آخر وہ وقت آگیا

تحریر: انورساجدی
عمران خان ایک طرف اپنے سیاسی حریفوں اور دوسری جانب مقتدرہ کو بلیک میل کرنے کی جوکوشش کررہے ہیں وہ دراصل ایک التجا اور رحم کی اپیل ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ مجھ پر رحم کھایاجائے اور ایک بار پھر اقتدار میں لایاجائے معلوم نہیں کہ ان کی رحم کی اپیل کارگر ثابت ہوگی کہ نہیں کیونکہ ماضی میں ان قوتوں نے کبھی کسی سیاسی قوت پر رحم نہیں کھایا۔
چونکہ دونوں طرف غصہ اوراضطراب ہے اس لئے حالات تصادم کی طرف بڑھ رہے ہیں حکومت نے پی ٹی آئی کو سیالکوٹ میں مقررہ مقام پر جلسہ نہیں کرنے دیا کارکنوں پر لاٹھی چارج اور شیلنگ کرکے انہیں ماربھگایا یہ ایک اشارہ تھا کہ اگر کپتان زبردستی کریں گے تو حکومت بھی طاقت استعمال کرے گی۔
دوروز قبل کپتان نے مردان میں ایک بڑے جلسہ سے خطاب کیا اور مخصوص صحافیوں سے ملاقات کی جس کے دوران وہ چیخے چلائے روئے اور اعتراف کیاکہ چوروں کو حکومت میں لانے کی وجہ سے وہ صدمہ میں ہیں یہاں تک کہا کہ ان جیسے لوگوں کو حکومت دینے سے بہتر تھا کہ پاکستان پر ایٹم بم گرادیتے انہوں نے دھمکی لگائی کہ وہ سازش میں شریک تمام کرداروں کے نام طشت ازبام کردیں گے یہ دھمکی سیاسی حریفوں کیلئے نہیں تھی بلکہ اپنے سابق سرپرستوں کیلئے تھی بہت زور دے کر کہا کہ20مئی تک عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیاجائے لیکن یہ نخرہ بھی دکھایا کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر کے تحت شفاف انتخابات نہیں ہوسکتے یعنی وہ مرضی کا الیکشن کمیشن چاہتے ہیں راولپنڈی میں اپنے ہمدرد چاہتے ہیں ایسے حالات چاہتے ہیں کہ انتخابات میں ان کی جیت یقینی ہو لیکن زمینی حقائق یہی ہیں کہ اس وقت وہ اس ریل گاڑی سے اترچکے ہیں جو اقتدار کے اسٹیشن کی طرف جاتی تھی آئندہ انتخابات میں کامیابی کیلئے بڑے پاپڑ بیلنا پڑیں گے بڑی جدوجہد کرنا پڑے گی اور سب سے بڑی بات کہ اپنے اوسان بحال رکھنے پڑیں گے جذباتی اور احمقانہ فیصلوں سے گریز کرنا پڑے گا اپنے حالیہ انٹرویو میں انہوں نے پہلی دفعہ انکشاف کیا ہے کہ راوپنڈی نے ان کی حکومت چلنے نہیں دی انہوں نے مسلم لیگ ن میں فارورڈ بلاک بننے نہیں دیا علیم خان کو بھی نیب نے ان لوگوں کے کہنے پر گرفتار کیا موصوف روانی میں کہے جارہے تھے کہ فوجی قیادت سے اختلاف آئی ایس آئی چیف جنرل فیض کی تعیناتی اور عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنانے سے شروع ہوا کیونکہ وہ عثمان بزدار کو فوری طور پر ہٹانا چاہتے تھے انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ مقتدرہ ان سے بات کرنا چاہتی ہے لیکن انہوں نے ان کے نمبرز بلاک کردیئے ہیں وہ الیکشن کی تاریخ کے اعلان تک بات نہیں کریں گے البتہ اس کے بعد بات ہوسکتی ہے۔
سیالکوٹ کے واقعہ کے بعد امکانی طور پر کپتان جذبات سے مغلوب ہونگے اور بلیک میلنگ کیلئے مزید انکشافات کریں گے دوسری جانب حکومت چاہتی ہے کہ کپتان غلطیاں کرے اور ان سے کوئی ایسا بلنڈر سرزد ہوجائے کہ ان کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے شائد حکومت چاہتی ہے کہ ایسا بلنڈر ہوجائے کہ ان کی گرفتاری کا موقع ہاتھ آجائے حکومت کا خیال ہے کہ گرفتاری کے بعد ان کی طاقت ختم ہوجائے گی ممکن ایسا ہو لیکن کپتان نے بہ یک وقت سیاسی حریفوں فوج اور امریکہ کو چیلنج کرکے جو زوردار بیانیہ بنایا ہے وہ تھمنے والا نہیں ہے عوام کی بڑی تعدادان کے ساتھ ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ جب فوج اور تحریک انصاف آمنے سامنے ہوں تو عوام کس کا ساتھ دیں گے گوکہ ماضی میں بھی سیاسی تصادم ہوئے ہیں لیکن ایسا ماحول کبھی پیدا نہیں ہوا بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد پیپلزپارٹی کے18کارکنوں نے خود سوزی کی۔پارٹی کارکنوں پر ضیاؤ الحق قہر بن کر ٹوٹ پڑے لیکن انہوں نے فوج پرالزام نہیں لگایا بلکہ ضیاؤ الحق کی ذات کو اس کا ذمہدار ٹھہرایا یہ پہلا موقع ہے کہ کپتان براہ راست مدمقابل آئے ہیں ان کے اس طرز عمل سے پارٹی کارکن مظاہروں میں ایسے پلے کارڈ اٹھائے دکھائی دیتے ہیں جن پر عسکری قیادت کیخلاف نعرے درج ہیں انہوں نے اپنے کارکنوں کے جذبات بہت ٹھرکائے ہیں جس کی وجہ سے براہ راست تصادم کاخطرہ بڑھ گیا ہے ادھر لندن میں ن لیگی رہنماؤں نے نوازشریف کو پیش کئے گئے اپنے تجزیوں میں کہا ہے کہ اگر20مئی تک عمران خان کو گرفتار نہیں کیا گیا تو وہ اسلام آباد اورراولپنڈی میں طویل دھرنا دیں گے وہ موجودہ حکومت کو کسی صورت چلنے نہیں دیں گے۔ان کا پکا پروگرام ہے کہ وہ پاکستان کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل کر سری لنکا بنائیں یہ دور کی کوڑی بھی لائی گئی کہ عمران خان غیر ملکی ایجنڈے کے تحت پاکستان کی وحدت یا سا لمیت کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں چاہے جو بھی ہو جتنی بڑی قیمت کیوں ادا نہ کرنا پڑے ان کو حفاظتی تحویل میں لینا ضروری ہے ن لیگ کو توقع ہے کہ فارن فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف معدوم ہوجائے گی لیکن بظاہر ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ جس چیف الیکشن کمشنر کو عمران خان نے متنازعہ بناکر چھوڑا ہے وہ اتنا بڑا فیصلہ دیدے لندن اجلاس میں واضح طور پر اعتراف کیا گیا کہ موجودہ حالات میں عمران خان کو ہٹانا اور حکومت بنانا سنگین غلطی ہے کیونکہ ڈوبتی معیشت کو بچانا مشکل ہے حالانکہ معیشت کا دیوالیہ عمران خان نے نکالا تھا لیکن وہ سارا ملبہ نئی حکومت پر ڈال رہے ہیں حکومت کو بے شمار ناپسندیدہ فیصلے کرنا پڑیں گے جس کا نتیجہ آئندہ انتخابات میں حکومت کیخلاف نکلے گا ن لیگی زعما اتنے بھولے ہیں کہ ایک دوسرے سے سوال کررہے تھے انہیں کھائی کی طرف کس نے دھکہ دیا۔
یہ جو لڑائی ہے یہ اتنا آسان نہیں ہے 1971ء میں جو لڑائی ہوئی اس کے مقاصد واضح تھے یعنی پنجابی ایلیٹ کسی صورت اقتدار مشرقی پاکستان منتقل کرنا نہیں چاہتی تھی چنانچہ اس تصادم کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا لیکن اقتدار راولپنڈی سے ڈھاکہ منتقل نہیں ہونے دیا گیا اس وقت صورتحال مختلف ہے یہ لہڑائی پنجابی ایلیٹ کی آپس کی لڑائی ہے اور اس کا مقصد اقتدار اور طاقت کا حصول ہے اس لڑائی میں پنجاب کی ایلیٹ شدید تقسیم کا شکارہے نصف لوگ عمران خان کے ساتھ ہیں اور آدھے لوگ ن لیگ کے ساتھ ہیں یہ جو اقلیتی صوبے ہیں یہ لاحقہ کی حیثیت رکھتے ہیں یہ بیگانی شادی میں ڈھول بجانے والے ہیں جبکہ سارے پہلوانوں کا تعلق وسطی پنجاب سے ہے بلکہ مشرقی پنجاب اور کشمیری مہاجر اس جنگ میں اہم رول ادا کررہے ہیں جنگ کے دونوں پہلوانوں کا تعلق جالندھر اور امرتسر سے ہے اگرچہ نیازیوں کا علاقہ میانوالی ہے لیکن عمران کی نسبت ننھیال سے زیادہ ہے پنجاب کے لوکل سیاستدان ہیں وہ کسی گنتی میں نہیں ہیں شیخ رشید سے لیکر ڈیرہ غازی خان کے صاحبزادگان تک بیشتر لوگ مشرقی پنجاب اور کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔سی پی این کے محترم صدر کاظم خان ہمیشہ مجھے ڈانٹ پلاتے ہیں کہ میں نسلی اور لسانی ریمارکس دیتا ہوں۔وہ اس سے اجتناب کی تلقین کرتے ہیں لیکن ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ حقائق کو کیسے چھپایاجاسکتا ہے۔
سیالکوٹ سے1970ء کے عام انتخابات میں ملک ثناؤ اللہ آخری لوکل تھے جو کامیاب ہوئے تھے اسی طرح ثمینہ خالد گھر کی آخری لوکل تھے جو لاہور سے الیکشن جیتے تھے سوال یہ ہے کہ اس صورتحال کو کیانام دیاجائے اگرچہ اقلیتی صوبوں کے سیاستدان بھی پنجابی ایلیٹ کی جنگ میں شریک ہیں لیکن وہ صرف معاونت کررہے ہیں ان کا کوئی لیڈرول نہیں ہے۔
عمران خان اس لئے زور لگارہے ہیں انہیں پتہ ہے کہ ان کی پشت پر کافی طاقتور لوگ ہیں اور نوازشریف بھی اپنی پشت پناہی کرنے والوں کو جانتے ہیں لیکن یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ ان کی ریاست ایک نازک مقام پر کھڑی ہے بے شک مشرقی پاکستان کی صورتحال مختلف تھی لیکن اس مرتبہ پاکستان کو اندرونی دشمنوں کا سامنا ہے اگر ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہوگیا یا اداروں کے درمیان تصادم کی نوبت آگئی تو تاریخ اور جغرافیہ نئی کروٹ لے سکتے ہیں خاص طور پر جغرافیہ بڑا ظالم ہوتا ہے اگرچہ بھارت کو دشمن نمبر ایک کہاجاتا ہے لیکن وہ براہ راست الجھنے سے گریز کررہا ہے کیونکہ اس کا کام اپنے سیاستدان کررہے ہیں۔
کل کی تصویر ہے کہ سری لنکا میں لوگوں کے ہجوم سپر اسٹوروں کو لوٹ رہے ہیں کیونکہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے یہی صورتحال پاکستان میں بھی دستک دے رہی ہے اگر معاشی معاملات نہ سنبھلے یا عمران خان نے انارکی کیفیت پیدا کردی تو پاکستان کے بڑے شہروں میں لوگ لوٹ مار کے اسی طرح کے مناظر دیکھیں گے جو کولمبو میں نظر آرہے ہیں یہاں چونکہ اختلافات بہت زیادہ ہیں اس لئے ناقابل یقین خونریزی بھی ہوسکتی ہے اور سری لنکا سے زیادہ خراب حالات پیدا ہوسکتے ہیں عمران خان تیزی کے ساتھ اس کا اہتمام کررہے ہیں وہ جو بولتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے وہ لاکھ عوام کوباور کرائیں لیکن معیشت انہی کے ہاتھوں ڈوب گئی اور ملک کے حالات انہی کی وجہ سے یہان تک پہنچے لیکن وہ پروپیگنڈے کے ذریعے عوام کو گمراہ کررہے ہیں دوسری جانب حکومت کی کسی جماعت میں یہ دم خم نہیں ہے کہ وہ عمران خان کی خامیوں کو عوام کے سامنے لائے اور ان کا کردار بے نقاب کرے ایک ایسا لیڈر جس میں یہ اخلاقی جرأت نہیں کہ وہ اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرے وہ آگے جاکر کیاکرسکتے ہیں اس سے اس کا ایمان نہیں بے ایمانی ظاہر ہوتی ہے بہر حال براہ راست تصادم ٹکراؤ اور گرفتاریوں کا سیزن شروع ہونے والا ہے اقلیتی صوبوں کے لوگ یہ تماشہ ضرور دیکھیں گے کیونکہ وہ کھیل کا حصہ نہیں محض تماش بین ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں