ستم رسیدہ سٹوڈنس طبقہ

تحریر: شعیب علیم

والدین ہزاروں خواہشات دیکھ کر اپنے نوجوان بچوں کی روشن مستقبل کیلئے دن رات محنت کرتے ہیں تاکہ اُن کے بچے اعلی تعلیم حاصل کر سکیں۔ اسی ضمن میں اکثر بیشتر والدین اپنے پھول جیسے بچوں کو کوئٹہ کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے کیلئے بھیج دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے خوابوں کو پورا کرسکیں مگر اُنکے والدین بھول پن کا شکار ہیں کیونکہ آج کل کوئٹہ پہلے جیسا نہیں رہا۔ امن و امان ظلم و ستم میں تبدیل ہوچکا ہے۔ سٹوڈنٹس طبقہ اب کوئٹہ میں محفوظ نہیں ہے۔ آئے روز طلباء کو لاپتہ کیا جاتا ہے۔ انہیں احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں میں الجھایا جاتا ہے۔ ان کے مسائل میں جان بوجھ کر اضافہ کیا جاتا ہے۔

آج کل کوئٹہ میں سٹوڈنس کے ہاتھوں میں قلم و کتاب سے زیادہ جسٹس فار سٹوڈنٹس (justice for students) کے پلے کارڈز نظر آتے ہیں۔ ہر وقت طلباء و طالبات سڑکوں پر دکھائی دیتے ہیں۔ اپنے حقوق کیلئے نعرہ لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئٹہ کے پرہجوم شاہراہوں پر مزاحمت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انصاف مانگنے کیلئے در در ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں۔ لیکن نہ انصاف ملتا ہے نہ حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے۔

حیرانگی کی بات یہ ہے کہ سٹوڈنٹس اب اپنے ہاسٹلز میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ یہ اسی مہینے کا واقع ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی میں دو مطالعہ پاکستان کے اسٹوڈنٹس کو بلوچستان یونیورسٹی کے ہاسٹل سے لاپتہ کیا گیا ہے اور انہیں سٹوڈنٹس کی بازیابی کیلئے پچھلے دو ہفتوں سے سٹوڈنٹس جامعہ بلوچستان کے مین گیٹ کے سامنے دھرنا دے رہے تھے جبکہ صوبائی حکومت کی یقین دہائی پر 15 دن کے لیے مؤخر کردیا گیا ہے۔ جب والدین کو اس بات کا پتہ چل جاتا ہے تو بہت مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آخر ہمارے بچوں کی غلطی کیا ہے کہ اِن کو لاپتہ کردیا تھا؟ کیا انکا واحد جرم یہ ہے کہ وہ علم کی روشنی سے استفادہ حاصل کررہے ہیں؟

سٹوڈنٹس ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے تعلیم حاصل کی تو ہمیں یا تو لاپتہ کیا جائے گا یا مبینہ طور پر قتل کردیا جائے گا۔ سٹوڈنٹس انہی مسائل کو دیکھ کر تعلیم حاصل کرنے سے ڈرتے ہیں۔ ہر پھول کو اگانے کے لیے پانی لازمی ہے، اسی طرح ایک سٹوڈنٹس یعنی پھول کو بھی تعلیم یعنی پانی کی اشد ضرورت ہے مگر طلباء و طالبات کے حوصلے بلند ہیں۔ اس نام نہاد تعلیمی نظام کو بدلنے کیلئے دھرنا اور احتجاج کرنا ناگزیر ہے۔

آج کل کوئٹہ سٹوڈنٹس کے دھرنا اور احتجاجی مظاہروں کا گڑھ بن چکا ہے۔ کبھی ایدی چوک تو کبھی پرس کلب تو کبھی گورنر ھاؤس کے سامنے بیٹھ کر دھرنا دینا اسٹوڈنٹس کا اب شیوہ بن چکا ہے۔ تعلیم تو دھرنوں اور احتجاجوں میں گزرا جاتا ہے۔ کبھی جامعہ بلوچستان میں ہراسنمٹ اسکینڈل کے خلاف تو کبھی انٹری ٹیسٹ کے بےضابطیگیوں کے خلاف ریلی نکالا جاتا ہے۔ کبھی انتظامیہ کی غفلت تو کبھی طالب علموں کی بازیابی کیلئے حقِ آواز بلند کی جاتی ہے۔ طالب علموں کی زندگی مسائلستان بن چکا ہے۔

آخر کب تک سٹوڈنٹس تعلیم حاصل کرنے کے لئے اسی طرح زلیل وخوار ہونگے؟ آخر کب تک سٹوڈنٹس اسی طرح دھرنا دینے پر مجبور کیا جائے گا؟ آخر کب تک اسٹوڈنس کی حقوق کی خلاف ورزی کی جائے گی؟ اگر اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہا تو ایک دن ضرور ایسا آئے گا جس میں تعلیم کا نام ونشان مٹ جائے گا اور جہالت اپنے زوروں پر ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں