پاکستان میں تجارتی آزادی، آئین و قانون کے تناظر میں

تحریر: شکیل مینگل
پاکستانی آئین نے جس طرح دیگر شعبہ ہائے زندگی کیلئے حقوق و فرائض مختص کیئے ہیں وہیں تجارتی آزادی کو بھی آئین پاکستان 73ء میں جگہ دی گئی ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق ملکی شناخت رکھنے والا کوئی بھی شخص ملک کے کسی بھی حصے میں بلا کسی سرکاری و غیر سرکاری روک ٹوک کے مکمل آزادی سے تجارت کرسکتا ہے۔ تجارت کے زمرے میں روز مرہ اشیاء کے استعمال سے لیکر مخصوص اوقات میں ضروریات صرف تک شامل ہیں۔ تجارت کرنے والے کو نہ صرف آزادی میسر ہے بلکہ بعض پہلوؤں سے اسکے کاروبار و تجارت کا دفاع بھی کیا جاتا ہے۔ آئین پاکستان، آرٹیکل 18 کے تینوں شق تجارتی آزادی کے زمرے میں درج کیئے گئے ہیں لیکن اس آئینی حق کا زمینی حقائق سیے موازنہ کرے تو آئین کے اس آرٹیکل کی پامالی ہمیں قدم قدم پر دکھائی دیتی ہیں۔ بلوچستان میں تجارتی صورتحال سے اسے واضح کرنے کی کوشش کرینگے۔ بلوچستان میں موجود لوگوں کی تجارت ملکی سرحدوں اور چھوٹے موٹے کاروباروں سے منسلک ہے۔ بلوچستان کی سرحد ایک طرف ہمسایہ ملک افغانستان اور دوسری طرف ایران کے ساتھ لگتی ہے۔ سرحدی باشندوں سے لیکر مرکزی شہر کوئٹہ تک کے ہزاروں لوگوں کا ذریعہ معاش انہی سرحدوں سے وابستہ ہے۔ افغانستان کی سرحد سے غیر ملکی اشیاء جن میں گاڑیاں، کمبل، اسپیئر پارٹس اور ضروریات زندگی کی دیگر اشیاء کا کاروبار ہوتا ہے اور یہیں سے ہزاروں گھروں کے چولہے جلتے ہیں لیکن عالم یہ ہے کہ کھلم کھلا انہی تجارتی افراد سے کسٹم، لیویز، پولیس جگہ جگہ روک کر بھتہ وصول کرتی ہے۔ تجارت کرنے والے جب اشیاء کی قیمت خرید سے زیادہ بھتہ دیتا ہے تو یہ اسے پست سے پست ترین معاشی صورتحال کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح ایرانی سرحد سے منسلک لوگوں کا کاروبار ایرانی تیل (پیٹرول، ڈیزل) سے وابستہ ہے۔ ایک سہولیات کی عدم دستابی، راستوں کی خرابی کے علاوہ طویل سفر میں پانی کے نہ ہونے سے سینکڑوں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ دوسری طرف مختلف سرکاری اہلکار انہیں روک کر ان کے پیسے، تیل اور موبائل وغیرہ لے جاتے ہیں۔ رواں سال بلوچستان کے علاقے نوکنڈی میں بارڈر ٹریڈ سے منسلک لوگوں پر سیکورٹی فورسز کی طرف سے حملہ، انکی گاڑیوں کے ریڈی ایٹرز میں ریت ڈالنا، شدید گرمی میں صحرا میں پیدل سفر کروانا اور ان میں سے کئی لوگوں کا بھوک و پیاس سے لقمہ اجل بننا بلوچستان میں تجارتی آزادی کی پامالی کی واضح مثال ہے۔ اسکے علاوہ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں چھوٹے موٹے کاروبار سے منسلک دکانداروں کے ساتھ میونسپل کمیٹی اور صوبائی حکومت کا رویہ بھی استحصالی اور ظالمانہ ہے۔ مرکزی شہر میں مختلف شاہراہوں کو دو رویہ اور چوڑا کرنے کے نام پر کئی دکان، بلڈنگز اور تجارتی مراکز منہدم کردیے گئے ہیں۔ لوگوں کو زمینوں کے عوض انتہائی قلیل رقم دے دی گئی ہے جو انہیں روزگار اور ملکیت سے محروم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کے علاوہ ان شاہراہوں پر جاری کام انتہائی سست روی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے مزید دکانیں اور کاروباری مراکز بنانے میں دشواری پیش آرہی ہیں۔ ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا جائے تو اس آرٹیکل اور آئینی حق کی پامالی مکمل واضح ہوجاتی ہے۔