کبھی ہار نہ مانیں

تحریر؛۔ غلام حسین ترونگل
پیاروں کبھی ہمت نہ ہاریں کبھی بھی مایوسی اختیار نہ کریں امید رکھیں نا امیدی کفر ہے۔ کسی بھی ایک ناکامی کی وجہ سے رک جانا کسی بھی مسلے کا حل تو نہیں،ٹھہر جانا بہاری تو نہیں، ہار مان لینا سمجھداری یا عقلمندی تو نہیں، بلکہ یہ صرف و صرف اپنے ساتھ ایک فریب،اپنے ساتھ دھوکہ ہے اور کچھ بھی نہیں۔جس کام نے، جس چیز نے آج آپ کو ہرا دیا تو کل آپ اسے کیسے جیت پایں گے؟
آج میں ان عظیم شخصیات کی کہانی بیان کروں گا جنہوں نے کبھی ہار نہیں مانی، کبھی جھکے نہیں،کبھی گڑگڑاے نہیں کبھی سر نہیں جھکایا بلکہ ہزاروں لوگوں کو سر اٹھا کے جینے کا پیغام دیا ہے۔۔۔۔آج میں جن ہستیوں کا ذکر بیان کر رہا ہوں یہ میرے دل کے قریب ہیں یہ وہ شخصیات ہیں جنہوں نے ہار نہیں مانی یہ میرے حب لسبیلہ کے ہی رہائش پرہیز ہیں۔۔۔(اول)سر غلام مرتضی گورگیج جن کا مقصد تھا کہ اپنی تعلیم کو جاری و ساری رکھے اور بہترین استاد بن کر دیکھاے۔جب سر غلام مرتضی نے اپنی میٹرک کی تعلیم مکمل کی تو کنراج سے حب چوکی کا رخ کیا نے لوگ نیا شہر کوی اپنا نہیں۔۔۔سوچیں کیا منظر ہوگا۔۔۔رہنے کیلے کوی جگہ نہیں تھی کھانے کو کچھ نہیں تھا آپ مل کر مرتضی صاحب سے پوچھ سکتے ہیں کہ کس طرح ان کے حوصلے پست ہوے اس جوان نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور کچھ روز بعد آصف کلینک میں جگہ مل گی۔۔۔
"خواب ٹوٹے ہیں مگر حو صلے زندہ ہیں
ہم تو وہ ہیں جہاں مشکلیں شر مندہ ہیں،،
آج غلام مرتضی صاحب بی اے کے طالب علم ہیں اور ایک بہترین استاد بھی۔۔۔۔اپنی پڑھای کے ساتھ ساتھ آپ نے ALP CENTER میں پڑھانا شروع کیا۔۔آج کل غلام مرتضی صاحب اے ایل پی کے ساتھ ساتھ دی پروگیرسز اسکول میں بھی پڑھاتے ہیں اور ایک اپنا انگلش لینگویچ سینٹر بھی چلا رہے ہیں۔۔۔آج کو قربان کر کے کل کو بہتر بنائیں یا آج کو سکون میں رکھ کر کل کو قربان کر دیں (دوم) اللہ ڈنہ کھوسہ۔۔۔اللہ ڈنہ کھوسہ کا تعلق جھل مگسی سے ہے۔۔۔اللہ ڈنہ نے غربت کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہا مگر شوق و جنون تھا کہ وہ علم حاصل کرے لیکن اللہ ڈنہ نے ہمت نہیں ہاری۔۔۔جب اسے معلومات ہوی کہ رات کے وقت بھی ایک سینٹر جو THE BESS کے نام سے مشہور ہے۔۔جب اللہ ڈنہ نے اس سینٹر میں داخلہ لیا تو دوسرے دن جب وہ کلاس میں داخل ہوا تو سارے بچے اس پر ہنسنے لگے کہ آپ اس عمر میں پڑھنے آے ہیں تو اللہ ڈنہ کھوسہ نے مسکرا کر جواب دیا ہاں میں اس عمر میں بھی پڑھ لکھ کر دکھاں گا اس وقت آپ کی عمر 20 برس تھی۔۔اس کے علاوہ دوستوں نے بھی اس کی حوصلہ شکنی کی اپنے رشتیداروں نے بھی مزاق اڑایا لیکن اس جوان کے حوصلے کو پست نہیں کر پاے۔۔۔آج وہ اللہ ڈنہ ایک اچھے مقام پر پہنچ چکا ہے حب کے تمام تعلیمی پروگرامز میں شرکت کرتا ہے۔۔اللہ ڈنہ ہمیشہ میرے ساتھ رہتا ہے آجکل وہ موٹیویشنل ویڈیوز بھی بناتا ہے۔۔۔فانوس بن کہ جن کی حفاظت ہوا کرے.وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے(.سوم) میڈم فوزیہ عثمان رونجھو۔۔۔آپ نے بہت جدوجہد کی تعلیم حاصل کرنے کیلے اب آپ ایک بہت ہی اچھے مقام پر فیضیاب ہیں آپ گورنمنٹ 17 گریڈ کی استانی ہیں۔۔۔ میڈم فوزیہ نے اپنی چند سہیلیوں کے مشوروں سے اپنی ایک چھوٹی سی اپنی مدد آپ تنظیم کا آغاز کیا۔ جس کا نام ہے ایف ڈی تنظیم ایک مہینہ انہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ کوئی راستہ ہی نہیں نکل رہا تھا پر میڈم فوزیہ نے اس لفظ کو اپنی زندگی سے نہیں مٹایا کہ ہمت مت ہارنا اس کے بعد مختلف منصوبے بنتے بھی گئے ٹوٹتے بھی گئے مگر نہ ٹوٹی تو صرف میڈم فوزیہ میڈم صاحبہ نے ایک مفٹ کڑھای سلا سینٹر کھولا تاکہ غریب لوگوں کو ہنر سکھایا جاے اس کام میں میڈم فوزیہ کی شاگردوں نے بھی اپنا اہم کردار ادا کیا اور سلای کڑھای سیکھانے کا سلسلہ شروع کردیا۔پر اس کرونا کی وبا نے میڈم فوزیہ کیتمام تر کاموں کو روک دیا. (مگر میڈم کو ہرگز نہیں)اور میڈم فوزیہ نے گھر بیٹھے بیٹھے مارکیٹنگ کا کام شروع کر دیا جو کام میڈم فوزیہ نے پہلے اپنی پوری زندگی میں مارکیٹنگ کا کام نہیں کیا تھا۔مارکیٹنگ سے پیسے بچتے ہیں میڈم فوزیہ ان پیسوں سے غریب گھرانوں تک راشن پہچاتی ہیں۔۔ اسی طرح میڈم فوزیہ نے اپنی جدوجہد جاری رکھی آج ایف ڈی اچھے خاصے طور پر کام میں مشغول ہے آج تک تقریبا ایف ڈی نے 270 گھرانوں سے زاد کی مدد کی ہے۔۔۔کبھی ہار نہ مانیں اللہ مو لنکم وھو خیرالنصرینAllah is your protector and he is the best of helpers (Al Quran,50)کبھی ہار نہ مانیں آج اگر غلام مرتضی اپنے مقصد میں کامیاب ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ اس نے ہمت نہیں ہاری اس نے تمام مشکلات کا سامنا کیا۔۔آج اگر اللہ ڈنہ بھی اپنے مقصد میں کامیاب ہے تو اس نے ہار نہیں مانی رشتیداروں یا دوستوں کے مزاق اڑانے پر انہوں نے پڑھنا ترک نہیں کیا محنت و جدوجہد جاری رکھی بلکہ وہ ابھی بھی اسی سینٹر میں زیرتعلیم ہے۔۔۔آج اگر ایف ڈی فاڈیشن چل رہی ہے تو میڈم فوزیہ کا یہی مقصد تھا اس نے ہار نہیں مانی لوگوں نے بہت ٹوکا روکا مگر میڈم نے ہار نہیں مانی اور آج میڈم کا لگایا ہوا ایک پودہ تناور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔۔۔ایک میں اپنی مثال پیش کروں گا۔۔۔۔۔۔میرے شوق نے،میرے عشق نے مزدور سے ایک استاد،لکھاری،اسپیکر،ٹیم لیڈر بنا دیا ہے۔ میری زندگی پوری ایک کتاب ہے جس کے صفحات آپ کو میں اس تحریر میں گن کر نہیں بتا سکتا ان شا اللہ پھر کبھی۔۔۔ہاں یہ بات ضرور یاد رکھنا کہ ایک مزدور سے استاد بنے تک ک بار حوصلہ چور چور ہوگیا لیکن الحمد ِللہ کبھی بار نہیں مانی اور میں آپ سب کے سامنے ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں