سی پیک پر پہلا حق گوادر اور پھر بلوچستان کا ہے، جبری گمشدگی اور مارو پھینکو ظلم ہے، لاپتہ بلوچوں کو بازیاب کیا جائے، جماعت اسلامی

گوادر (بیورو رپورٹ) حق دو تحریک دستوری اور جمہوری مزاحمت کا آئینہ دار ہے۔ مولانا ہدایت الرحمن جدوجہد کا استعارا بن چکے ہیں۔ دستوری مطالبہ کرنے اور عوام کی آواز بننے کی پاداش میں مولانا ہدایت الرحمن پابند سلاسل ہیں۔ روزگار، تعلیم، صحت اور جان و مال کے تحفظ کا حق مانگنا دستوری مطالبات ہیں۔ سی پیک کے خلاف نہیں لیکن اس پر پہلا حق گوادر اور پھر بلوچستان کا ہے۔ جبری گمشدگی اور مارو پھینکو ظلم ہے۔ ظلم کا نظام کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ مولانا ہدایت الرحمن کو رہا کرو اور حق دوتحریک کے رہنماو¿ں اور کارکنوں پر قائم مقدمات واپس لئے جائیں۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی کے رہنماءسینیٹر مشتاق احمد خان، حق دوتحریک کے مرکزی چیئرمین حسین واڈیلہ اوع دیگر مقررین نے گوادر میں مولانا ہدایت الرحمن کی رہائی کے لئے نکالی گئی خواتین کی بڑی ریلی سے خطاب کے دوران کیا۔ ریلی کا آغاز میرین ڈرائیو سے ہوا جو پرجوش نعرہ بازی کرتی ہوئی پورٹ روڈ شہید لالا حمید چوک پر ختم ہوئی۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے اپنی تقریر کا آغاز بلوچی زبان میں کچھ جملوں کی ادائیگی کے بعد کیا۔ سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا تھا کہ آج بلوچ ماو¿ں، بہنوں اور بیٹیوں کا جذبہ قابل دید ہے یہ انقلاب کی نوید ہے اور یہاں کی خواتین نے جدوجہد کی تاریخ رقم کی ہے ان کو سلام ہے۔ انہوں نے کہا کہ حق دوتحریک محرومیوں اور عوام کو نظر انداز کرنے پر بیداری کی تحریک ہے مولانا ہدایت الرحمن اور ان کے ساتھیوں نے جس ہمت اور جرات سے اس تحریک کی آبیاری کی وہ گوادر سے اٹھکر ملک بھر میں مقبول ہوگئی ہے حق دوتحریک نے دستوری اور سیاسی جمہوری مزاحمت کا راستہ اپناکر عوام کو متحد کیا اور ان کے جو بھی مطالبات تھے وہ آئینی مطالبات تھے اور حق دوتحریک نے کبھی بھی کوئی غیر دستوری راستہ نہیں اپنایا۔ انہوں نے کہا کہ سال 2021ءمیں 32 دنوں کے دھرنے کے بعد صوبائی حکومت نے تحریری معاہدہ کرکے مطالبات پورے کرنا کا وعدہ کیا لیکن اس سے روگردانی کہ گئی اس کے بعد گزشتہ سال پھر پرامن دھرنا دیا گیا لیکن اس پر ریاستی تخریب کاری کی گئی۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کا آئین اپنے شہریوں کو اظہار رائے کی آزادی، شفاف ٹرائل سمیت روٹی، کپڑا، مکان علاج اور تعلیم کی ضمانت دیتا ہے اور حق دوتحریک نے دستوری جدوجہد کے پیش نظر روزگار، تعلیم، عزت نفس کی بحالی اور لاپتہ نوجوانوں کو منظر عام پر لانا کا مطالبہ کیا لیکن اس پر طاقت کا استعمال کیا گیا۔ مولانا ھدایت الرحمن اور ان کے ساتھیوں پر بے شمار مقدمات قائم کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا ھدایت الرحمن جدوجہد کا استعارا بن چکے ہیں محکوم و مظلوموں کی آواز بن چکے ہیں وہ روشنی کی امید ہیں بھلا روشنی کو کیسے قید کیا جاسکتا ہے۔ بلوچستان کے لاڈلے سردار کو ہتھکڑیاں ڈالنے سے گریز کیا جاتا ہے لیکن مولانا ھدایت الرحمن پابند سلاسل ہیں یہ جبر کا اور دہرے نظام انصاف کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کرنا اور دو معصوم بچوں کی ماں ماحل بلوچ کو جاری گمشدگی کے بعد مقدمہ قائم کرنا ظلم کی انتہاءہے اگر لاپتہ افراد قصور وار ہیں تو ان کو قانون کے سامنے پیش کیا جائے جبری طورپر لاپتہ کرنا اور ان کی تشدد زدہ نعشیں بیابانوں اور ویرانوں میں پھینکنا فرعونیت ہے۔ یہ ملک ایک مخصوص مائنڈ سٹ کے تابع چل رہی ہے، جج اور جرنیل ریٹائرمنٹ کے بعد بھی عوامی ٹیکس پر عیش کرتے ہیں اور غریب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حق دوتحریک اور گوادر کے عوام اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھیں میں ان کا پارلیمانی نمائندہ ہوں ان کی ترجمانی میں کوئی پس و پیش نہیں کرونگا۔ انہوں نے کہا کہ گوادر کے عوام کو روڑ بند کرنے اور احتجاج کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں لیکن ملک کا دستور پر شہری کو پرامن احتجاج اور اظہار رائے کی آزادی کا حق فراہم کرتا ہے کوئی بھی عوام کو اس کے بنیادی حق سے محروم نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا ھدایت الرحمن اور ان کے ساتھیوں نے کوئی غیر دستوری مطالبہ نہیں کیا تھا کہ رات کی تاریکی میں ان پر تشدد کیا گیا، یہاں تک کے ماو¿ں اور بہنوں پر لاٹھی چارج اور شیلنگ کی گئی دراصل تشدد کرنے والے مجرم ہیں لیکن مقدمات مولانا ھدایت الرحمن اور حق دوتحریک کے دیگر رہنماو¿ں اور کارکنوں پر قائم کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مولانا ھدایت الرحمن جمہوری سیاسی جدوجہد کا استعارا بن چکے ہیں ان کو قید میں رکھکر گوادر کے عوام کی آواز کو کسی بھی صورت دبایا نہیں جاسکتا۔ مولانا ھدایت الرحمن نے ٹرالر مافیا سے نجات، روزگار، تعلیم صحت، منشیات کے اڑوں کا خاتمہ اور عزت نفس کے ساتھ جینے کا حق مانگا تھا آج اگر مولانا ھدایت الرحمن جیل میں ہیں تو کیا یہ مسائل حل ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کہاں سے آرہے ہو، کون ہو اور کدھر جارہے ہو جیسے غیر ضروری سوال کرکے لوگوں کو اپنی ہی سرزمین پر بیگانوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، سمندر پر ٹرالر مافیا کی یلغار ہے اور بارڈر پر بھتہ لیکر مقامی لوگوں کے کاروبار پر قدغن لگانا انصاف نہیں، ناانصافی کا مقابلہ جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم واضح طورپر بتانا چاہتے ہیں کہ حق دوتحریک سی پیک کے خلاف نہیں لیکن سی پیک گوادر میں ہے اور سی پیک کے پیسوں سے اورنج لین لاہور میں بن گئی ہے سی پیک پر پہلا حق گوادر اور پھر بلوچستان کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج جس تعداد میں گوادر کی خواتین نکلی ہیں وہ انقلاب کی نوید ہے اور ظلم کے خلاف دستوری سیاسی مزاحمت کا پیش خیمہ ہے جس کے اثرات باقی ملک پر پڑی پڑینگے۔ بلوچ غیرت مند مائیں، بہنیں اور بیٹیاں اپنے برقعوں اور چادروں کو اپنا علم بنائیں اور ظلم کے خلاف نکلیں۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے حق دوتحریک کے مرکزی چیئرمین حسین واڈیلہ نے کہا کہ گوادر سے بھی ہمارا ایک سینیٹر ہے جس کا نام کہدہ بابر ہے لیکن 26 دسمبر کو گوادر کے عوام ماو¿ں اور بہنوں پر جو بدترین کریک ڈاو¿ن کیا گیا اس پر موصوف کے زبان سے گوادر کے عوام کے لئے ایک مذمتی لفظ تک بھی نہیں نکلا لیکن ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ سینیٹر مشتاق احمد خان کو جنہوں نے شروع دن سے گوادر کے عوام پر روا رکھنے جانے والے ظلم کی مذمت کرکے عوام سے یکجہتی کا اظہار کیا، حسین واڈیلہ نے کہا کہ میں پھر سے یہ کہونگا کہ 26 دسمبر کی جبر کے ذمہ دار ایکٹر مینگل یعنی سردار اختر مینگل اور ایم پی اے گوادر ہیں جنہوں نے ڈپٹی کمشنر گوادر کی سرپرستی میں عوام پر تشدد کیا، چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا اور گوادر کی تاریخ میں خواتین پر شیلنگ کی گئی اگر اختر مینگل ذمہ دار نہ ہوتے تو یہاں سے 32 ہزار ووٹ لینے کے باوجود اختر مینگل نے عوام پر تشدد کی مذمت تک نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ مولانا ھدایت الرحمن کو قید کرکے اور ہم پر جھوٹے مقدمات قائم کرکے ہمیں جدوجہد سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مولانا ھدایت الرحمن نے عوام کو بیدار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوادر اور کیچ کے ڈپٹی کمشنر عوام دوست نہیں ان کا تبادلہ کیا جائے۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی خواتین کی مرکزی ڈپٹی سیکریٹری سابقہ ایم پی اے سمینہ سعید نے کہا کہ میں گوادر کی خواتین کی جدوجہد کو سلام پیش کرتی ہوں جو تمام جبر اور ظلم کے باوجود اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ ہیں عہد کریں کہ جب تک مولانا ھدایت الرحمن رہا نہیں ہوتے آپ بھی چھین سے نہیں بھیٹوگی۔ جماعت اسلامی ہمیشہ آپ کے ساتھ کھڑا رہے گی۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے حق دوتحریک بلوچستان کی خواتین ونگ کی صدر زرگل حیدر نے کہا کہ ملک کا عجیب نظام انصاف ہے سردار کیھتران سنگین جرائم میں مطلوب ہے اور اہل بلوچستان ان کو سزا دلوانے کی خواہش مند ہے لیکن چند دن قید میں رکھکر ان کو ضمانت دی گئی ہے عمران خان آئے روز قانون اور عدالتوں کا مزاق اڑاتے ہوئے ریلیف حاصل کررہے ہیں جبکہ عوام کی ترجمانی کرنے پر مولانا ھدایت الرحمن پابند سلاسل ہیں۔ مولانا ھدایت الرحمن کو قید کرکے ہمیں خاموش نہیں کرایا جاسکتا۔ مقررین۔ نے مطالبہ کیا کی مولانا ھدایت الرحمن کو فوری رہا کیا جائے اور ان سمیت حق دوتحریک کے رہنماو¿ں اور کارکنوں پر مقدمات واپس لینے جائیں جب تک مولانا ھدایت الرحمن رہا نہیں ہوتے ہم احتجاج کا رشتہ نہیں چھوڑینگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں