ایک ادھوری خواہش

تحریر:نصیر بلوچ
ایک ایسے وقت میں جہاں سیاست محض کمائی کا زریعہ ہو جھوٹ پر مبنی سیاسی ڈائیلاگ ہو جس سے عوام کنفیوژن کا شکار ہو۔ ایسے وقت میں جہاں امیدیں ایک مسیحا پر وابسطہ ہوں، نظریں صرف عظیم رہنماوں کی تلاش میں ہوں اسی بے رحم دور میں ایک عظیم بلوچ رہنما یوسف مستی خان کا ہم سے بچھڑنا ایک صدمے سے کم نہیں۔ موجودہ وقت میں کسی بھی سیاسی لیڈر کا موقف واضح نہیں سیاسی موسم کے مطابق اپنی رخ تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ اخترمینگل نے عبدالقدوس بزنجو کو تنبیہ کیا تھا کہ جام کمال سے دوبارہ تعلقات استوار کرنے کا انجام خطرناک ہوگا لہذا اجتناب کریں۔ اسکے برعکس عبدالقدوس بزنجو نے گزشتہ دنوں جام کمال صاحب سے نہ صرف ملے بالکل ان کے درمیان سیرِحاصل گفتگو بھی ہوئی جس کے بعد سے اخترمینگل رخ تبدیل کرنے کا سوچ رہی ہیں اور اپنے سیاسی ساکھ کو ریکوڈک کا بیانیہ دیکر مظبوط کرنے لگے ہیں۔ میٹنگ کے فوری بعد ہی آغا حسن کا ریکوڈک کے متعلق بیان اور اخترمینگل کا یہ کہنا کہ ہم حکومت کا حصہ نہیں کیونکہ حکومت جاتی ہوئی نظر آرہی ہے اسکے سخت ناراضگی کا مظہر ہے۔ وہ ایک سرداری ذہنیت کے مالک ہیں کوئی اسکی بات کو ڈال دے وہ یہ قطعی برداشت نہیں کریں گے۔
دورِ حاضر میں بلوچستان میں کوئی سنجیدہ رہنماء نہیں بلوچستان کے سب لیڈر مراعت کے پیچھے پڑے ہیں انہیں عوام سے کوئی دلی لگاو نہیں۔ بس الیکشن کے وقت تھوڑی بہت پھرتی دکھانے آجاتے ہیں۔
ماضی میں یوسف مستی خان سچائی کے خاطر کہی بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے ہیں۔ آخری تقریر انہوں نے 8 دسمبر 2021 میں حق دو تحریک کے پلاٹ فارم سے گوادر میں کیا تھا جس کے بعد انکو گرفتار کیا گیا بعدازاں عوامی مزاحمت سے جلد رہا کردیئے گئے۔
یوسف مستی خان 16 جولائی کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے آٹھویں جماعت تک تعلیم برن ہال اسکول اہبٹ آباد سے حاصل کی مزید تین سال کراچی گرامراسکول اور سینٹ پیٹرک اسکول میں پڑھائی کی ۔ انہوں نےگریجویشن 1968میں نیشنل کالج کراچی سے کیا۔
یوسف مستی نے سیاست کا آغاز بلوچ طلبہ تنظیم بی ایس او کے پلیٹ فارم سے کیا بعد ازاں میر غوث بخش بزنجو کی قیادت میں نعپ کا حصہ رہے۔ 1974 میں نیپ کی حکومت ختم ہونے بعد پابند سلاسل رہے۔ جب میر غوث بخش بزنجو نے پاکستان نیشنل پارٹی بنائی تو ان کے ہمراہ نیشل پارٹی میں کا فعال کردار ادا کیا ۔ 90 کی دہائی میں ۔پاکستان نیشل پارٹی کی ٹوٹنے کے بعد چند سال نیشنل پارٹی کے ایک گروپ کے سربراہ رہے ۔ ترقی پسند سیاست کی جدوجہد اور عوامی قوت کومنظم کرنے کے غرض سے دیگر ترقی پسند سیاسی گروپوں کے ساتھ ملکر پاکستان ورکرز پارٹی تشکیل دی بعد ازاں اسے مزید وسعت دیتے ہوئے دیگر بائیں بازو کے دیگر سیاسی پارٹیوں کا ادغام کرکے عوامی ورکرز پارٹی کے قیام کو یقینی بنایا۔ یوسف مستی خان نے 2002 کے عام انتخابات میں سندہ نیشنل الائنس کے پلیٹ فارم پرملیر سے قومی نشست پر الیکشن میں حصہ لیا۔
انہوں نے کراچی کے بلوچوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے اور ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے خاطر ہمیشہ کوشاں رہے ۔ انہوں نے 1986 میں انور جان کی قیادت میں بلوچ اتحاد کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔
واجہ یوسف مستی خان عوث بخش بزنجو اور عبدالعزیز کرد جیسے عظیم لیڈرز کے ہمنوا رہے ہیں۔ جن کے صحت نے انہیں بھی عظمت کی بلندی تک پہنچادیا۔ واجہ مستی خان بلوچوں کے لئے ایک رول ماڈل تھے اسکے جانے سے یہ خلا اور کوئی پُر نہیں کرسکتا۔
میری دلی خواہش تھی کہ میں ایک بار واجہ یوسف مستی خان سے مل بیٹھ کر سیاست پر انکی ماہرانہ رائے لیتا، ایک بار کسی دوست نے بتایا کہ واجہ لیاقت ہسپتال کراچی میں ہیں۔ بہت کوشش کی معلوم نہیں نصیب نے ساتھ کیوں نہیں دیا بدقستمی سے مل نہیں سکا اور پھر مجھے معلوم ہوا کہ واجہ اسلام آباد چلے گئے ہیں میری زندگی میں ایک یہی ادھوری خواہش ہے کہ جس پر مجھے افسوس رہے گا۔
دلیری کی علامت ترقی پسند سوچ کے مالک یوسف مستی جب گفتگو فرماتے جہموریت کی بالادستی کی بات کرتے البتہ انہیں جیل جانے سے قبل یا بعد تنبیہ کیا گیا تھا کہ اس نیم جمہوری ملک میں حقیقی جمہوریت ممکن نہیں تو آپ کیوں کر بار بار جمہوریت کے رٹ لگائے بیٹھے ہیں لیکن چونکہ واجہ بڑے متعبرانہ مزاج کے مالک تھے انکے اذیت ناک چہرے پر مسکراہٹ جھلکتی تھی وہ ان باتوں کو بس جاہلانہ قرار دیکر مسکرادیتے اور پھر اپنی مزاج کے مطابق اپنے مقصد پر اڑے رہتے۔ وہ ہر سیاسی جہدوجہد کرنے والے بلوچ کو اپنا بیٹا گردانتے اور نوجوان انہیں اپنا باپ مانتے اور ان سے یوں گل ملتے جیسے کوئی اپنے حقیقی باپ سے نہیں ملتا۔ بلوچ نوجوان طبقہ ایک باپ کے سایہ سے محروم ہوگئے۔