سعودی عرب نے کم عمر افراد کے لیے سزائے موت ختم کر دی

سعودی عرب دنیا کے ان چند ملکوں میں سے ایک ہے جہاں اس سزا کا کثیر استعمال ہوتا ہے۔ مگر اب سعودی انسانی حقوق کمیشن نے امید ظاہر کی ہے کہ اس فیصلے سے ملک کے تعزیری نظام کو بدلنے میں مدد ملے گی۔سعودی عرب نے کم عمر افراد کو سزائے موت دینے کا سلسلہ ترک کر دیا ہے۔ یہ بات سعودی عرب میں حکومتی حمایت یافتہ ہیومن رائٹس کمیشن نے اتوار 26 اپریل کو اپنے ایک بیان میں کہی۔ سعودی شاہی خاندان کی طرف سے ملک میں اصلاحات لانے کی کوششوں کی یہ تازہ کڑی ہے۔’سعودی عرب ميں اب کسی کو کوڑے نہيں مارے جائيں یہ اعلان سعودی عرب کی طرف سے کوڑے مارنے کی سزا ختم کیے جانے کے فیصلے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔کمیشن کے مطابق تازہ اصلاحات کے تحت اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کسی ایسے شخص کو سزائے موت نہ دی جائے جس نے کم عمری میں اس طرح کا کوئی جرم کیا ہو۔ کمیشن کے سربراہ عواد العواد کے مطابق: ”اس کی بجائے ایسے فرد کو کم عمروں کی جیل میں 10 برس سے زائد عرصے تک بطور سزا رکھا جائے گا۔‘‘انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایران اور چین کے بعد سعودی عرب تیسرے نمبر پر ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ سزائے موت دی جاتی ہے۔ ایمنسٹی کی تازہ رپورٹ کے مطابق 2019ء میں سعودی عرب میں 184 افراد کو سزائے موت دی گئی جن میں کم از کم ایک شخص ایسا تھا جس نے جرم اُس وقت کیا تھا جب وہ کم عمر تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں