بالگترمیں تعلیم کا زوال

تحریر: اخلاق احمد
یونین کونسل بالگتر رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا علاقہ ہے جکسی آبادی تقریباً 5000 سے زیادہ لوگوں پر مشتمل ہے جو کہ بالگتر بنیادی سہولتوں ںسے بالکل محروم ہے کیونکہ بالگتر سیاسی طور پر لاوارث ہے۔ اگر بات کریں سیاست کی تو باشندوں کو ابھی تک بتا نہیں سیاست کیا چیز ہے اس بےخبری کی سبب ضرف تعلیم نہ ہونے کی وجہ ہے۔ شروع شروع میں بالگتر میں ایک باسی بھی پڑھا لکھا نہیں ملا جو بالگتر کو مشکلاتوں سے نجات دلائے اور اسی طرح تعلیم اور حقاقت نہ ہونے کی وجہ سے کچھ سیاستدان تُربَت سے بالگتر میں آکر ووٹ لینے کیلئے جب اُن لوگوں اس علاقے کی حالت دیکھنے کے بعد وہ اپنے حق جمانے لگے۔ دوسری طرف ضلعِ پَنجْگُور میں یوں کچھ ساستدان طے کئے کہ بالگتر کو دو میں حصے میں بانٹےگے کیونکہ زیادہ تر بانسیوں کے پاس قومی شناختی کارڈ نہیں تھے جنتے لوگ بالگتر کیل کور میں رہتے ہیں تو اُن گولوں کی قومی سناختی کاڈز کو صلعِ پنجگور کا نام سے ظاہر کرواتے گئے تاکہ پورے کیل کور بالگتر سے الگ ہو کر پَنجْگُور کی حصہ میں آئے۔ اُن لوگوں نے اپنی مفاد کیلئے جو کرنا تھا کر لیا لیکن انہوں نے نہ تعلیم پر کام کیا اور نہ ہی بنیادی ضروریات کو پُورا کر وایا۔ اس کے بر عکس تعلیم حاصل کرنا ہر انساں کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ضرورت ہے جس کو زندگی میں اپلائی کرنا پورے دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کی برا برا ہے۔
بد قسیمتی سے ابھی تک ایسی تعیلم بالگتر کی نصیب نہ ہوئی جس سے بالگتر کی قستمت تبدیل ہو پاتی۔ میں بالگتر کا بانسی کے ناطے میں بالگتر کی تعلیم سے خوب واقف ہوں کیونکہ جب میں نے وہاں سے اپنی پانچواں جماعت فارغ کی ہم کو صرف اردو اور انگریزی کی حرُف تہجی پڑھایا جاتے تھے۔ جب کے 2009 میں بالگتر نلی میں ایک مڈل سکول کی منظوری دی گئی اور جس کی تمیرات نا مکمل ہوکر چھوڑ دیا گیا۔ پھر 2018 بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی پاؤر میں آئی(BAP) صوبائی وزیرِ خزانہ ظہور احمد بُلیدی نے اُس کی تعمیرات کو مکمل کروانے کی منظوری دی اور انہوں نے چار کنٹریکٹ ٹیچرز بھی بھرتی کروایا۔ لیکن یہ اسکول کو ابھی بھی ٹیچرز کی بہت ضرورت ہے اور اس اسکول کو اپ گریڈ کروایا ابھی تک نہ ہائی سکول بلڈنگ بن وایا نہ ہی ٹیچرز ہیں۔ پورے بالگتر میں صرف ایک ہی مڈل اسکول کافی نہیں ہے بالگتر کو اور پرائمری اور ہائی اسکولز ویل ایجوکیٹ ٹیچرز کے ساتھ ضرورت ہے۔
جب طلباء و طالبات اپنی مڈل تعلم مکمل کرنے کے بعد اکثر وہ اپنی تعلیم وہی چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ اُن کے والدین کے پاس اتنا گُنجائش نہیں کہ وہ اپنے بچے کو دوسری شہر میں مزید پڑھانے میں بیج سکے۔ تنگ دستی کی وجہ کچھ اسٹوڈنس اپنے والدین کے ہاتھ بٹاتے ہیں کچھ یو ہی ڈپریشن کا شکار بنتے ہیں اور خودکشیاں ان کے نصیب بنتی ہے کچھ منشیات کی زد میں آتے ہیں اپنی خاندان پہ بوجھ بن کر اپنی زندگیاں گزارتے ہیں۔ ہم اہلِ بالگتر اور کیل کور صوبائی اور وفاقی حکومت سے التجا کرتے ہیں کہ ہمارے بچوں کی زندگیوں کو برباد ہونے سے بچا لیں اور بالگتر کی تعلیمِ حالت کو بہتر بنائیں تاکہ یہ نسل اور آنے والی نسل بُرے کاموں سے بچ سکیں۔