بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل و شیرانی کے جنگلات میں لگنے والی آگ تاحال بے قابو

کوئٹہ:بلوچستان کے ضلع موسی خیل اور شیرانی کے جنگلات میں لگنے والی آگ پر کئی دن گزر جانے کے باوجود بھی قابو نہیں پایا جاسکا، تاہم زمری میں لیویز اور محکمہ جنگلات کے حکام نے اپنی مدد آپ کے تحت آگ بجھا دی۔نو مئی کو بلوچستان کے علاقے مغل کوٹ میں کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں مبینہ طور پر آسمانی بجلی گرنے سے جنگلات میں آگ لگ گئی تھی، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے موسی خیل، شیرانی اور دیگر علاقوں کے جنگلات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ضلع شیرانی کی تحصیل درازندہ کے رہائشی نذیر اللہ افغان کے مطابق کئی کلومیٹر پر محیط ان جنگلات میں زیتون، پلوس اور چلغوزوں کے لاکھوں درخت موجود ہیں اور آتشزدگی کی وجہ سے یہاں موجود حیوانات کو خطرات لاحق ہیں۔نذیر اللہ افغان کہتے ہیں کہ یہ علاقہ انتہائی دشوار گزار ہونے کی وجہ سے آگ پر قابو پانا انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے اور اس پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے قابو پایا جاسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے آج چھٹا دن ہے اور حکومت کی طرف سے ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے کہ یہاں کے لوگوں کو اربوں روپے کے نقصان سے بچایا جاسکے۔انہوں نے ضلع شیرانی اور موسی خیل کے قبائل سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت اس آگ کو بجھانے کے لیے پہنچیں۔دوسری جانب جنگلات و جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم اشر تحریک کے بانی سالمین خپلواک حکومت سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا: ہمیں ریاست و حکومت سے بہت شکایت ہیں کہ وہ ہمارے علاقوں یعنی پورے خیبر پختونخوا اور پورے بلوچستان خاص کر پشتون علاقوں میں جنگلات کے تحفظ، آگ بجھانے، نئے جنگلات لگانے، عوام کو آگاہ کرنے، پانی جمع کرنے، ٹیوب ویل کا راستہ روکنے، شکار کو ختم کرنے، نیشنل پارک بنانے، سونامی ٹری پروگرام میرٹ پر چلانے اور ٹمبر مافیا کی سرکوبی کے لیے کسی بھی قسم کے اقدامات نہیں کر رہی۔انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی بلوچستان کی جانب سے بھی کوئی کام نظر نہیں آرہا، جس کی واضح مثال یہ ہے کہ آگ تقریبا 25 کلومیٹر تک پھیل چکی ہے مگر ابھی تک اسے بجھانے کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ شیرانی وموسی خیل میں ہیلی کاپٹر بھیج کر اس آگ پر قابو پایا جائے بصورت دیگر ہم قومی شاہراہ بند کرکے احتجاج ریکارڈ کروائیں گے۔نائب تحصیل دار زمری پلاسین کی جانب سے ڈپٹی کمشنر موسی خیل کو ارسال کی گئی رپورٹ کے مطابق: 13 مئی کو آگ لگنے کی اطلاع پر لیویز فورس کی ٹیمیں زمری پلاسین بھجوائی گئی تھیں۔ یہ آگ قدرتی طور پر لگی تھی جس پر لیویز فورس کی محنت سے 15 مئی کو قابو پالیا گیا ہے، جس میں آگ بجھانے والے 16 عدد گولے استعمال کیے گئے ہیں۔اسی طرح ڈپٹی کمشنر موسی خیل یاسر حسین کا کہنا تھا کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بروقت کارروائی عمل میں لائی گئی اور لیویز کی ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں پہنچیں، جس کے بعد تحصیل زمری میں لگی آگ پر قابو پالیا گیا۔محکمہ جنگلات موسی خیل کے ڈویژنل فاریسٹ آفیسر عابد مروت نے بتایا کہ یہ واضح نہیں ہو رہا کہ یہ آگ مغل کوٹ (جو ضلع شیرانی کا علاقہ ہے)سے یہاں تک پہنچی ہے یا پھر ڈیرہ اسماعیل خان سے، البتہ محکمہ جنگلات ولیویز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے زمری میں جنگلات کوبڑے نقصان سے بچالیا ہے۔دوسری جانب سیکرٹری جنگلات و جنگلی حیات بلوچستان دوستین جمالدینی کہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں آسمانی بجلی گرنے سے جنگلات میں لگنے والی آگ تیز ہواں کی وجہ سے شیرانی، موسی خیل اور کوہلو تک پہنچی۔اشر تحریک کے بانی سالمین خپلواک کہتے ہیں کہ زمری میں آگ پر قابو پانا خوش آئند ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت دیگر علاقوں میں لگی آگ پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے، کیونکہ غفلت کا مظاہرہ کیا گیا تو اس کا نقصان نہ صرف درختوں کو ہوگا بلکہ مستقبل میں موسمیاتی تبدیلی کی صورت میں بھی ہم متاثر ہوں گے۔وزیراعلی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے بھی ضلع موسی خیل کی ذیلی تحصیل زمری پلاسین کے جنگلات میں آتشزدگی کا نوٹس لیتے ہوئے زیتون سمیت دیگر قدیم اور قیمتی جنگلات کو پہنچنے والے نقصان پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور سیکرٹری جنگلات اور کمشنر لورالائی ڈویژن کو آگ پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اور جنگلات کو پہنچنے والے نقصانات کی سروے رپورٹ تیار کرنے کی بھی ہدایت کی۔ان کا کہنا تھا کہ آگ پر قابو پانے کے لیے تمام دستیاب وسائل برے کار لائے جائیں اور جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔واضح رہے کہ شیرانی، موسی خیل اور اب کوہلو کے پہاڑی سلسلے کے جنگلات میں آگ لگنے کا یہ چوتھا واقعہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں