لاک ڈاؤن: پاکستان میں خواتین و بچوں پر تشدد میں 200 فی صد اضافہ

اسلام آباد :پاکستان میں کرونا وائرس کے دوران لاک ڈاؤن میں 2020 کی پہلی سہ ماہی میں خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد میں 200 فی صد اضافہ ہوا ہے۔سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کی جاری کردہ رپورٹ میں خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد، زیادتی، کم عمری میں شادیاں اور قتل کے واقعات سے متعلق تفصیلات دی گئی ہیں۔یہ تفصیلات اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کی بنیاد پر جمع کیے گئے اعداد و شمار پر مبنی ہیں۔ ان اعداد وشمار کے مطابق خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد کے 90 فی صد واقعات شہروں میں پیش آئے۔ادارے کے مطابق یہ اعداد و شمار صرف رپورٹ ہونے والے واقعات پر مبنی ہیں جب کہ جو کیس رپورٹ نہیں ہوئے یا جنہیں مبینہ طور پر دبا دیا گیا اگر انہیں بھی شمار کیا جائے تو یہ تعداد 90 فی صد سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رواں سال کے پہلے تین ماہ میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 74 کیسز سامنے آئے۔ ان میں 61 کیسز صرف مارچ میں رپورٹ ہوئے جب ملک میں کرونا تیزی سے پھیلنا شروع ہوا تھا اور جزوی لاک ڈاؤن جاری تھا۔سسٹین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ جنسی تشدد کے بیشتر واقعات دفاتر یا کام کی دیگر جگہوں پر ہوئے۔رپورٹ کے مطابق پہلی سہ ماہی میں قتل کے مقدمات میں 142.1 فی صد اضافہ ہوا جب کہ اغوا کے 164 واقعات رپورٹ ہوئے۔بچوں کو زیادہ تر کھیل کے میدانوں، پارکس اور ان کے گھروں کے قریب سے اغوا کیا گیا۔پہلی سہ ماہی کے دوران گھریلو تشدد کے 20 واقعات رونما ہوئے جب کہ ہراسانی کے آٹھ، زیادتی کے 25 اور خواتین پر تشدد کے 36 کیسز رپورٹ ہوئے۔ایس ایس ڈی او کا کہنا ہے کہ تحفظ شہریوں کا بنیادی حق ہے اور حکومت اس کی ذمہ دار ہے۔ادارے کا کہنا ہے کہ رپورٹ کا مقصد شہریوں کے تحفظ سے متعلق حکومتی اداروں کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کرنا ہے۔ حکومت نے عورتوں اور بچوں کے تحفظ کے لیے وقتاََ فوقتاََ کئی قوانین بنائے مگر ان پر اب تک عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکن ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ عام لوگوں کو ان قوانین کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔ پولیس اکثر تشدد کے واقعات کو گھریلو جھگڑا کہہ کر نظر انداز کر دیتی ہے۔ان کے بقول کرونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن طویل ہوا جس سے بچے گھروں سے نکل کر گلی محلوں میں کھیلنے آگئے اور اسی وجہ سے انہیں ٹارگٹ بننے سے روکا نہیں جاسکا۔ادھر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن فرزانہ باری کہتی ہیں کہ خواتین پر تشدد اس وقت کا گلوبل ٹرینڈ ہے۔ پوری دنیا میں خواتین کے خلاف کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ گھروں تک محدود لوگ پریشان ہیں جس کی وجہ سے خواتین پر چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی تشدد ہو رہا ہے۔فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کو نہایت سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ پولیس کو ہاٹ لائن اور دیگر سروسز کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے کیسز میں فوری مدد فراہم کی جاسکے۔ان کے بقول تشدد ہوتا ہی اس وقت ہے جب کوئی خود کو طاقت ور سمجھتا ہے اور اپنی طاقت کا کمزور طبقے پر اظہار بھی کرنا چاہتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتِ حال میں تشدد کرنے والوں کا زور صرف خواتین پر چل سکتا ہے۔ اس لیے وائرس کے دوران تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں