چائنہ ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ گوادر کے بچوں کیلئے ایک تحفہ ہے،پرواجیکٹ ڈائریکٹر سہیل اصغر

کوئٹہ: گوادر پورٹ پراجیکٹ سے منسلک پاکستان چائنہ ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ، سی پیک کا گوادر میں مکمل ہونے والا پہلا منصوبہ ہے، پرواجیکٹ ڈائریکٹر سہیل اصغر نے بتایاہے کہ یہ انسٹی ٹیوٹ فروری 2022 سے فعال ہوجائے گا،پراجیکٹ پر آنے والے اخراجات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ 2.3 ارب روپے کی لاگت کا منصوبہ ہے، جس میں سے 92 فیصد سرمایہ چینی جب کہ آٹھ فیصد پاکستانی حکومت کی جانب سے لگایا گیا ہے۔سہیل اصغر نے مزید بتایااس ادارے کا کام وقت سے پہلے مکمل ہوگیا ہے اسے بنانے کے لیے 24 ماہ کا شیڈول دیا گیا تھا، تاہم ہم نے اسے2021 میں مکمل کرلیا۔ یہ منصوبہ یکم جنوری 2020 کو شروع ہوا تھا اور 20 ستمبر 2021 کو مکمل ہوگیا۔پرواجیکٹ ڈائریکٹر نے کہاکہ سی پیک کی طرف سے گوادر کے بچوں کے لیے ایک تحفہ ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس ادارے میں بچے ٹیکنیکل اور ووکیشنل کورسز میں تین سال کا ڈپلومہ کرسکیں گے۔ ان تین سالوں میں وہ ڈیڑھ سال پاکستان جب کہ ڈیڑھ سال چین کے شینڈونگ انسٹی ٹیوٹ میں گزاریں گے، جن کے ساتھ اشتراک ہے۔سہیل اصغر نے مزید کہا کہ’ڈپلومہ کے بعد ان طلبہ کو چین کی انڈسٹری میں چھ ماہ کی پروفیشنل ٹریننگ بھی دی جائے گی اور ان کی ڈگری عالمی سطح پر مانی جائے گی۔ اس طرح ان کے لیے نہ صرف پاکستان اور چین بلکہ پوری دنیا میں ملازمت کے مواقع بنیں گے۔انہوں نے بتایا کہ ’گوادر میں پہلے سے چند ٹیکنیکل اور ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ موجود ہیں، مگر سی پیک کے اس ادارے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں گوادر کے بچوں کے لیے کوئی فیس نہیں ہوگی۔ چین کے شینڈونگ انسٹیٹیوٹ میں آنے جانے، رہنے کا خرچہ اور ٹیوشن فیس بالکل مفت ہوگی، بلکہ اس کے ساتھ انہیں وہاں رہنے کے لیے بھی ماہانہ خرچ بھی دیا جائے گا۔انہوں نے مزید بتایا کہ ’آغاز میں یہاں چار مضامین آفر کیے جائیں گے۔ ان میں کراس بارڈر ای کامرس، ایئر کنڈیشننگ اور ریفریجریشن، فوڈ پریزرویشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ تین سال کے عرصے میں یہاں کے طلبہ کو چینی زبان بھی سکھائی جائے گی۔پاکستان چائنہ ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر سہیل اصغر کے مطابق اس ادارے میں کْل 24 کلاس رومز ہیں اور ہر کلاس میں 40 بچوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔یہ عمارت گراؤنڈ پلس ون کی طرز پر بنی ہوئی ہے۔ اس کی پہلی منزل پر کمپیوٹر لیب موجود ہے۔ پراجیکٹ ڈائریکٹر کے مطابق اس لیب میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نئی جنریشن پر کام ہوگا۔انہوں نے بتایا: ’تدریسی عمل میں ٹیکنیکل اور ووکیشنل سہولیات فراہم کرنے کے لیے اس ادارے میں ایک ورک شاپ بھی موجود ہے، جہاں گاڑیوں اور کرینوں کے سٹیرنگ مکینیزم، موٹر وائنڈنگ، اے سی اور ڈی سی جنریٹر کی مشینیں، جدید ٹرانسفارمرز کے ورکنگ ماڈلز اور پورٹ الیکٹریکل اکوئپمنٹ کی ٹریننگ ڈیوائسز موجود ہیں۔ ہر ماڈل کی چار سے آٹھ مشینیں یہاں رکھی گئی ہیں۔اس انسٹی ٹیوٹ میں دنیا کی مختلف بندرگاہوں پر موجود مختلف اقسام کی بین الاقوامی مشینوں کے سیمیولیٹرز بھی موجود ہیں۔ انٹرایکٹیو انٹیلی جنٹ و ہیکل ڈرائیونگ ٹریننگ سمیولیٹر کہلائی جانے والی ان مشینوں میں بڑی سکرینیں نصب ہیں۔سہیل اصغر کے مطابق ان مشینوں کے ذریعے طلبہ کسی بھی قسم کی گاڑی یا کرین چلانا سیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر فورک لفٹر، شپ ٹو شور کرین، آر ٹی جی کرین، کنٹینر ہینڈلنگ گینٹری اور این پی ٹی کنٹینر ہینڈلنگ گینٹری وغیرہ۔پراجیکٹ ڈائریکٹر کے مطابق ’یہ سیمیولیٹرز بڑے قیمتی اور نادر سامان ہیں اور پاکستان میں اگر یہ کہیں پر موجود ہیں تو وہ گوادر میں پاکستان چائنہ ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹیٹیوٹ میں موجود ہیں۔‘طلبہ کو یہاں مختلف قسم کی مشینری چلانے کی تربیت دی جائے گی اس ادارے میں بلوچستان کے مختلف اضلاع اور پاکستان کے دیگر صوبوں سے آنے والے طلبہ کے لیے ہاسٹلز بھی بنائے گئے ہیں۔سہیل اصغر کے مطابق لڑکوں اور لڑکیوں کے ہاسٹلز کی عمارتیں الگ الگ ونگ میں موجود ہیں، جہاں ہر ونگ میں 24 کمرے ہیں اور ہر کمرے میں آٹھ طلبہ کے رہنے کی جگہ موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ اسی کے ساتھ طلبہ اور طالبات کی تفریح کے لیے ایک باسکٹ بال کورٹ بھی بنایا گیا ہے جو کہ کھلی فضا میں بنا ہوا ہے اور گوادر کی ساحلی پٹی یہاں سے دیکھی جاسکتی ہے۔ساتھ ہی اس عمارت میں طلبہ کے لیے بین الاقوامی طرز کی کینٹین اور ایک عام استعمال کا روم بھی موجود ہے۔کینٹین میں طلبہ کو کیمپس میں موجود عملے کی جانب سے بنا ہوا تازہ کھانا میسر ہوگا، جسے وہیں بیٹھ کر کھانے کے لیے کئی ٹیبلز اور کرسیاں لگائی گئی ہیں۔اس کے علاوہ عام استعمال کے کمرے میں لگائی گئی سیٹیں بھی کافی دلچسپ ہیں۔ یہ مختلف رنگ کی مضبوط پلاسٹک سے بنی سیٹیں چینی تعلیمی اداروں میں کافی مقبول ہیں۔سہیل اصغر کے مطابق اس ملٹی پرپز ہال کو مختلف تقریبات، امتحانات اور مشغلوں کے لیے استعمال کیا جائے گا۔سی پیک کے کتنے منصوبے ہیں اور کتنے مکمل ہونا باقی ہیں۔گوادر پورٹ اتھارٹی کے ملازم اور پاکستان چائنہ ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر سہیل اصغر کے مطابق گوادر میں سی پیک کے کْل پانچ منصوبے ہیں، جس میں سے اب تک صرف ایک منصوبہ مکمل ہوا ہے۔اس کے علاوہ سی پیک کے چار اور منصوبے ہیں جن میں نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ، 50 بیڈز پر مشتمل گوادر پورٹ اتھارٹی ہسپتال، ایسٹ بے ایکسپریس وے اور 1.2 ملین گیلن فی دن پانی کی گنجائش کا ڈی سیلینیشن پلانٹ موجود ہیں۔ یہ تمام منصوبے ابھی تک زیر تعمیر ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں