کوئے کے گلے سے کوکو کی آواز

راحت ملک
دل چھو لینے والے بیانیہ پر داد تو دینی چاہئے اپنے بیانیے کی وجہ سے مرکزی حکومت پسماندہ معاشی طبقے دیہاڑی دار مزدور محنت کش افراد کی خیر خواہی میں سب سے آگے نظر آ رہی ہے کرونا تیرا شکریہ۔
قابل توجہ نقطہ یہ ہے کہ مرکزی حکومت جسے کم و بیش 20ماہ ہو گئے ہیں حکمرانی اور فیصلے کرتے اسے کرونا وبا کی آمد سے قبل پسے ہوئے معاشی طبقے کی حالت زار دکھائی کیوں نہیں دے رہی تھی؟ اس سوال پر سیخ پا ہونے والے افراد یقینا بتائیں گے کہ عمران خان نے پچاس لاکھ افراد کو مکان دینے کی اسکیم کا آغاز کیا ہے جو کم آمدنی والے افراد کے دیرینہ خواب کی تعبیر ملنے سے کم نہیں!!!! ایسا کہتے ہوئے وہ بھول جائیں گے کہ مذکورہ کاغذی منصوبے سے استفادہ کرنے کیلئے درخواست کے ہمراہ جتنی رقم بطور پیشگی مع کرانے کی شرط رکھی گئی ہے اس پر غریب دیہاڑی دار کم آمدنی والے طبقے کے افراد کیلئے عمل کرنا ممکن نہیں البتہ بالائی متوسط طبقے کے افراد اس سے مستفید ہو پائیں گے اگر منصوبے پر عملاً عملدرآمد ہوا تو۔ علاوہ جائیداد یا تعمیرات کے شعبہ میں سرمایہ لگانے والوں کے۔
کرونا وائرس بھیانک مرض ہے جس کا علاج احتیاط اور سماجی روابط سے اجتناب سے ممکن ہے وباء سے بچنے کیلئے کرفیو‘ لاک ڈاؤن ہی موثر واحد حکمت عملی جس پر سختی سے عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں دوسری دو صورتیں۔۔۔۔ ہوں گی ملک بھر میں لاکھوں افراد اس وباء سے متاثر ہو جائیں اور علاج کیلئے ہسپتالوں کا رخ کریں چنانچہ حکومت کے پاس مذکورہ بھیانک مرض کے پھیلنے کے بعد علاج معالجے کا وسیع البنیاد صحت کا نظام موجود ہونا چاہئے یا اس کا معقول بندوبست کم و بیش ہر محلے‘ گلی‘ گاؤں میں دس عدد وینٹی لیٹرز‘ طبی عملہ اور دیگر سازوں سامان دستیاب کرنا ہوگا جس کی توقع نہیں کہ جا سکتی ہے کیونکہ وزیراعظم کا ویژن نوشتہ دیوار ہے ذرا توجہ دلانے کی ضرورت ہے مثلاً کے پی کے میں پانچ سال کی حکمرانی میں انہوں نے صوبے کے عوام کیلئے حکومتی شعبے مین کوئی نیا ہسپتال قائم نہیں کیا البتہ پشاور میں حکمران ہوتے ہوئے بھی سرکاری شعبے میں کینسر کا ہسپتال بنانے کی بجائے انہوں نے نجی شعبے میں شوکت خانم ہسپتال بنانے کیلئے کام کیا شاہد ہسپتال کیلئے سرکار سے مفت زمین بھی حاصل کی گئی ہو!! لاہور شوکت خانم ہسپتال کی طرح حکومتی اثرورسوخ بروئے کار لاتے ہوئے مخیر حضرات سے اس ”کارخیر“ کیلئے عطیات حاصل کئے گئے ہوں یا ان افراد نے رضا کارانہ طور پر چندہ دیا ہو بلاکسی غرض و مفاد کے۔ مجھے نہیں معلوم نہ ہی میں بدگمانی پر اصرار کر رہا ہوں بس ایک امکانی خدشے کی نشاندہی کر رہا ہوں جس کی ہمارے سماج میں گہری جڑیں اور مثالیں بھی موجود ہیں تو دوستو جناب عمران نے بطور حکمران صوبہ کے پی کے محنت کش طبقہ ہی نہیں صاحبان استعدادشعبہ صحت میں سہولیات بہم پہنچانے کی ترجیح عملاً اخیتار نہیں کی تھی اس لئے کرونا وائرس سے شرح اموات باقی صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
جناب عمران خان نے لاکھوں افراد کو نوکریاں دینے کے خوشنما وعدے نعرے سے بھی رجوع فرمایا کہا ”ریاست کا کام نوکریاں دینا نہیں“ (بھول چکے ہوں تو یاد کر لیں) یہ نعرہ آزاد منڈی کی معیشت یا معاشی لبرل ازم کے دلدادہ افراد کا من پسند راگ ہے جو محنت کش پسے ہوئے معاشی سماجی طبقات کی بحالی آسودگی اور ترقی سے کسی طور لگا نہیں کھاتا یہی سبب ہے کہ جناب عمران کے عہد حکمرانی میں معیشت کا پہیہ الٹا ہو گیا 2017-18ء میں ملکی معیشت 5.8فیصد کی شرح نمو سے آگے بڑھ رہی تھی جو تمام طبقات کیلئے خوش آئند تھی مگر گزشتہ بیس ماہ کے اقتدار اور اس سے قبل کے چھ ماہ کی کارستانیوں کے منطقی نتیجے میں اب معاشی شرح نمو دو اعشاریہ تک گر چکی ہے کرونا او رعالمی کساد بازاری جسے مزید کم کر دے گی اور اس معاشی تنزلی کے منفی اثرات سب سے زیادہ اس دیہاڑی دار پسے ہوئے معاشی بدحال طبقے پر پڑیں گے ان دنوں انقلابی لب و لہجے کے ساتھ جناب عمران خان لاک ڈاؤن سے گریز کیلئے اس کی دھائی دے رہے ہیں توکیا کرونا کے وبائی امراض کے دنوں میں حکومت اور وزیراعظم نے اپنے معاشی تصورات سے رجوع کر لیا ہے؟ اس سوال کا مثبت جواب موجود نہیں لاک ڈاؤن کے دنوں میں کم آمدنی والے گھرانوں کو ریاست کی جانب سے دی جانے والی مالی کفالت 12 ہزار روپے ماہانہ فی گھرانا ہے جو مجموعی طور پر تعمیراتی صنعت کو دی جانے والی مالی امداد و معاونت سے کم رقم پر مشتمل ہے میں پھر اپنا سوال دھراتا ہوں کہ کیا واقعی جناب عمران خان نچلے معاشی طبقے کے خیرخواہ ہو گئے ہیں یا ان بیانات معہ اقدامات کی وجوہ کچھ اور ہے؟
حکومت صنعت و معیشت کے تسلسل کو پہلی ترجیح سمجھ رہی ہے اور انسانی زندگیوں صحت عامہ اور غریب افراد کو بیماری سے لاحق ہو جانے کے خطرے کو ثانوی اہمیت دے رہی ہے تاکہ صنعت و حرفت اور مالیاتی سرمائے کی منڈی کو بحران کے ایام میں بھی محنت کی قوت سے محروم ہونے سے بچایا جا سکے کیونکہ بنا محنت کی قوت کے صنعتی پیداوار ممکن ہے نہ ہی وہ منافع جو در اصل محنت کی قوت کے استحصال کے نتیجے میں قدر زائد پیدا کرتا ہے نچلے طبقے کیلئے ہمدرانہ بیانات میں چھپی معاشی ضرورت کی اس کے سوا کوئی تعبیر و تشریح ممکن نہیں اگر حکمران دیانتداری کے ساتھ نچلے معاشی طبقے کے خیر خواہ ہوتے تو وہ وباء کی سرکاری پروٹوکول کے ساتھ درآمد کرنے سے قبل خط افلاس سے نیچے زندگی کے دن پورے کرنے والے کروڑوں افراد کی ماہانہ بیس ہزار روپے کفالت کا اہتمام کر لیتے جس پر سالانہ چھ سو ارب روپے کی رقم خرچ ہوگی۔
12روپے کی امدادی رقم نہ صرف کفالت و ضرورت سے کم ہے اور یہ کہ پسماندہ طبقہ روزگار کمانے کیلئے گھر سے باہر نکلنے پر مجبور ہوگا رقم کی تقسیم کا طریقہ کار آبرو مندانہ بھی نہیں سست رفتار ہے اس کے برعکس تمام بینکوں کے مقامی منیجرز کو اختیار دیا جا سکتا تھا کہ وہ کسی بھی اکاؤنٹ ہولڈر کو ایک لاکھ روپے کا بلاسود قرضہ دے سکے جو آسان اقساط میں قابل واپسی ہوتا ایسے افرادنچلے معاشی زمرے کے افراد کو بھی یہ سہولت دی جانی چاہئے کہ وہ اپنے شناختی کارڈز پر جس میں گھرانہ کا نمبر موجود ہے اکاؤنٹ کھلوانے اور قرضہ لینے کا اہل ہوگا بینک منیجر اسٹیٹ بینک کے ساتھ کمپیوٹرائزڈ نیٹ ورک سے مربوط ہوں قرضے میں دی جانے والی رقم سرکاری خزانے سے ادا کر دی جائے اور ایک گھرانہ کے نمبر پر ایک ہی بینک اکاؤنٹ کو قرضہ مہیا ہو سکے ڈیٹا نادارا کی مدد سے مرتب مربوط کر دیا جائے تاکہ کوئی شخص دھوکہ دہی سے متعدد بار قرضہ حاصل نہ کر سکے یہ طریقہ سہل بھی ہے اور رازداری بھی رکھتا ہے چنانچہ یہ قومی خزانے پر بوجھ کا بھی منصوبہ نہیں نجی بینکوں کو بھی پابند کیا جائے کہ وہ اپنے سرمائے کا ایک حصہ اس اسکیم کیلئے مختص کر دیں جبکہ باقی رقم ریاست ادا کرے۔
دنیا میں کرونا نے آزاد منڈی کی معیشت کا جنازہ نکال دیا ہے اس صدی کی دو دہائیوں میں نجی شعبہ کا انحطاط عالمی سطح پر نمودار ہو چکا ہے امریکہ جیسی سرمایہ داری کی حامل وحشی ریاست بھی اپنے نجی صنعت کاروں کو بچانے کیلئے دو کھرب ڈالر دے رہی ہے اتنی خطیر رقم سے امریکہ بھر میں صحت عامہ کا مضبوط نظام قائم ہو سکتا تھا جو اس وباء کے مقابلے کی صلاحیت رکھتا قصہ کوتاہ عمران خان کی استدلالی ہمدردی نچلے طبقے کی زندگی بچانے کی بجائے محنت کی قوت کی فراہمی برقرار رکھنے کی آئینہ دار ہے جو تشویش کے کئی پہلو رکھتی ہے اور اس کا خمیازہ سب کو اٹھانا پڑے گا۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں