نئے این ایف سی ایوارڈ پر اتفاق مشکل نظر آتا ہے: ماہرین

کراچی :پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے حال ہی میں وزیر خزانہ کی سربراہی میں دسواں قومی مالیاتی کمیشن تشکیل دیا ہے۔ کمیشن کا کام وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے لیے نئے فارمولے پر اتفاق رائے حاصل کرنا ہے جو ماہرین معاشیات کے مطابق مشکل نظر آتا ہے۔صدر نے وفاقی وزیرِ خزانہ کی غیر موجودگی میں وزیرِ اعظم کے مشیر برائے خزانہ اور محصولات کو کمیشن کے اجلاس کی صدارت کے خصوصی اختیارات بھی دے دیے ہیں۔کمیشن کے دیگر ممبران میں چاروں صوبائی وزرائے خزانہ، چاروں صوبوں سے ایک ایک ممبر اور وفاقی سیکریٹری خزانہ بھی اس دس رکنی کمیشن کے ممبر ہوں گے۔صوبۂ پنجاب کی جانب سے سابق گورنر اسٹیٹ بینک، سابق وفاقی وزیر خزانہ اور سابق چئیرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو طارق باجوہ کو کمیشن کا رکن تعینات کیا گیا ہے۔اسی طرح سندھ کی جانب سے سینئر ماہر معاشیات ڈاکٹر اسد سید، بلوچستان کی جانب سے سابق وفاقی وزیر جاوید جبار جب کہ خیبر پختونخوا کی جانب سے سابق بیورو کریٹ اور پی آئی اے کے سابق سی ای او مشرف رسول اس کے ممبر ہوں گے۔آخری بار 2010 میں وفاق اور صوبوں کے درمیان ساتویں این ایف سی ایوارڈ پر اتفاق ہوا تھا تاہم آٹھواں اور نواں کمیشن اس حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنے میں ناکام رہا تھا۔ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت پہلی بار صوبوں کا وسائل میں حصہ 49 فی صد سے بڑھا کر بتدریج 57 اعشاریہ 5 فی صد کیا گیا تھا جب کہ صوبوں کو ملنے والی رقوم کے لیے روایتی طور پر اپنائے جانے والے محض آبادی کے معیار کو تبدیل کر کے اس میں غربت اور پسماندگی (10 اعشاریہ 3 فی صد)، محصولات جمع کرنے (پانچ فی صد) اور انورس پاپولیشن ڈینسٹی (2 اعشاریہ 7 فی صد) کو بھی شامل کیا گیا تھا۔تاہم آبادی کو کمیشن کی تقسیم میں بہرحال اب بھی واضح اہمیت حاصل ہے جس کا حصہ 82 فی صد بنتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں