لاوارث محسن

تحریر : شہباز بلوچ
جب ظالم اسے نوچتے رہے، جب ظالموں نے اس پر جنسی تشدد کی انتہا کردی، جب وہ کسی کام کی نہ رہی ہوگی تو گولیاں مارکر ان مدہم سانسوں کا خاتمہ کردیا جو زندگی کا پتہ دے رہی تھیں۔ مارنے والے کو کیا پتہ کہ یہ جاتی سانسیں چھے انسانی زندگیاں بچالے گی۔ یہ کہانی ہے اس نامعلوم لاوارث لڑکی کی کہ جس نے چار سال سے جاری ظلم کا خاتمہ اپنی لاش کی صورت میں کیا۔ اس نے دیواروں میں قید ظلم کا شکار چھے افراد کی نشاندہی کردی مگر اسکی لاش کی اب تک کوئی وارثی نہیں کررہا وہ مرکر زندوں کو وارثوں تک پہنچا گئی مگر کوئی زندہ اس کی وارثی کرنے کو تیار نہیں، چھے جانوں کی محسن لاوارث پڑی ہے۔ اسی لاورث کو جب ایک فرضی نام گراں ناز عطا ہوا تو اسی لاوارث نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، ملک میں ہر شخص اس پر ڈھائے جانے والے مظالم پر رنجیدہ ہوا لوگ مشتعل ہوئے قانون ہاتھ میں لینے سے نہیں کترائے، اس کی لاش پر کئی دنوں تک ماتم جاری رہا، کہانی نے کئی رخ لیے، وہ خان محمد جو ملک بھر میں بھٹک رہا تھا چند ایک وی لاگرز کے علاوہ کوئی اس کی فریاد سننے اور آگے بڑھانے کو تیار نہ تھا، اسی خان محمد کی بات کو قومی میڈیا تک پہنچانے والی یہی لاورث لاش تھی مگر آج خان محمد اپنی خوشیوں میں مگن ہے، اپنی محسن اس ظلم کی شکار لڑکی کا کوئی والی وارث نہیں۔ بچوں کی بازیابی کے بعد ہڑتال پر بیٹھے لوگ ان ظالموں سے بھی بڑے کٹھور بن بیٹھے، جس لاش کے اطراف بیٹھ کر چار دن تک ماتم کرتے رہے مطلب نکل جانے کے بعد اسے اپنانے سے بھی گریزاں ہیں، ارے بھئی یہ لاش آپ کی چند لمحات کی طالب ہے، اسے اپنے چند لمحے دیں، اسے اپنائیں، دفنانے کے بعد تو اپنے بھی چھوڑ جاتے ہیں، آپ سے کیسا گلا، مگر یہ کٹھور معاشرہ؟ اس معاشرے کی سنگدلی پر افسوس کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے۔ لاش کی شناخت مسخ کی گئی ہے ہوسکتا ہے لاش کے ورثا کو اسکا پتہ ہو مگر وہ زمانے کے طعنوں اور کئی معاشرتی مجبوریوں کے تحت اسکی وارثی نہ کررہے ہوں، مگر معاشرے کو اس لاش کو اس کی سچائیوں کے ساتھ اپنانا ہوگا۔ اس پر ڈھائے جانے والے مظالم گراں ناز کی کہانی سے زیادہ دل دہلا دینے اور انسانیت کو شرمسار کرنے والے ہوسکتے ہیں۔ گراں ناز کی بازیابی اس تحریک کی پہلی سیڑھی جبکہ اس لڑکی کو انصاف کی فراہم اس تحریک کا حقیقی مقصد ہونا چاہیے وگرنا اس کٹھور اور مطلبی معاشرے پر اس لاورث جان کا قرض ہمیشہ رہے گا اور پتہ نہیں یہ قرض یہ معاشرہ کب تک ادا کرتا رہے۔