سانحہ 8 اگست پر قاضی فائز عیسیٰ کی رپورٹ پر عملدرآمد کیا جائے، اے این پی

کوئٹہ (انتخاب نیوز) عوامی نیشنل پارٹی اے این پی کے صدر اسفندیار ولی خان نے کوئٹہ کے سرکاری ہسپتال پر بم حملے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بنائے گئے انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں درج سفارشات پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے، حملے میں 60سے زائد وکلا جاں بحق ہوگئے تھے۔ سانحہ کوئٹہ کی چھٹی برسی کے موقع پر پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات زاہد خان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں اے این پی کے سربراہ نے واقعے کیخلاف بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد پر بھی زور دیا جو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد مرتب کیا گیا تھا۔ اسفند یار ولی خان کا خیال تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ کی رپورٹ پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد سے ہی تخریب کاری کا خاتمہ ممکن ہے۔ انہوں نے اس طرح کے سانحات کا سامنا کرنے کے باوجود بار اور بینچ کے تقدس کے لیے وکلا برادری کی جدوجہد کو بھی سراہا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں شدت پسندی کے تناظر میں وکلا برادری نے اب تک جو قربانیاں دی ہیں وہ رائیگاں نہیں جائیں گی۔ اے این پی کے سربراہ نے کہا کہ شدت پسندوں نے مہلک حملے میں وکلا کی ایک پوری نسل کو ختم کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ سازشی عناصر اب بھی خطے میں امن و امان کو برباد کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔انہوں نے کوئٹہ میں وکلا پر ہونے والے حملے کو ملک کے بڑے سانحوں میں سے ایک بڑا سانحہ قرار دیا۔ 8 اگست 2016ء کو شدت پسندوں نے کوئٹہ کے سرکاری ہسپتال پر حملہ کیا تھا جہاں اس وقت کے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی پر حملے کے بعد وکلا کی بڑی تعداد جمع تھی۔ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا اور کمیشن کی 110صفحات پر مشتمل رپورٹ دسمبر 2016ء میں شائع ہوئی تھی جس میں 18 سفارشات شامل تھیں۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے عوام مسلسل تخریبی حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں، یہ حملے بلا روک ٹوک جاری ہیں، یہ حملے موثر جواب کے مستحق ہیں۔ اس میں مزید کہا گیا تھا کہ پاکستانی عوام کو ناکام بنانے والوں کا احتساب ہونا چاہیے، معاملات مزید ایسے نہیں چل سکتے جیسے وہ چلائے جاتے رہے ہیں، اعلیٰ سطح کے احتساب کے بغیر نظام میں تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ رپورٹ میں ریاست پر زور دیا گیا تھا کہ وہ نفرت پھیلانے والوں اور قتل عام کرنے والوں کیخلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اپنی رٹ کو نافذ کرے۔ رپورٹ میں ریاست پر یہ زور دیا گیا تھا کہ وہ انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی ایکٹ، پاکستان پینل کوڈ اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے آئین کی سختی سے پابندی کرے۔ رپورٹ میں تجویز کیا گیا تھا کہ اے ٹی اے کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے اور شدت پسندوں، مسلح تنظیموں کو بلا تاخیر کالعدم قرار دیا جانا چاہیے۔ رپورٹ میں مزید تجویز کیا گیا تھا کہ شدت پسندوں اور ان کی تنظیموں کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں ہونا چاہیے اور جو لوگ کالعدم تنظیموں کے کارکن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کیخلاف اے ٹی اے کے مطابق کارروائی کی جانی چاہیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں