اپوزیشن کے مطالبے کو تسلیم کرکے قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا، شاہ محمود قریشی


اسلام آباد:وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ کورونا وائرس پر یک نکاتی ایجنڈے پر قومی اسمبلی کا فیصلہ کیا اور اپوزیشن کے مطالبے کو تسلیم کیا،کورونا وائرس کا چیلنج مشکل ہے اور حقیقت ہے کہ جنگ عظیم سے بھی زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔تفصیلات کے مطابقوفاقی حکومت کی جانب سے کورونا وائرس کے باعث عائد بندشوں میں نرمی کے اعلان کے بعد پہلی مرتبہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کو شروع ہوا، اجلاس سے قبل شرکت کرنے والے تمام اراکین نے کورونا وائرس کے ٹیسٹ کر وائے۔ قومی اسمبلی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ کورونا وائرس پر یک نکاتی ایجنڈے پر قومی اسمبلی کا فیصلہ کیا اور اپوزیشن کے مطالبے کو تسلیم کیا۔انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کا چیلنج مشکل ہے اور حقیقت ہے کہ جنگ عظیم سے بھی زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کا علاج ویکسین کی صورت میں سامنے نہیں آتا اس وقت تک مختلف تجربوں سے اس کو محدود کرنے کی ہم بھی کوشش کررہے ہیں لیکن خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ دو سال لگیں گے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہمیں مل بیٹھ کر حل نکالنا ہوگا اور مشترکہ ایجنڈا بنانا ہوگا۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس وقت 209 ملک اس وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں جبکہ 40 لاکھ افراد متاثرجبکہ 2 لاکھ 80 ہزار 700 افراد وائرس کے باعث ہلاک ہوچکے ہیں۔پاکستان کی صورتحال پر بات کرنے سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس قبل ایک تقابلی جائزہ آپ کے سامنے ہونا چاہیے، امریکا جس کا نظام صحت بہت جدید ہے اس کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں 80 ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں جبکہ برطانیہ میں 31 اور اٹلی میں 30 ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر اس کا موازنہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک سے کریں، جہاں نظام صحت بھی کمزور ہے، تاہم یہاں صورتحال یہ ہے کہ 10 مئی تک 661 اموات ہوئی ہیں اور 29 ہزار سے کچھ زیادہ مثبت کیسز ہیں جبکہ 8 ہزار 23 لوگ اس سے صحتیاب بھی ہوئے ہیں۔وزیرخاجہ نے کہا کہ پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری کو کراچی میں سامنے آتا ہے، ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ جب اس وائرس کا پہلا کیس پاکستان میں آتا ہے تو اس وقت ہماری کیا صورتحال تھی۔انہوں نے بتایا کہ جب پہلا کیس آیا تو یومیہ 100 ٹیسٹ کرنے کی سہولت تھی لیکن ہم ہماری صلاحیت 20 ہزار کیس روزانہ کرنے تک پہنچ چکی ہے۔شاہ محمود قریشی نے مطابق جب پہلا کیس آتا ہے تو ہمارے یہاں 8 لیبارٹری کام کر رہی تھی اور اب 70 سے زائد لیبارٹری کام کر رہی ہیں۔بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت اگر پاکستان کا موازنہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک سے کیا جائے تو پاکستان کی ٹیسٹنگ کی صلاحیت اس وقت تک دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آج ہماری ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت 10 ہزار سے زائد ہوگئی ہے، شروع میں 8 لیبارٹریز میں ٹیسٹ ہورہے تھے اور آج 70 کے قریب لیبارٹریاں ہیں جو فعال ہیں۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ میں 2 اہم حقائق پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ آپ نے بحث کا آغاز کرنا ہے، لہذا جب ہم بحث کرتے ہیں تو ہمیں یہ ذہن نشین کرنا ہوگا کہ صحت کا شعبہ بنیادی طور پر 2010 میں تقسیم ہوچکا ہے اور اس کی بنیادی ذمہ داری 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل ہوچکی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب ہم اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ تو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ سندھ میں 12 سال سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے جبکہ گزشتہ 10 سال مسلم لیگ (ن)پنجاب میں حکمرانی کرتی رہی۔دوران خطاب انہوں نے کہا کہ جب ہم انفیکشن اور اموات کی شرح کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو ہمیں ایک تقابلی جائزہ کرنا چاہیے، ہم ہوا میں بات نہیں کرسکتے۔ان کا کہنا تھا کہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں انفیکشن اور اموات کی شرح 2.17 فیصد ہے جبکہ اگر عالمی طور پر اس کی اوسط دیکھیں تو یہ 6.8 فیصد ہے، پاکستانن میں ابھی ہمارے سامنے چیلنج آنا ہے لیکن اس وقت تک اللہ کا کرم ہے کہ اس کی رحمت ہم پر ہے۔وزیر خارجہ کے مطابق ہمارا جو خیال تھا اور جو پہلے اندازہ بنایا جارہا تھا تو اس کے تحت اب تک ہمارا نظام صحت تباہ ہوچکا ہوتا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں برملا اعتراف کروں گا کہ ٹیسٹ کرنے کی تعداد ناکافی ہے۔وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انفیکشن اور اموات کی شرح 2.8 فیصد ہے اور دنیا میں 6.8 فیصد ہے، گوکہ پاکستان میں ابھی عروج آنا ہے لیکن ہم پر اللہ خاص کرم ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ بنیادی فیصلے کیے جس میں کچھ اصول مرتب کیے، ایک یہ کہ ہم اپنے فیصلوں میں اجتماعی رائے اور حکمت عملی کا سہارا لیں گے، اسی سلسلے میں ہم نے 2 فورم تشکیل دیے، جس میں ایک قومی رابطہ کمیٹی کا ہے جس کی سربراہی وزیراعظم کرتے ہیں جبکہ ایک نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سیں ٹر ہے جس کی سربراہی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ اس کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر میں چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو نمائندگی دی جاتی ہے اور ان کے سیکریٹری اس فورم کے ممبر ہیں، روزانہ این سی او سی کا اجلاس ہوتا ہے۔بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ روزانہ اسد عمر تمام نمائندوں سے اپ ڈیٹ لیتے ہیں، اس کے علاوہ مشاورت کے پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارا مقصد اتفاق رائے پیدا کرنا ہے تاکہ اس وائرس سے لڑا جاسکے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم قومی اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔اپنے خطاب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ وفاق کی ذمہ داری ہے یہ جانتے ہوئے کہ 18 ویں ترمیم کا ہم پر نفاذ ہوچکا ہے اور صوبائی خودمختاری کا موضوع بہت حساس ہے ہم نے کوشش کی ہے کہ صوبوں کو فلیکسیبلٹی دی جائے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صحت کا نظام 2010 میں صوبوں کو منتقل ہوچکا ہے اور ان ترامیم کے بعد سندھ میں مسلسل پیپلزپارٹی اور پنجاب میں دس برس تک پاکستان مسلم لیگ (ن)نے حکومت کی اور یہ ذمہ داری سنبھال رہے تھے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت میں بی جے پی کی حکومت دنیا کو پیغام دے رہا ہے کہ ہمیں بھارت کو کورونا جہاد کررہا ہے اور اس عالمی وبا کو مذہبی رنگ دے رہا ہے جس کی پاکستان سختی سے مذمت کررہا ہے۔تفتان سرحد کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک چھوٹا سا گاں ہے لیکن میں نے ایران کے وزیر خارجہ سے خود بات کرکے ان سے کہا تھا کہ زائرین کو روکیں جس پر انہوں نے اتفاق کیا تھا لیکن وہ پابندیوں سے متاثرہ ملک ہے اور دبا برداشت نہیں کرسکے.شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ایران سے 5 ہزار سے زائد زائرن کو واپس بھیجنے کے لیے دروازہ کھول دیا اور پاکستان کی طرف دھکیل دیا۔انہوں نے کہا کہ تبلیغی جماعت پر کورونا وائرس کے حوالے سے بات کی گئی اور انگلیاں اٹھائی گئیں، یہ ستم ظریفی ہے کہ ہم نیکن زاویوں سے عالمی وبا کو سمجھے کی کوشش کی۔صوبوں کے خدشات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو صوبے کہتے ہیں امتیازی سلوک برتا جارہا ہے لیکن بصد احترام یہ درست نہیں ہے، بہتری کی گنجائش موجود ہے اور ہم اپنے وسائل کے مطابق بہتری کی کوشش کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری بیٹھے ہوئے، میں ان کی نذر چند حقائق کروں گا۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایک تاثر ملا کہ سندھ کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے تو میں واضح کردوں گا کہ ہم نے وفاقی سطح پر ایک پروگرام کا آغاز کیا جس کا نام احساس کفالت پروگرام ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام پورے پاکستان کے لیے اور اس وقت سندھ میں 26 ارب روپے احساس کفالت کے ذریعے پہنچادیے گئے ہیں اور 23 لاکھ کنبے اس سے مستفید ہوچکے ہیں۔قبل ازیں اراکین قومی اسمبلی کو داخلے کے لیے سینیٹائزر گیٹ نصب کیے گئے اور ایوان میں فاصلے پر بیٹھنے کے انتظامات کیے جاچکے ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے والے اراکین کو ماسک، دستانے اور سینیٹائزر دے گئے ہیں۔قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے انتظامات کا جائزہ لیا اور کہا کہ ارکان کو ایوان کو فاصلے پر بٹھائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہوگا جس کے لیے انتظامات کیے گئے ہیں اور لاجز میں بھی کورونا وائرس کے ٹیسٹ کی سہولت فراہم کردی ہے اور قومی اسمبلی میں بھی ٹیسٹ کے لیے عملہ بھیج دیا گیا ہے۔قاسم سوری نے کہا کہ شرکت کرنے والے تمام اراکین کی اسکریننگ کی اور ان کو ماسک، سینیٹائزر فراہم کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کے رہنما فیصلہ کریں گے کہ اجلاس میں کتنے اراکین شریک ہوں گے۔ظفر ملک