انصاف کاجنازہ

تحریر: انورساجدی
بندہ ہو یابندی اگر وہ اپنا ہو اس کا تعلق کسی خاص گروہ یا لاڈلی جماعت سے ہو تو عدالتیں رات12بجے بھی کھلتی ہیں۔
اگر کسی سائل کا تعلق خاص گروہ ہے نہ ہو وہ بلوچستان کا باشندہ ہو سندھ یا فاٹا سے تعلق رکھتا ہو تو اس کے لئے رات تو کیا دن کے12بجے بھی انصاف کے دروازے نہیں کھلتے یہ ہے اس ریاست کانظام انصاف اگرچہ محترمہ شیریں مزاری کو50سال پرانے مقدمہ میں گرفتار کیا گیا طریقہ کار بھی درست نہیں تھا اس لئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے رات12 بجے ان کی رہائی کا حکم دے کر بہت اچھا کیا ان کی گرفتاری کی جوڈیشل انکوائری کا حکم بھی دیا گیا لیکن متعدد معاملات میں کمیشن بنے آج تک ان کے ذریعے کسی کو انصاف نہیں ملا۔
عمران خان نے ملتان کے جلسے میں اپنی عمر اور مرتبہ کالحاظ کئے بغیر محترمہ مریم نواز کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے اس پر پورے ملک میں ان پر تنقید کی گئی مریم نواز تین دفعہ کے وزیراعظم کی صاحبزادی اور موجودہ وزیراعظم کی بھتیجی ہیں اس وقت بہت مقبول رہنما بھی ہیں ان کی عزت وتکریم سیاسی مخالفین پر واجب ہے لیکن اسی دوران دو بلوچ خواتین کو جبری طور پر حراست میں لے لیا گیا لیکن آج تک کسی نے ان کی عزت وتکریم کی بات نہیں کی اور نہ ہی خواتین کو مرد اہل کاروں کے ذریعے گرفتاریا اغوا کئے جانے کی مذمت کی گئی فرق صاف ظاہر ہے حکمرانوں کے نزدیک بلوچستان کے لوگ کسی تعظیم کے حقدار نہیں ہیں ان کے کوئی بنیاد حقوق نہیں ہیں اور پاکستان کا جو دستور ہے وہ بلوچستان میں نافذ نہیں ہے اس میں جو بنیادی حقوق ودیعت کئے گئے ہیں وہ ایک خاص علاقہ اور آبادی کے مخصوص حصہ کیلئے ہیں سوال یہ ہے کہ اہل بلوچستان اس صورت میں کیا کریں وہ انصاف کیلئے کس سے رجوع کریں اورمنصفی کس سے طلب کریں جب ان کے انسانی حقوق پامال کئے جائیں تو وہ احتجاج نہ کریں تو اور کیا کریں ریاست یا حکمرانوں کا بہیمانہ سلوک حد سے تجاوز کرگیا ہے کئی ہفتوں سے پیر کوہ کے معصوم بچے اور بزرگ گندے پانی کی وجہ سے ہلاک ہورہے ہیں حکومت اور اس کے ادارے چند ٹینکر پانی لاکر واہ واہ سمیٹ رہے ہیں لیکن کوئی نہیں بتارہا ہے کہ اتنے طویل عرصہ میں یہاں کے لوگوں کیلئے پینے کے صاف پانی کا بندوبست کیوں نہیں کیا گیا اور اسپتال کیوں نہیں بنائے گئے یہاں سے60برس سے گیس نکل رہی ہے اور ابتک کئی کھرب ڈالر کی گیس لوٹی جاچکی ہے اس کا حساب دینے کی بجائے ان پر زندگی کے دروازے بند کئے جارہے ہیں ادھر شیرانی میں نہایت قیمتی جنگلات میں آگ لگی ہوئی ہے جانی نقصان بھی ہوا ہے لیکن نہ مرکزی حکومت کچھ کررہی ہے اور نہ صوبائی حکومت کے بس میں ہے کہ وہ پائن (چلغوزہ) جنگلی زیتون شینے اور جونیپر کے ہزاروں سال پرانے جنگلات کو بچانے کیلئے کچھ کرے دیگر صوبوں کے لوگ حیران ہیں کہ بلوچستان میں اتنے بڑے جنگلات کہاں سے آگئے جن میں آگ لگ گئی ہے یہ لوگ زیارت،ہرنائی،سنجاوی اور ہربوئی کے جنگلات سے واقف نہیں ہیں انہوں نے سمجھ رکھا ہے کہ بلوچستان ایک بے آب وگیاہ صحرا ہے وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔سنا ہے کہ ایران نے آگ بجھانے کیلئے ایک جہاز دینے کی پیشکش کی ہے پاکستان کے پاس یا تو ایسے جہاز نہیں ہیں یا بلوچستان کودینے کیلئے تیار نہیں ہیں ایران وہ ملک ہے کہ وہ کئی دہائیوں سے جنوب مغربی علاقوں یعنی مکران کو بجلی فراہم کررہا ہے لیکن آج تک اسے بجلی کابل ادا نہیں کیا گیا اس کے باوجود بجلی کی فراہمی جاری ہے۔
بلوچستان اس وقت شدید خشک سالی کا بھی شکار ہے یہاں آج تک کسی حکومت نے بارش کے پانی کوذخیرہ کرنے کیلئے کوئی ڈیم نہیں بنایا مشرف نے میرانی اور سبکزئی کے ڈیم بنائے تھے معلوم نہیں کہ ان کی بھی کوئی افادیت ہے کہ نہیں جبکہ بلوچستان ہر ضلع کو بے شمار چھوٹے ڈیموں کی ضرورت ہے سولر کی ٹیکنالوجی آنے کے بعد لاکھوں ٹیوب ویل دن رات چل رہے ہیں جس کی وجہ سے زیر زمین پانی تیزی کے ساتھ ختم ہورہا ہے اگر کوئی بندوبست نہیں کیا گیا تو یہ علاقہ چھوٹا صحارا بن سکتا ہے لوگوں کویہاں سے نقل مکانی کرنا پڑے گا۔
ترقی تو دور کی بات ہے بلوچستان غربت کے حوالے سے دنیا کے سب سے زیادہ پسماندہ ممالک کی فہرست میں آخری نمبر پر ہے صوبے کا بجٹ سالہا سال سے ضائع ہورہا ہے کوئی ترقیاتی کام نہیں ہورہا ہے البتہ اراکین اسمبلی اپنے لئے فنڈز مختص کرکے اپنی خوشحالی اور آسودگی کااچھابندوبست کررہے ہیں آئے دن فنڈز کی تقسیم پر جھگڑے ہوتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان اسمبلی کوئی قانون ساز ادارہ نہیں بلکہ ایک خیراتی ادارہ ہے جس کی ذمہ داری اراکین اسمبلی میں فنڈز کی منصفانہ تقسیم ہے یہ فنڈز کا ہی شاخسانہ ہے کہ کبھی ایک وزیراعلیٰ اور کبھی دوسرے وزیراعلیٰ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جاتی ہے ہوسکتا ہے کہ ہمیں معلوم نہ ہو بلوچستان کی حکومتوں کا اصل اختیار فنڈز کی تقسیم تک محدود ہو جبکہ انتظامی اور دیگراختیارات دیگر عناصر کے ہاتھوں میں ہو۔
پاکستان میں ہر روز حضرت علیؓ کا یہ قول
دہرایا جاتا ہے کہ کفر کا نظام چل سکتا
ہے لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا لیکن
اوپر سے نیچے تک برا حال ہے
سیاستدان باہم دست بگریبان ہیں ادارے تقسیم ہیں معیشت ڈوب چکی ہے لیکن کسی کو پراہ نہیں ہے سابق وزیراعظم اپنی زوردار مہم کے ذریعے ”نیوٹرل”ہونے کا تاثر ختم کرچکے ہیں کیونکہ پس پردہ زیادہ لوگ انکے طرفدار ہیں اس لئے ایک عجیب وغریب لڑائی ہورہی ہے کرسی پر بیٹھے وزیراعظم گارنٹی مانگ رہے ہیں کہ انہیں سواسال کی مدت پوری کرنے دی جائے تب وہ کچھ اقدامات اٹھائیں گے ادھر نکالے گئے وزیراعظم بھی انہی عناصر پر زور دیتے رہے ہیں کہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیاجائے۔اس سے کیا ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان 1980ء اور1990ء کی دہائی میں جہاں تھا آج بھی وہیں پر ہے تواتر کے ساتھ انتخابات کے باوجود سیاستدانوں نے اتنی صلاحیت پیدا نہیں کی کہ وہ آئین میں تفویض کردہ اختیارات کا استعمال کرسکیں حیرانی کی بات ہے کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات میں حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور اطلاعات کے مطابق33خطرناک طالبان کمانڈرز کو طالبان حکومت کے حوالے کردیا گیا ہے یہ خبر سن کر پی ٹی ایم محسن داوڑ کی جماعت اور اے این پی کے ہاتھ پیر پھول گئے ہیں کیونکہ یہی لوگ تھے جنہوں نے سیاسی کارکنوں کا اچھا خاصا صفایا کردیا تھا اگر ٹی ٹی پی دوبارہ اہم اثاثہ بن کر آئی تو اس مرتبہ وہ اے این پی کے ساتھ جے یو آئی کے امیدواروں کو بھی نشانہ بناسکتے ہیں اگر کوئی موثر طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا تو آئندہ انتخابات بہت زیادہ خونی ثابت ہونگے کیونکہ عمران خان علی الاعلان کہہ رہے ہیں الیکشن کیلئے ان کی مرضی کی تاریخ دو دن کا پسندیدہ الیکشن کمیشن بناؤ اور ان کی مرضی کے نتائج لاکر انہیں دوبارہ وزیراعظم کی کرسی پر بٹھادو اس سے کم وہ کوئی چیز قبول کرنے کو تیار نہیں جو بھی ریاست کے معاملات ہیں وہ بہت پیچیدہ شکل اختیار کرچکے ہیں عمران خان چاہتے ہیں کہ نومبر سے پہلے وزیراعظم بن کر اہم تقرریاں اپنی مرضی سے کریں لیکن پتہ نہیں کہ انتخابات نومبر سے پہلے ہونگے یا اس کے بعد اگر کوئی نگران حکومت آگئی تو وہ اہم تقرریاں کرنے سے رہی۔عمران خان چند دنوں سے انقلاب کی باتیں کررہے ہیں معلوم نہیں کہ انقلاب سے مرادنظام بدلنا ہے یااس سے ان کی مراد ان کا دوبارہ وزیراعظم بننا ہے کتنی عجیب بات ہے کہ اس وقت جو وزیراعظم ہے وہ برملا کہہ رہے ہیں اس کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے ہیں ایسی بے بسی اور لاچاری آج تک کسی وزیراعظم کی دیکھنے میں نہیں آئی اگر یہی ہونا تھا تو عدم اعتماد کا پنگا کیوں لیا گیا اس سے بہتر تھا کہ عمران کو اپنے ہی بوجھ کے تحت گرنے دینا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں