غلام قادر بزدار، علمی حاتم طائی کوہ سلیمان

عبدالقیوم بزدار
غلام قادر بزدار1943کو موضع سراٹی کوہ سلیمان میں غلام فرید کے ہاں پیداہوئے جو بلوچی زبان کے شاعرتھے انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم سراٹی اورہائی سکول بارتھی سے حاصل کی اور1967کو بی ایم پی میں بھرتی ہوئے اور سپاہی سے ترقی پاکرجمعدارکے عہدے پر1998 کوسبکدوش ہوئے انہوں نے ادب کی دنیامیں 1996میں قدم رکھا دیکھتے ہی دیکھتے ادبی حلقوں میں چھاگئے انہوں نے ظہوراحمدفاتح (غلام قادر کے اردو شاعری میں استاد تھے)کی مدد سے علی احمدچگھا کی شاعری کواردوزبان میں ترجمہ کرایا جو”کلام چگھا“ کے عنوان سے1996کو شائع ہوا
انہوں نے بلوچی،سرائیکی،اردو اورہندی زبان میں طبع آزمائی کی اورتاریخ،سیاسیات اور نثر پربھی طبع آزمائی کی ہے ان کی شاعری میں صوفیانہ طرزعمل کارفرماہے اوروہی بلوچی کردار بھی ملیں گے یعنی
ان کی شاعری اخلاقیات،مذہب،قومیت،بلوچیت اورانسان دوستی پرمبنی ہے ان کی شاعری کی کتابیں توبہت زیادہ ہیں مگرسب سے زیادہ مقبول عام کتاب ”وحش ء تھران“ہیں
اوران کی تاریخ پرمبنی سب سے اہم کتابیں ”حان بند“ اور”بزدارتاریخ کے آئینے میں“ہیں لیکن ان کی سب سے اہم کاوش ”شعرائے کوہ سلیمان“کے نظموں اورداستانوں کی اردوزبان میں منتقلی تھی
انہون نے بلوچی کہاوتوں اورالفاظ کامجموعہ باالترتیب ”گؤشتین“اور”آموزگاربلوچی“کے عنوان سے شائع کی وہ تقریبا تینتیس سے زیادہ کتابوں کے مصنف تھے جن میں سے صرف دوکتابیں ”قیصرنامہ“اور”کوہ سلیمان تاریخ وآثار“طباعت کے مراحل سے نہ گزرسکی اوران کی یہ صفت رہتی دنیاتک یادرکھی جائیگی کہ وہ اپنی کتابیں عوام میں مفت تقسیم کرتے تھے تاکہ عوام میں کتب بینی کارواج عام ہوسکے اسی وجہ سے انہیں ”کوہ سلیمان کاعلمی حاتم“کہاگیاان کے بارے میں معروف بلوچی شاعراوردانشورساجدبزدارمحروم کہتے ہیں ”ہم اورپوری قوم آپ کامقرو ض اوراحسان مندہیں کہ آپ نے ان کی زبان،معاشرت اورتاریخ کو اپنی تحریروں کے زریعے زندہ کیا“ان کی کتاب ”کوہ سارگوہربار“کے بارے میں ظہوراحمدفاتح فرماتے ہیں ”ان کی کتابوں میں ایک زمانہ قید ہے اورایک تہذیب زندہ ہے“
بلوچ دانشوراورمحقق سلطان نعیم قیصرانی نے کہا ”غلام قادرنے تاریخ کے بھولے ہوئے اوراق سے پوری قوم کوروشناس کی اورنئے لکھاریوں کے لیے ایک راستہ متعین کیا“دسمبر2016کو طویل علالت کے بعداس جہان فانی سے رخصت ہوگئے

اپنا تبصرہ بھیجیں