امریکہ، چین سمیت کئی ممالک کے دفاعی اخراجات میں بڑا اضافہ

سنہ 2019 میں عالمی دفاعی اخراجات 2018 کے مقابلے میں 4 فیصد زیادہ تھے جو کہ ایک دہائی میں کسی ایک سال میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔

یہ اعداد و شمار ملٹری بیلنس نامی جریدے کے 2020 کے شمارے میں شامل کیے گئے ہیں جو کہ میونخ سکیورٹی کانفرنس میں پیش کیا گیا۔ ملٹری بیلنس انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) کی جانب سے سالانہ شائع کیا جاتا ہے۔

سنہ 2018 کے مقابلے میں یورپ اس سال کے دفاعی اخراجات میں بھی تقریباً 4.2 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اتنا اضافہ 2008 کے مالی بحران کے بعد سے کبھی نہیں دیکھا گیا۔

یہ رجحان دنیا میں بدلتے حالات اور ریاستوں کے درمیان تعاون کے بجائے مقابلے کی عکاسی کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کا دفاعی بجٹ بڑھتا کیوں جارہا ہے؟

انڈیا: 422 ارب ڈالر کا بجٹ، دفاعی بجٹ میں اضافہ

وہ سربراہی کانفرنس جس نے دنیا کی شکل بدل ڈالی

نیٹو کیا ہے، کب بنا اور اب اس اتحاد کا مستقبل کیا ہے؟

سنہ 2019 میں چین اور امریکہ نے دفاعی اخراجات 6.6 فیصد بڑھا دیے۔ امریکہ میں ان اخراجات میں اضافے کی رفتار میں تیزی دیکھی گئی ہے جبکہ چین میں یہ رفتار آہستہ ہو رہی ہے۔

بیجنگ کے علاقائی سُپرپاور کے طور پر ابھرنے کے بعد ایشیا میں کئی سالوں سے دفاعی اخراجات بڑھتے ہی نظر آ رہے ہیں۔ مجموعی طور پر ایشیا میں ایک دہائی میں دفاعی اخراجات 50 فیصد تک بڑھے ہیں جس میں خطے کی بڑھتی مجموعی ملکی پیداوار کا کردار اہم ہے۔

ملٹری بیلنس کا دعویٰ ہے کہ دفاعی امور کے حوالے سے مباحثوں میں ان لوگوں کا پلڑا ابھی بھاری ہے جو کہ دنیا کو اس وقت سیکیورٹی کے حوالے سے غیرمستحکم سمجھتے ہیں۔ اس رائے میں یہ واضح ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جو عالمی قوانین اور روایات پر مبنی انٹرنیشنل آرڈر سامنے آیا تھا موجودہ حالات نے اس کے کلیدی عناصر کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔

اس کی ایک بہترین مثال سرد جنگ کے بعد اسلحے پر قابو پانے والے عالمی معاہدوں کا آہستہ آہستہ غیرمؤثر ہوجانا ہے۔

جریدے ملٹری بیلنس نے اس حوالے سے روسی خلاف ورزیوں کی وجہ سے انٹرمیڈیٹ رینج نیوکلیئر فورسز معاہدے (آئی این ایف) کے خاتمے اور امریکہ میں چینی ایٹمی اسلحے کو لے کر بڑھتی تشویش کی طرف اشارہ کیا ہے۔ چین اصل معاہدے کا حصہ نہیں تھا۔

ملٹری بیلنس کے مطابق مبصرین روس اور امریکہ کی جانب انتہائی غور سے دیکھ رہے ہیں کہ آیا اسلحے پر قابو پانے والے ’سٹارٹ معاہدے‘ کے کلیدی عناصر کی تجدید کی جاتی ہے یا نہیں۔

یہ معاہدہ ایک سال سے کم عرصے میں ختم ہو جائے گا اور یہ دونوں سوپر پاورز کے درمیان واحد معاہدہ ہے جو سٹریٹیجک اسلحے کو محدود رکھنے میں مدد کرتا ہے۔

روسی طرزِ عمل کے بارے میں بڑھتی بے چینی ایک بڑی وجہ ہے کہ نیٹو ممالک کے دفاعی اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس میں امریکہ کی طرف سے ڈالا جانے والا دباؤ اہم ہے کیونکہ صدر ٹرمپ شاید ہی اس بات کی مذمت کا کوئی موقع گنواتے ہوں کہ یورپی اتحادی واشنگٹن کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

یورپی ممالک کے دفاعی اخراجات بڑھ تو رہے ہیں مگر 2019 میں بھی یہ اُس حد تک پہنچے جتنے 2008 کے مالی بحران سے پہلے تھے۔ تاہم ملٹری بیلنس نے مشاہدہ کیا ہے کہ زیادہ پیسے ساز و سامان خریدنے، ریسرچ اور ڈویلیپمنٹ پر خرچ ہو رہے ہیں۔

جرمنی پر صدر ٹرمپ نے کافی تنقید کی ہے اور آئی آئی ایس ایس کے مطابق یورپی دفاعی اخراجات میں ایک تہائی اضافے کا ذمہ دار جرمنی ہی ہے۔ سنہ 2018 سے 2019 کے درمیان اس کے دفاعی اخراجات میں 9.7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

تاہم، اتنے اضافے کے باوجود جرمنی نے نیٹو کا وہ ہدف حاصل نہیں کیا جس کے تحت پر رکن ملک کو دفاع پر اپنی مجموعی ملکی پیداوار کا 2 فیصد لگانا ہے۔

ملٹری بیلنس کے مطابق فی الحال صرف سات نیٹو ممبران بلغاریہ، یونان، ایسٹونیا، رومانیہ، لیٹویا، پولینڈ اور برطانیہ ہی اس ہدف پر پورے اترے ہیں۔

ملٹری بیلنس ان اخراجات میں اضافے کی وجوہات کے سلسلے میں عسکری ٹیکنالوجی میں اہم ترقی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس میں ایسے سسٹمز شامل ہیں جنھوں نے ابھی کام کرنا شروع کیا ہے یا پہلے سے ہی اپنی جگہ بنا لی ہے۔ ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی جانب سے ڈرونز کے عام استعمال نے ڈرون شکن سسٹمز میں پھر سے دلچسپی کو جنم دیا ہے۔

سٹریٹیجک سطح پر روس اور چین ہائپر سونک گلائیڈ طیارے اور ہائپرسونک کروز میزائل پر کام کرتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ انتہائی تیز میزائل سسٹمز موجودہ میزائل شکن نظاموں کو غیر مؤثر کر سکتے ہیں۔

اس سال کے شمارے میں جس ایک بنیادی مسئلے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے وہ ہے ریاستوں کا مکمل جنگ نہیں بلکہ اپنے اہداف کے حصول کے لیے اس سے کچھ کم سطح پر ایک دوسرے کے خلاف حربے استعمال کرنا ہے۔

شمارے میں روس کی طرف سے کرائیمیا پر قبضہ اور اس دوران مشرقی یوکرین میں مداخلت کے الزامات سے انکار، برطانیہ میں روس کا کیمیائی اسلحے کا استعمال اور امریکہ میں صدارتی انتخابات میں مبینہ مداخلت شامل ہے۔

اس میں ایران کی سرگرمیوں کی مثال بھی دی گئی ہے، خصوصاً اپنی جنگ کے لیے کسی اور پراکسی کے استعمال کی ایرانی صلاحیت۔

روایتی فوجی ردِعمل سے ان حربوں کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہے۔

ملٹری بیلنس کے مطابق ’وہ نہ صرف درست انداز کی فوجی اور انٹیلیجنس صلاحیتیں بنانے کو اہم سمجھتے ہیں بلکہ وہ اپنے فوجی ساز و سامان اور فوجی اہلکاروں کو دیرپا اور قابلِ جدت بھی بنانا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے معاشرے اور سیاسی فیصلہ سازی میں بھی یہ پہلو دیکھنا چاہتے ہیں۔‘

qkdjldkjdl

اپنا تبصرہ بھیجیں