پروجیکٹ عمران خان

تحریر : انور ساجدی
عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کی گرفتاری کے بعد بیشتر تجزیہ نگار یوٹوبرز اور سوشل میڈیا کے مبصرین اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں کہ آہستہ آہستہ عمران خان کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے جن عناصر نے خان صاحب کو لانچ کر کے طاقت میں لے آئے تھے وہ پروجیکٹ عمران خان کو ڈمپ کر رہے ہیں اگر خان صاحب نے بات نہ مانی اور اسی طرح اڑے رہے تو ان کے خلاف سخت ایکشن ہوگا اگر وہ حدود کے اندر چلتے رہے تو طاقت کے عناصر یوں آسانی کے ساتھ اپنے قیمتی سیاسی اثاثے کو رائیگاں جانے نہیں دیں گے اتنا تو ہوا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلہ اور ریفرنس دائر ہونے کے بعد عمران خان روز اپنی صفائیاں پیش کر رہے ہیں واویلا کر رہے ہیں بلند آہنگ فریاد کر رہے ہیں کہ انہیں بچایا جائے اور آئندہ انتخابات میں دوبارہ اقتدار میں لایا جائے عمران خان کے پاس واحد صفائی یہ ہے کہ مخالفین کی چوری بہت زیادہ ہے ان کی کم ہے لہذا انہیں معاف کر دیا جائے ساتھ ہی موصوف دھمکیاں دے رہے ہیں ملک ٹوٹنٹے کا ڈراوابھی دکھا رہے ہیں شیخ مجیب الرحمان کا حوالہ دے رہے ہیں کہ کس طرح ملک کے سب سے بڑے لیڈر کو دیوار سے لگایا گیا جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہو گیا یعنی اگر مجھے بھی دیوار سے لگایا گیا تو ایسا سیاسی و معاشی عدم استحکام آئیگا کہ ملک کی وحدت کو قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا نہ صرف یہ بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ سب سے زیادہ اسٹریٹ پاور اس کے پاس ہے عوام ان کے ساتھ ہیں اس لئے وہ ایجی ٹیشن پر آئے تو ملک کا نظام چلانا ناممکن ہو جائیگا ۔
اس میں شک نہیں کہ عمران خان کی حمایت بہت زیادہ ہے اس کے ”کلٹ فالووز ،، کی تعداد لاکھوں میں ہے لیکن یہ پیروکار اس لئے بن گئے ہیں کہ ان کی شخصیت کا ایک بٹ کھڑا کیا گیا ہے انہیں 2002ء میں ایک نشست سے اُٹھا کر 2013ءمیں 33نشستوں تک لے جایا گیا جبکہ 2018ءمیںبہت بڑا جھرلو پھیر کر اقتدار ان کے حوالے کیا گیا لیکن اقتدار کے تیسرے سال انہوں نے آنکھیں دکھانا شروع کر دیں ۔
وہ بھول گئے تھے کہ پاکستان جیسے ملک میں خود کو کامل وزیراعظم سمجھنا ایک سنگین غلطی ہے گزشتہ تین برسوں کے دوران بے نظیر دو مرتبہ نواز شریف تین بار اوریوسف رضا گیلانی ایک بار برطرف ہو چکے ہیں خاص طور پر ایسے وقت میں کہ مسائل کا پہاڑ سر پر کھڑا ہو معیشت ڈوب رہی ہے ایک وزیراعظم کی جانب سے من مانے اقدامات مخالفین کو دیوار سے لگانے کی روش ناقابل قبول ہے لیکن عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کو بہت زیادہ ذلیل کیا ان کے پاس چارہ نہ تھا کہ وہ اپنے فرعون صفت حریف کو ہٹانے کیلئے کوئی بھی حربہ استعمال کریں خاص طور پر جب عمران خان نے تمام اداروں کو تابع فرمان بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا چنانچہ ” پرانے چوروں “ کو معاف کر دیا گیا اور اجازت دی گئی کہ عمران خان کے ڈاکے ، چوری اور بددیانتی کو منظر عام پر لایا جائے فرح گوگی سے لے کر متعدد مالیاتی اسکینڈلوں ، توشہ خانہ پر ڈاکہ اور دنیا بھر سے خیرات جمع کر کے اسے اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا ایسی کمزوریاں ہیں کہ عمران خان ان سے بچ نہیں سکتے تھے ان پر 15مقدمات ہیں اور وہ مختلف علاقوں میں جا کر ضمانت کروا چکے ہیں لیکن ایسا وقت آئیگا کہ انہیں پیشیسوں سے فرصت نہیں ملے گی اور وہ وقت بھی زیادہ دور نہیں کہ ان کے مفت کے سارے وکیل بھاگ جائین گے اور انہیں کروڑوں روپے دے کر پروفیشنل وکیل رکھنے پڑیں گے ۔
ابھی تو ہلکی پھلکی موسیقی شوع ہوئی ہے اگر عمران خان باز نہ آئے تو پکے راگ بھی شروع ہو جائیں گے بیچ میں ایک کوشش یہ بھی کی جائے گی کہ ” مائنس عمران “ کا فارمولہ آزمایا جائے جیسے کہ مسلم لیگ ن میں کیا گیا تھا ن لیگ تو ایک پرانی باقاعدہ جماعت تھی لیکن تحریک انصاف ایک سیاسی و اعتقادی کلٹ ہے اگر عمران خان کو مائنس کر دیا جائے تو کچھ بھی نہیں بچے گا تحریک انصاف میں سرے سے کوئی سیکنڈ کیڈر نہیں ہے شاہ محمود ، فواد چوہدری ، اسد عمر اور مراد سعید میں ایسی صلاحیتیں نہیں ہیں کہ وہ عمران خان کے بغیر پارٹی کو چلا سکیں البتہ اگر عمران خان نے ایک کام کر لیا تو ان کی جماعت نہ صرف برقرار رہے گی بلکہ کامیابی کے ساتھ چل بھی سکے گی وہ کام یہ ہو گا کہ وہ اپنی باپردہ اہلیہ بشریٰ بی بی کو میدان میں اتار دیں یہ کوئی آسان کام نہیں ہوگا کیونکہ بشریٰ بی بی سے وابستہ بھی بے شمار مالیاتی اسیکنڈل موجود ہیں جو ان کے میدان میں آنے کے بعد شدت کے ساتھ نظر میں آئیں گے ۔
ابھی تو اتنا ہوا کہ موجودہ اتحادی حکومت کو چلنے دیا جا رہا ہے کیونکہ یہ ایک مجبوری ہے اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ورنہ ایسی معاشی و سیاسی افراتفری پیدا ہو جائے گی کہ اس کی وجہ سے ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا ۔
کئی لوگوں کو ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ عمران خان اور مقتدرہ کے تعلقات ٹوٹ چکے ہیں ان کے خیال میں پروجیکٹ عمران خان کو جھٹکے دے کر برقرار رکھاجائیگا تاہم اس کا انحصار عمران خان کے رویہ اور حکمت عملی پر ہو گا اگر وہ کوئی سیاسی غلطی کر بیٹھے تو تعلقات مستقل بنیادوں پر ٹوٹ سکتے ہیں عمران خان کے ایسے مشیر ہیں جو انہیں ریڈ لائن عبور کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں وہ عمران خان کے اندر جو کمزور اور سہم زدہ شخصیت ہے اسے بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں تحریک انصاف کے مذہبی پیشوا طارق جمیل نے حال ہی میں آخری قربانی دے کر اپنے کو تاریخ میں رقم کرنے کی بات کی ہے خود عمران خان بھی ایسی قربانی کا کئی بار ذکر کر چکے ہیں لیکن وقت بتائے گا کہ وہ حضرت امام حسینؓ کے نقش قدم پر چلیں گے یا ذوالفقار علی بھٹو بننے کی کوشش کریں گے سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے بلکہ دوبارہ پیر پکڑنے اور آئندہ الیکشن تک صحیح سلامت پہنچنے کی کوششیں کریں گے ۔
البتہ وہ کئی اقدامات کر سکتے ہیں وہ کئی مذہبی گروہوں کو استعمال کر سکتے ہیں مثال کے طور پر ٹی ٹی پی جو اچانک سے پورے صوبہ پختونخواءمیں پھیل گئی ہے اس کی کیا وجوہات ہیں کسی کو معلوم نہیں اس صوبہ میں عمران خان کی حکومت ہے اور طالبان کا دوبارہ ظہور اور طاقت میں آ جانا خالی رز اسرار نہیں ہے ۔
گزشتہ ماہ اے این پی کے رہنماﺅں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ پشتونخواءحکومت گورنر اور اہم شخصیات جان بخشی کے عیوض ٹی ٹی پی کو بھتہ ادا کر رہی ہیں کچھ دن بعد ایم این اے محسن داوڑ نے قومی اسمبلی کے فلور پر اس کی تصدیق کی تھی حال ہی میں سوات میں جو اہلکار اغواءہوئے وہ اس بات کا ثبوت ہے ٹی ٹی پی سرحد سے دور علاقوں میں بھی پہنچ گئی ہے لوگوں کو یاد ہوگا کہ ایم ایم اے کے دور میں ملافضل اللہ نے کس طرح سوات پر قبضہ کیا تھا اور اپنی عملداری قائم کی تھی ایک حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹی ٹی پی سے معاہدہ ہوا اس کے باوجود وہ اس طرح کی کارروائیاں کر رہی ہے ہو سکتا ہے کہ اس کے پیچھے پاکستانی سیاسی عوامل کارفرما ہوں عمران خان کی ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ اہم مقامات پر ان کے پیروکار موجود ہیں جو کسی بھی نازک موقع پرحساس نوعیت پیدا کر سکتے ہیں لیکن عمران خان نے ایسا کچھ کرنے کی کوشش کی تو ان کا انجام بہت برا ہو گا اور ان کی داستان صرف داستانوں میں ہی ہوگی انہیں آئندہ سال تک الیکشن کا انتظار کرنا چاہئے اور انتہاءپسندی سے گریز کرنا چاہئے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں