ہماری ماﺅں نے ہمیں پیٹھ دکھا کر بھاگنا نہیں سکھایا، حقوق کیلئے بلوچوں کو متحد ہونا ہوگا، اسد بلوچ

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے صوبائی وزیر زراعت میر اسد اللہ بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان کی سرزمین قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کی طرح اس بلوچ دھرتی ماں نے ایسے سپوت پیدا کئے ہیں جنہوں نے ملک اور بیرون ملک اپنی صلاحیتوں کے ذریعے اپنے ناموں کا لوہا منوایا ہے ایسے لوگوں کے سروں سے استحصال کی تلوار کو ہٹانے کی ضرورت ہے اور ہم وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کو نہیں مانتے جس کی وجہ سے ہمارے لوگ نان شبینہ اور روزگار کے محتاج ہو ں ہمیں ہمارا حق اور وسائل پر دسترس چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے ہفتے کو میرحبیب الرحمن شاہوانی، میر عدنان لہڑی، ملک فرید شاہوانی، بی ایس او پجار کے سابق مرکزی سیکرٹری جنرل غلام حسین بلوچ، حاجی محمد عامر کردکے سینکڑوں رشتہ داروں، عزیزوںاور سبی کے نومنتخب بلدیاتی نمائندے عبدالرشید خجک، احسان اللہ کے اپنے پانچ سو رشتہ داروں کے ہمراہ پارٹی میں شمولیت کے موقع پر کوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ میر عدنان لہڑی ملک فرید شاہوانی، غلام حسین بلوچ، احسان اللہ، عبدالرشید خجک و دیگر نے بھی خطاب کیا جبکہ اس موقع پر بی این پی عوامی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات ڈاکٹر ناشناس لہڑی سمیت پارٹی کے دیگر عہدیدار و کارکن کثیر تعداد میں موجود تھے۔ میر اسد اللہ بلوچ نے نئے شامل ہونے والے ساتھیوں کو پارٹی میں شمولیت پر خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ ہم نئے سرے سے بلوچستان کی یوتھ کو آرگنائز کررہے ہیں تاکہ انہیں عصر حاصر کے تقاضوں سے اہم آہنگ کیا جائیگا، بلوچ سرزمین نے ایسے سپوت پیدا کیے ہیں جنہوں نے ملک اور بیرون ملک اپنے ناموں کا لوہا منوایا ہے۔ انہوںنے کہاکہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ بلوچستان کے لوگوں میں ٹیلنٹ نہیں، یہاں کے لوگ قابل ہیں مگر ان کے سروں سے استحصال کی تلوار کو ہٹانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کو نہیں مانتے، جب قدرت نے ہمیں دولت دی ہے، سات سو کلو میٹر کا ساحل سمندر دیا ہے، معدنیات موجود ہیں، لائیو اسٹاک، زراعت آب وہوا پھر بھی اگر اس سرزمین کے بچے ننگے پاﺅں پھرتے ہیں تو دکھ ضرور ہوتا ہے، ہر باپ اور ماں کی یہ امید ہے کہ اس کا بیٹا عظیم سے عظیم تر انسان بنے مگر اس ناروا سماج کے استحصال اور نوآبادیاتی طرز حکمرانی نے آج تک مجھے منزل تک جانے نہیں دیا لیکن یہ منزل ہم لیکر رہیں گے۔ انہوںنے کہا کہ اپنے اتحاد، یکجہتی علم ہنر کیساتھ ایک وسیع بلوچی تاریخ اور بہادری کیساتھ یہ منزل حاصل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم پارلیمانی سیاست کررہے ہیں لیکن پارلیمنٹ میں اپنی آواز کو اس سرزمین کے غریب لاچار آواز کیلئے استعمال کیا جائے کچھ مراعات کی خاطر نہیں بولوں اور چیخوں کے دنیا سنے کہیں ایسے سوالات اٹھتے ہیں کہ حیرانگی ہوتی ہے لوڈشیڈنگ کا فلسفہ دنیا میں کہیں نہیں ہے گیس کی لوڈشیڈنگ کا کوئی فلسفہ نہیں ہے معاشی مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں ملک قرضوں میں ڈوب گیا ہے آئی ایم ایف انکاری ہے تو ایسے حالات میں معاشی بدحالی اور غیر یقینی کیفیت میںبلوچستان کے عوام کا کوئی قصور نہیں ٹریلین ڈالرقرضے لئے گئے مگر بلوچستان میں اس کا ایک فیصد بھی خرچ نہیں ہوا ہے حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ابھی ریکوڈک نظر آرہا ہے گوادر کا سمندر ، زمین کے سینے دفن دولت نظر آرہے ہیں ان کو نکال کر ملک کے قرضے ادا کئے جائیں گے یہ کہاں کا انصاف ہے اس سرزمین کے حقیقی وارث بلوچستان کے لوگ ہیں ہم ترقی کیخلاف نہیں لیکن ملک کے آئین میں واضح لکھا ہے کہ جس علاقے سے وسائل نکلتے ہیں ان کا پچاس فیصد اس صوبے اور علاقے پر خرچ ہوگا انکار اور نہ دینے کا انداز ظلم و جبر کا طریقہ کار سے نفرت کرتاہوں،انہوںنے کہاکہ تاریکی جبر، نابرابری کا ساتھی نہیں اپنا حقوق اور منزل کا علم ہے ، وقت کا تقاضاہے کہ اسلام آباد بلوچستان کو اس کے معاشی، معاشرتی ، سیاسی اور آئینی حقوق دے ۔ انہوںنے کہاکہ بحیثیت بلوچ ہماری ماں نے ہمیں پیٹ پیچھے بھاگنا نہیں سکھایا ہم بلوچ ہیں اپنا حق جمہوری ، سیاسی اور قومی جمہوری ترقی پسند سیاسی جدوجہد سے لینا چاہتے ہیں، ہم فرسودہ قبائلی نظام جو ہزاروں سال سے دنیا میں چلتا آرہا ہے اس سے ہٹ کر ایک ترقی پسند سوچ کے حوالے سے بلوچ قوم کو یکجا کرنا چاہتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ جتنے بھی سیاسی جماعتیں ہیں ہم اتحاد ویکجہتی کیخلاف نہیں لیکن اتحاد ایک فرد کی خاطر نہیں ایک تحصیل یا ضلع کی خاطر نہیں ہونا چائیے انہوںنے کہاکہ میری سوچ اس سرزمین کے خاطر ہے یہاں کے لاچار مظلوم عوام کی خاطر ہے ان کو کیس کیلئے چھوڑیں 75 سال کے طویل عرصہ میں بڑی بڑی تقاریر کئے مگر ہم بڑی بڑی تقاریر پر نہیں عمل پر یقین رکھتا ہوں، انہوںنے کہاکہ پنجگور میں گیارہ گرلز کالج ، یونیورسٹی، گیارہ ایچ آر سی ہسپتال تعمیر کئے گئے ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ پورے بلوچستان کے جتنے بھی وزیراعلی ارکان اسمبلی گزرئے ہیں سب کو چیلنج کرتاہوں کہ وہ میرے اور اپنے علاقے کا موازنہ کریں۔ ہم نے ہمیشہ اسمبلی کے فلور پر بلوچستان کے سائل وساحل ، تعلیم ، صحت کے مسائل پر آواز اٹھائی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے ماڈل ایکٹ پاس کرکے بلوچستان کے یونیورسٹیوں کا ایکٹ بلوچستان اسمبلی سے پاس کرایا، ہم چاہتے ہیں کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں ایک چیز یاد رکھی جائے جو لوگ جتنے بھی بڑی تقاریر کرتے ہیں ان کے قول اور فعل اور عمل کو دیکھا جائے کیوں کہ سوچ عمل سے ظاہر ہوتی ہے ، انہوںنے کہا کہ بلوچستان کے لوگ زئی سے نکل کر بلوچ قوم کی حیثیت سے زندہ رہیں یہی ہماری آئندہ نسل کا مستقبل ہے ۔ انہوںنے کہاکہ ہمارے آپسی اختلافات اور تنازعہ کا فائدہ کسی اور پہنچ رہا ہے بی این پی آنے والے وقت میں بلوچستان کی سب سے بڑی فکری اور سیاسی جماعت ہوگی۔ انہوںنے کہاکہ میں نے کبھی خود کو لیڈر نہیں کہا فرزند بلوچستان کی حیثیت سے اس مٹی کا مقروض ہوں اور وہ کام کرنا چاہتے ہوں کہ جب مجھے اس مٹی میں دفنایا جائے یہ مٹی میں سزا نہ دے ایک فرزند کی حیثیت سے اپنی جدوجہد جاری رکھی ہے مجھے شہرت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں