ملک کی خدمت کی ہے،مجھے راستے کا پتھر بننے سے بچایا جائے،ڈاکٹر قدیر خان کی عدالت میں درخواست


اسلام آباد:سپریم کورٹ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آزادانہ نقل و حرکت سے متعلق مقدمے کی سماعت، عدالت میں موجود ہونے اور عدالتی حکم کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نہ ہی عدالت کے سامنے ذاتی حیثیت میں پیش ہونے دیا گیا اور نہ ہی انہیں اپنے وکلا سے ملاقات کرائی جا سکی۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرف سے سارے معاملہ کی آگاہی اور انصاف بابت عدالت عظمی میں ایک اور متفرق درخوست بھی دائر کر دی گئی ہے۔متفرق درخواست میں ڈاکٹر عبدلقدیر خان کی طرف سے عدالت عظمی سے استدعا کی گئی ہے کہ انہوں نے ملک و قوم کی خدمت کی ہے انھیں انصاف کیلئے رولنگ سٹون بننے سے بچایا جائے۔معاملے کی سماعت جسٹس مشیر عالم اور جسٹس یحیی آفریدی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔دوران سماعت عدالت عظمی نے معاملہ کی سماعت ان چیمبر کرنے کی حکومتی استدعا ایک مرتبہ پھر مسترد کر دی ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے گزشتہ روز بھی مقدمے کی سماعت ان چیمبر کرنے کی استدعا کی گئی تھی جسے عدالت نے مسترد کیا تھا۔جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ یہ مقدمہ چیمبر میں نہیں سنیں گے۔ ڈاکٹر قدیر خان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میری اپنے موکل سے ملاقات نہیں ہوئی،ہماری اپنے موکل تک رسائی بھی نہیں ہے۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وہ وکیل صاحب کی ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقات کروا دیں گے، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ ڈاکٹر قدیر خان صاحب کی ان کے وکیل سے ملاقات کروائیں، ہم اس مقدمے کو ساڑھے گیارہ بجے دوبارہ سنیں گے۔وکیل صفائی بولے وفاقی حکومت کو ہدایت دیں کہ میری ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقات کروائیں،جسٹس مشیر عالم بولے آپ کی ملاقات اٹارنی جنرل کروائیں گے پھر مقدمے کو سن لیتے ہیں۔ کیس کی سماعت ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو وکیل توفیق آصف نے بتایا کہ ان کی ڈاکٹر قدیر خان سے تنہائی میں ملاقات نہیں کرائی گئی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نے ملاقات کروا دی ہے۔ ڈاکٹر قدیر کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اٹارنی جنرل غلط بیانی کر رہے ہیں، ملاقات نہیں رسمی سلام دعا ہوئی کیونکہ وہاں ایجنسیوں کے دو اہلکار بھی موجود تھے۔جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ ڈاکٹر قدیر خان سے وکیل کی تنہائی میں ملاقات کرائی جائے۔ جسٹس یحیی آفریدی نے ہدایت کی کہ ملاقات میں نامزد وکلا کے علاوہ کوئی اور موجود نہ ہو۔عدالت کو بتایا گیا کہ یہ بات درست ہے جب وکیل کمرے میں داخل ہوئے تو وہاں سکیورٹی کے لیے دو اہلکار موجود تھے۔جسٹس آفریدی نے کہا کہ یہ قانون کی عدالت ہے، ہماری آپ کے لیے ایک نصیحت ہے کہ سپریم کورٹ کا بطور عدالت احترام برقرار رکھیں، ایڈیشنل اٹارنی ساجد الیاس نے کہا کہ کل بھی ڈاکٹر قدیر خان سے یہ تین لوگ مل کے آئے ہیں۔وکیل توفیق آصف نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں ڈاکٹر قدیر خان سے ایسے ملاقات کروائی گئی جیسے گوانتانامو بے جیل کوئی قیدی سے مل رہا ہو۔عدالت نے ہدایت کی کہ وفاقی حکومت نامزد وکلا سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے تنہائی میں ملاقات کروائے، ملاقات دوپہر ساڑھے بارہ بجے ان کی رہائش گاہ پر کرائی جائے، آدھے گھنٹے کی ملاقات میں کوئی غیر متعلقہ شخص موجود نہ ہو۔کیس کی سماعت(جمعرات) تک ملتوی کر دی گئی۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ججز گیٹ کے ذریعے سخت سیکورٹی حصار میں سپریم کورٹ لایا گیا.بعد ازاں ڈاکٹر عبدلقدیر خان کی جانب سے ایک اور متفرق درخوست دائر کر دی جس میں انہوں نے کہا کہ آج سپریم کورٹ میں میری درخواست کیِ سماعت کے موقع پر مجھے عدالت میں پیشی کے لیے سپریم کورٹ بلڈنگ میں عدالت کی ہدایت کے مطابق نہیں لایا گیا،مجھے سپریم کورٹ لانے کا مقصد وکلا سے ملاقات کرانا،تا ہم عدالتی ہدایت کے برعکس میری وکلا سے علیحدگی میں ملاقات نہیں کرائی گئی،وکلا سے مختصر ملاقات میں سرکاری اہلکار بھی موجود رہے، درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ مجھے عدالت میں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کی اجازت دی جائے، میں عدالت میں پیش ہو کر اپنا موقف پیش کرنا چاہتا ہوں،عدالت کو بتانا چاہتا ہوں کہ بطور آزاد شہری نقل وحرکت میرا بنیادی حق ہے، میرے آئینی حق کو کسی صورت سلب نہیں کیا جا سکتا،اگر میرا کیس دوبارہ ہائیکورٹ میں بھیجا گیا تو انصاف کی کوئی امید نہیں،میں نے ملک کی خدمت کی ہے،مجھے راستے کا پتھر بننے سے بچایا جائے،میں نے اپنی تمام امیدیں اس معزز عدالت سے وابستہ کی ہیں،عدالت سے استدعا ہے میرا کیس یہیں سنا جائے، درخواست ڈاکٹر عبدلقدیر خان کے وکیل توفیق آصف کی توسط سے دائر کی گئی ہے۔