میر یوسف عزیز مگسی نے بلوچ قومی ریاست کی تشکیل کے لیے منظم جدوجہد کی، غلام نبی مری

کو ئٹہ:بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے ممبر غلام نبی مری نے عظیم بلوچ قوم وطن دوست رہنماء شہید میر یوسف عزیز مگسی کے 31مئی کو 85ویں برسی کی مناسبت سے اپنے جاری کردہ بیان میں میر یوسف عزیز مگسی کے سیاسی،سماجی،فلاحی اور ادبی خدمات،جدوجہد اور قربانیوں کو زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہیں 20ویں صدی کے عظیم،مفکر،دانشور،روشن خیال،ترقی پسند،علم دوست،حقیقی قومی ہیرو اور نیشنلزم کے جدید فکر اور فلسفے اور سیاسی جدوجہد کرنے والے آئیڈیل رہنماء قراردیا،انہوں نے اپنے سیاسی جدوجہد کاآغاز 1920ء کو میر عبدالعزیز کرد کے ساتھ مل کر انجمن نوجوانان بلوچستان کے نام سے تشکیل دی گئی پلیٹ فارم سے دیکر سیاسی وجمہوری جدوجہد کی بنیاد ڈالی اور اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا، 1935ء کوئٹہ کے زلزلے کے نتیجے میں 27سال کی کم عمری میں شہادت بلوچستان کیلئے ناقابل تلافی نقصان اور کسی سانحہ سے کم نہیں ہے ان کی وفات سے پیدا ہونے والی خلاء کبھی بھی پُر نہیں ہوگی جنہوں نے منتشر بلوچوں کو ایک قومی ریاست کی تشکیل کیلئے متحد اور منظم کرنے میں اپنے خدائیداد صلاحیتوں اور توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جدوجہد کی جس کے نتیجے میں انہوں نے دو بلوچ عالمی کانفرنس منعقد کرائے،دسمبر1932ء کو جیکب آباد میں بلوچ کانفرنس منعقد کی جس کی صدارت شہید خان عبدالصمد خان اچکزئی نے کی اس طرح دسمبر1933ء کو حیدرآباد میں دوسری بار بلوچ کانفرنس کی صدارت والی حیدرآبادمیر علی نواز تالپور نے کی جس میں برصغیر میں منتشر بلوچستانیوں کو ایک متحدہ ریاست کے سائے تلے انگریز وں کی غلامی اور بالادستی سے نجات حاصل کرنا تھا،کم عمری کی زندگی میں انہوں نے ایک سال جیل اور قید وبند کی صوبتیں برداشت کی اس طرح ایک سال کے لگ بھگ سیاسی جلاوطنی اختیار کی اور بلوچستان میں ہونے والے ناانصافیوں،ظلم و استحصال کے خلاف البلوچ،الوطن،ینگ بلوچستان کے نام سے جرائد میگزین بھی نکالی،میر یوسف عزیز مگسی مذہب،نسلوں،قوموں،قبیلوں اور طبقاتی سماج میں پائی جانے والی امتیاز کو انسان دشمن رویہ تصور کرتا تھا اور انسانوں میں تفریق کے اس وحیشانہ شکل سے نفرت کرتے،وہ ایک روشن خیال،وطن دوست اور قوم دوست انسان تھے بلکہ عظمت انسانیت کے داعی تھے،محبت،امن کے پیغمبر تھے،وہ اشرافیہ کی قومی پرستی سے پرے قوموں کی یکجہتی اور برابری کے قائل تھے قومی جدوجہد کو طبقاتی جدوجہد سے منسلک سمجھتے ہوئے قومی اشرافیہ کے خواہشات پر حامل موحاقوم پرستی کو انقلاب دشمن رحجان تصور کرتے تھے،وہ قومی تعصب،نفرت اور قومی استحصال سے نفرت کرتے تھے،وہ قومی رشتوں کے تعین کو طبقاتی فلاسفی کے فارمولے سے ممکن سمجھتے ہوئے قومی شاؤنزم و قومی بالادستی کی بجائے اپنے جدوجہد کو محنت کش طبقات کی جدوجہد سے مربوت رکھنے کے خواہاں تھے اور محنت کش طبقات کے جدوجہد کی اہداف کو اپنا اولین نصب العین قراردیتے،وہ قومی وطبقاتی استحصال کو ریاستی مشینری پر ایک گروہ کی اجارہ داری سمجھتے تھے وہ سامراجی بالادستی کو ترقی کے راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے وہ برٹش بلوچستان کو اجارے میں دی گئی بلوچ سرزمین کی برٹش مفادات کے تحت مختلف ممالک میں بندر بانٹ سے نالاں تھے وہ تاریخی جغرافیائی،معاشی،لسانی بنیادوں پر قوموں کی تشکیل کے خواہاں تھے،منفی اقدار کی جگہ مثبت اقدار کو آمرانہ رویوں کی جگہ،جمہوری رویوں کو ڈرائنگ روم کی سیاست کی جگہ عوامی سیاست کو تقویت دینا چاہتے تھے،برصغیر کے ایک بڑے اراضیات کے مالک ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے جیب سے کم وبیش 360سکولز تعمیر کروائے اور اپنے عوام کو فرسودہ نیم قبائلی ونیم جاگیردارانہ سماج سے نکال کر ایک جدیدترقی یافتہ،باشعور و ترقی یافتہ قوموں میں شامل کرنے کی عملی خواہش اور جدوجہد کرنے پر یقین رکھتے تھے۔میر یوسف عزیز مگسی بلوچستانی عوام کے سیاسی،سماجی،معاشی،معاشرتی حقوق کے حصول،یہاں کے وسائل پر اپنے لوگوں کی واک واختیار،حق حاکمیت چاہتے اور انہوں نے اپنے آدھی جائیداد انسانی فلاح وبہبود کیلئے وقف کرنے کی وصیت بھی کی تھی،سیاست کو عبادت کا درجہ دیتے ہوئے اپنے مظلوم،لاچار بے بس اور بے سہارا لوگوں کی خدمت پر عملی طورپر جدوجہد پر یقین رکھتے تھے لیکن وقت اور حالات نے ساتھ نہ دیکر ایک عظیم رہنماء کو 27سال کی عمر میں ہم سے جدا کیا جس کی سوچ اور فکر میں اپنے عوام کیلئے ایک روشن مستقبل،ترقی یافتہ معاشرے کا قیام،ہرقسم کی استحصال،سماجی برائیوں کے خاتمہ،برابری کی بنیاد پر انسانی حقوق کی تقسیم کے خواہاں تھے تاکہ کسی انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان کی استحصال کا تصور نہ ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں