کیچ بے تحاشا مسائل کا شکار

تحریر : شاہ میر مسعود

بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ کیچ کے مسائل پر کچھ لکھوں تو تب قلم ہاتھ میں لیا تو سر چکرانے لگا کہ کیا لکھوں کے کیچ کے مسائل اتنے بہت ہیں، تعلیم، صحت اور خوردونوش کی قیمتوں پر مہنگائی اور بھی اس طرح کے بے شمار مسائل ہیں جو کیچ کے باسیوں کو ان کا سامنا ہے۔

یہاں پر بیک وقت تین صوبائی وزیر، ایک ایم این اے اورایم پی ایزبھی رہے ہیں جو کہ ہر طرح سے اجتماعی مسائل کے حل میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں،کیونکہ وہ اپنی ذاتی خواھشات کو زیادہ ترجیح دے رہے ہوتے ہیں۔ اگر اتنےنمائندے ایک ضلع میں ہوکر بھی علاقے کے لیے کچھ نہ کر پائے تو یہ شومیِ قسمت نہیں تو کیا ہے؟

چلو تعلیم کے شعبہ کو لیں کہ بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر تربت میں واقع عطاء شاد ڈگری کالج کے طلباء سکول بس کے اندر در در کی ٹھوکریں کھانے کے باوجود بس کی چھت میں شدت سی دھوپ میں بھی بیٹھتے ہیں،، جو انتہائی نا مناسب بات ہے، ہمارے مستقبل کے چراغوں سے کیا کھیل کھیلاجا رہا ہے،دیگر سہولیات کو چھوڑیں اتنے نمائندے ہوکر کالج،یونیورسٹیز اور سکولوں کو بس فراہم نہیں کرسکتے تو دوسرے بڑے مسائل کیسے حل کرتے۔؟

تربت کی واحد پبلک لائبریری جو گزشتہ 2 سال سے زائد عرصے سے بند ہے مزکورہ لائبریری کی بلڈنگ گودام کی شکل اختیار کر چکا ہے، پبلک لائبریری کا کسی بھی معاشرے میں انتہائی اہم کردار ہوتاہے۔مگر تربت کے شہری اور طلبا اس نعمت سے محروم ہیں ۔
آر سی ڈی سی تربت کی کاوشیں قابل تعریف ہیں جنہوں نے اپنی مدد آپ کثیر تعداد میں طلباء اسٹڈی کیلئے جگہ فراہم کی ہے،

اسکولوں کی بھی صورتحال دیکھ لیں مڈل اور ہائی سکول میں ٹیچرز کی بڑی تعداد میں کمی رہتی ہے، بعض اسکولوں میں ٹیچرز ہیں تنخواہ لیتے ہیں پر ڈیوٹی دینے سے قاصر ہیں۔ شاہد حکومت انکی پشت پناہی کررہی ہے یا یونین والوں نے تعلیم نظام کو بد تر کردیا ہے، اور کچھ سکولوں میں عمارت کی کمی بھی ہے، میری نظر میں ایک ہائی سکول ہے جہاں میں زیر تعلیم ہوں وہاں دسویں جماعت کے طلباء کو بلڈنگ نہیں ہے، جس کی چھت کافی ناکارہ ہے ایسے بہت سے اسکول ہیں جن کے بلڈنگ اسی طرح بوسیدہ اور ناکارہ ہیں۔

اگرصحت کے شعبوں کی حالت زار کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ ادارے بھی تباہی کے دھانے پہنچ چکے، ٹیچنگ ہسپتال تربت جہاں ضلع بھر سے لوگ آتے ہیں پر یہاں نہ کوئی بہترین ڈاکٹرز ہیں نہ کوئی دوسرا اسٹاف ہے، کینولا پاس کرنے میں یہاں کے نرس اور کمپاؤڈرز 10 منٹ سے زائد لگاتے ہیں۔ اور صفائی کی بات کی جائے تو انتہائی گندگی ہے، ایک اور بات آئے روز وزیر صحت کی جانب سے بیانات نشر کی جاتی ہیں کہ آج ٹیچنگ ہسپتال کو کافی مقدار میں ادویات فراہم کی گئی ہے، آخر یہ ادویات کہاں جاتے ہیں۔ پچھلے روز ایک منظر سامنے آیا تھا کہ ایک خاتون کو ڈیلیوری آپریشن کے دوران ڈاکٹروں کی غفلت کی وجہ سے سرجیکل اسفنج پیٹ میں چھوڑ دیا گیا تھا کیایہی ہماری زمہ دار اداروں میں کردار ادا کرنے والوں کی ہے؟؟

اگر تربت میں امن و امان کی بات کی جائے تو آئے روز چوری قتل و غارت گری، منشیات اور بے روزگاری عام ہے۔ گزشتہ روز بہمن میں سرف گاڑی سواروں نے فائرنگ کرکے ایک شخص کو ہلاک کیا۔ تقریباً اس مہینے میں 30 زائد موٹر سائیکلیں چوری ہوئے ہیں، بازار میں غیر مقامی بھکاریوں کی بھرمار ہے ہر طرف بھکاری نظر آتے ہیں جو چوری ، فحاشی پھیلانے اور دیگر مبینہ برائیوں اور جرائم میں براہ راست ملوث ہیں، انتظامیہ سے گزارش ہے کہ نیند سے بیدار ہوجائے،کیچ کے نمائندوں سے گزارش ہے کہ خدارا کیچ کو ان مصیبتوں سے بچائیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں