مشکے کو اسپتال دو!

تحریر : ایس کے بلوچ
گھروں سے نکل کر مسجدوں تک آواز بلند کرنے کا وقت نہیں کہ مولویوں کو احساس ہو یہاں انصاف ہی نہیں۔
یہ مولوی حضرات، استاتذہ، ڈاکٹرز اور باقی بڑے بڑے مونچھ والے چمچے ہمیشہ اپنے ہی پیٹوں کو بھرنا چاہتے ہیں، تعلیم و تدریس سے لیس انسان خود انفرادی زہر سے نکل نہیں سکے، تعصب و تنگ نظری کو فروغ دے کر ایک ہی گھر کے لوگوں کو ایک دوسرے کے دشمن بنانے کے چکر میں پڑ کر آج نام نہاد سردار و میروں کے پیچھے ترم خان بننے ہوئے ہیں، شعور و آگہی کو دفنا کر زنجیروں سے جکڑ کر رکھا، ہماری نوجوان نسل کو۔
اگر آپ حقیقت پسندی کو فروغ دے کر لوگوں کی بنیادی حقوق دلوانا چاہتے ہیں تو اٹھو اور بولو ہمیں تعلیم چاہیے، ہمیں انٹر نیٹ چاہیے، ہمیں پانی چاہیے، ہمیں اسکول و کالج چاہیے، ہمیں اسپتال چاہیے۔
لیکن آپ لوگ خاموش لومڑی کی طرح اپنی دم کو ہلا رہے ہیں، خرگوش کی نیند سونے کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں اور وہی کرنے والے ہو جو ناپختہ ذہنوں کے مالکان کرتے رہے ہیں۔ آپ بھی دیکھ رہے ہو کہ ہماری خواتین گھروں میں استعمال کیلئے پانی، چشموں اور ندیوں سے بالٹیوں میں لے آتی ہیں! واہ بھئی واہ۔
مشکے، کہنے کو جنت ہے لیکن اب محسوس کرنے کو اندھیرا ہے جہاں غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے لوگ چھوٹی چھوٹی سی بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، انہیں ایک دو روپے والی پیناڈول بھی مہیا نہیں کرسکتے، یہ ڈاکٹرز۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ نوجوان نسل کوئٹہ و کراچی کی طرف اس لیے جاتے ہیں تاکہ ڈاکٹرز بن جائیں، میڈیکل اسٹورز بناکر لوگوں کو لوٹیں، ان کو احسان مند بناکر اپنی انا کو خوبصورت کریں!
عجیب بات ہے کہ ایک خوبصورت علاقے کے تعلیم یافتہ نوجوان نسل ابھی تک انفرادیت کے زہر سے نکل نہیں سکے، اب بھی اجتماعی سوچ کچھ نوجوانوں کیلئے اجنبی ہے۔
مجھے اکثر مراد ساحر کی شاعری یاد آتی ہے:
نا علم ءشوک نا قوم دوستی
نا سد دنیا اے
چوشیں بے جوھر و جان دز ءسستیں نوجوان ءسوچ۔
پورے مشکے کے شہر گجر میں ایک کھنڈر اسپتال ہے جس کے اندر جاکر انسان کو خوف و خطرہ اس لیے محسوس ہوتا ہے کہ کئی یہ گر نہ جائیں۔ ڈاکٹر دو یا تین ہیں لیکن ایک یا دو گھنٹے تک بیٹھ نہیں سکتے کیونکہ انہیں اپنی پرائیویٹ کلینکس چلانے کی زیادہ فکر ہے۔ وہاں چھوٹے موٹے ایم ٹی اور ڈسپنسری کے ڈگریاں حاصل کرنے والے لوگ اکثر غریب لوگوں کو لوٹتے ہیں۔ بالفرض خاموش تعلیم یافتہ نوجوانوں کی وجہ سے یہ سب کچھ ہورہا ہے جہاں مشکے گورکائی سے لیکر منگلی تک صرف دو اسپتالیں نظر آتے ہیں۔ ایک مشکے گجر میں ہے اور ایک منگلی میں جو نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ اس کے دو کمرے جس کے اندر ایک درد کا انجکشن نہیں مل سکتا پھر مریض کو روم تو نہیں چاہیے۔
اب نوجوانوں کو چاہیے کہ زیر بحث مسائل کو سمجھنا، دلائل کو پرکھنا اور گفتگو میں شامل لوگوں کی صلاحیتوں کو جاننا ضروری ہے تاکہ وہاں لوگوں کو بنیادی سہولت مہیا کرسکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں