلانے کیلئے ایک اور انتظام کی ضرورت پڑے گی۔
جس طرح ہمارے حکمران حواس باختہ ہیں اسی طرح امریکی صدرٹرمپ بھی ان دنوں حوش وحواس میں دکھائی نہیں دیتے انہوں نے دوروز ہوئے جذباتی ہوکر ڈبلیو ایچ او کے فنڈز بند کردیئے اور الزام لگادیا کہ اس عالمی ادارہ کاجھکاؤچین کی طرف ہے وجہ یہ ہے کہ جب چین نے ووہان میں کرونا وائرس کوکنٹرول کیا تھا تو ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے اسکی تعریف کی تھی دوسری بات یہ کہ اس ادارہ کے سربراہ ٹیڈروس ہیں اور صدر ٹرمپ کو کالے لوگ ایک آنکھ نہیں بھاتے اس لئے وہ انہیں تنقید کانشانہ بنارہے ہیں کرونا کی وبا کے بعد چین اورامریکہ کی سردجنگ میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے پہلے کرونا کولیکر ایک دوسرے پر الزامات لگائے گئے تھے لیکن اب امریکہ نے سنگین الزام عائد کیا ہے کہ چین نے حال ہی میں خطرناک اسلحہ کازیر زمین تجربات کئے ہیں دوسری جانب چین نے امریکی الزام کو مسترد کردیا ہے لگتا ہے کہ کرونا کے بعد امریکہ اور چین ایک ایسی سردجنگ کومہمیز دیں گے جس کا انجام اس کرہ ارض اور اربوں انسانوں کیلئے اچھا نہیں نکلے گا دیکھیں امریکہ وبا سے نمٹنے کے بعد دنیا کا کیانیانقشہ اور کیا ورلڈآرڈر بناتا ہے اوراسکے جواب میں چین کیاکرتاہے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں