محمد جان سالک مرحوم عہد ساز شخصیت، حیات و خدمات پر ایک نظر…

تحریر: پروفیسر مولانا عبدالخالق
کوہ سلیمان کے دامن میں واقع تاریخی وادی ژوب کی مردم آفریں سرزمین سے جو صاحبان فکر ونظر اور ناموران قوم پیدا ہوئے ہیں محمد جان سالک کا نام ان میں سے ایک عہد ساز شخصیت اور قومی سیاسی رہنما کے طور پر خصوصیت سے لائق تذکرہ ہے۔ 4مئی 2018ءآپ کی یوم وفات ہے، یادرفتگان کے عنوان سے جستہ جستہ چند یادیں اور معروضات قارئین کی خدمت میں عرض کرتے ہیں۔
پشتون قومی تحریک کا یہ عظیم سیاسی مبارز قائد اور روزنامہ کوھستان کے بانی دانشور اور کالم نگار محمد جان سالک مرحوم 1942ءمیں الحاج عبدالرحمن کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ ضلع ژوب کے شمال مغربی جانب واقع دور افتادہ گاﺅں اصغر تنگی کے باشندے اور قوم مندوخیل کی ذیلی شاخ قبیلہ ایرب زئی سے تعلق رکھتے تھے۔ ابتدا سے انٹر میڈیٹ تک تعلیم ژوب کی مقامی درس گاہوں سے حاصل کی، ذہانت وقابلیت سے خوب آراستہ تھے، چنانچہ اللہ کے کرم سے 1960ءکی دہائی میں محکمہ خوراک میں تحصیلدار تعینات ہوئے، شخصیت میں قوم کی خدمت کا پر جوش عنصر فطرتاً موجود تھا اس لئے سروس میں آپ نے خدمت خلق اور عوام کی اعانت کی شاندار مثالیں قائم کیں۔ معروف ادیب ودانشور صدر پشتو اکیڈمی بلوچستان جناب سید خیر محمد عارف بیان کرتے ہیں کہ:۔ صدر ایوب خان کے دور حکومت میں جب چینی اور آٹا پرمٹ سے ملتا تھا، عام دستیاب نہ تھا، تب محمد جان سالک کی لورالائی پوسٹنگ ہوئی تو آٹا اور چینی شہر میں عام دستیاب ہونے لگی، لوگوں میں خوشی کی زبردست لہر اٹھی اور بازاروں میں راہ چلتے عوام کی زبان پر ژوب کے نوجوان تحصیلدار کے لئے تعریفیں اور دعائیں سنائی دیتی تھیں۔ قوم کے لئے درمند دل رکھنے والا یہ نوجوان جلد ہی پشتون قومی سیاسی تحریک سے اس قدر متاثر ہوئے کہ سرکاری منصب وحیثیت کو قوم کی بہبود وترقی کے لئے بے لوث سیاسی جدوجہد پر قربان کردیا اور تحصیلداری کو خیر باد کہہ کر پہلے نیشنل عوامی پارٹی کے پلیٹ فارم سے قومی سیاسی خدمات سر انجام دینے کا فیصلہ کیا جبکہ بعد میں مرحوم عبدالصمد خان اچکزئی کی سیاسی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سے وابستہ ہوئے اور پھر تادم حیات پشتون قومی تحریک کی فکری، تنظیمی اور سیاسی تشکیل وترقی میں قائدانہ کلیدی کردار ادا کیا اور کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ آپ نے قوم کی تعمیر وترقی، سیاسی بیداری، تعلیمی اور سماجی خدمات کے لئے سیاسی جدوجہد کا کٹھن راستہ اختیار کیا اور ہمیشہ اپنی ذات پر قومی مفاد کو ترجیح دی۔ ظاھر ہے آپ اپنی سرکاری پوزیشن، حیثیت وقابلیت سے اپنی ذات اور خاندان کے لئے بے شمار مفادات و مراعات حاصل کر سکتے تھے مگر جس مقصد ونظریے کو درست جانا پھر اسی کے لئے تن من اور جاہ وحشمت سے گزر کر ایک پاک و بے لوث عظیم رہنما کے طور پر ابھر کر عوام وخواص کے لیے مثالی لیڈر بن گئے۔ متعدد بار جیل جانا پڑا، قید و بند کی صعوبتیں اٹھائیں مگر صبر واستقامت کا دامن کبھی نہ چھوٹا۔ 1970ءکی دہائی میں ژوب سے قادیانیوں کیخلاف ختم نبوت کی تحریک زور شور سے اٹھی تو مولانا رحمت اللہ مندوخیل اور دیگر علماءکےساتھ آپ نے ختم نبوت کی تحریک میں شاندار قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے کئی ماہ زندان میں گزارے اور قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے بعد جیل سے رہا ہوئے۔ 1980ءکی دہائی میں جنرل ضیاءکے مارشل لا دور میں بھی قومی جمہوری جدوجہد کی پاداش میں کئی بار سیاسی قیدی کے طور پر پابند سلاسل رہے۔ 1990ءکی دہائی میں اپنی پارٹی کے صوبائی صدر منتخب ہوئے تو صوبے کی سیاست میں فعال اور جاندار کردار کیا، سیاسی قائدین میں سے کئی ایک رہنما جیسے اے این پی کے جناب اجمل خٹک مرحوم، ن لیگ کے جناب ملک سرور خان مرحوم، جمہوری وطن پارٹی کے شہید نواب اکبر خان بگٹی مرحوم وغیرہ آپ کی بے لوث سیاسیی جدوجہد، دلیری اور فعال سیاسی کردار سے خاصے متاثر اور آپ کے مداح تھے۔ پھر آپ نے 1996ءسے صحافت اور اخباری صنعت میں قدم رکھا۔ آپ نے روزنامہ کوھستان کے نام سے شاندار قومی اخبار کا اجراءکیا۔ روزنامہ کوھستان نے قلیل مدت میں ملکی سطح پر شہرت ومقبولیت حاصل کی اور صحافت وابلاغ کے میدان میں وہ خدمات سر انجام دیں جو سیاست وصحافت کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ روزنامہ کو ھستان میں آپ سیاسی اور قومی مسائل پر ہفتہ وار کالم لکھتے تھے۔ یوں آپ نے اپنے اخبار کے ذریعے تعلیمی، سماجی اور سیاسی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا۔ الغرض آپ نے اپنی عمر عزیز کے لگ بھگ 75 سال سیاسی، سماجی، تعلیمی، صحافتی اور قومی خدمات کی نذر کیے اور 4 مئی 2018ءکو اس حال میں انتقال کرگئے کہ نہ رہنے کو ذاتی مکان، نہ کوئی جائیداد و دولت، نہ ہی اولاد کے لیے کوئی عیش وطرب کا سامان چھوڑا بلکہ کردار کی عظمت کے ساتھ آسودہ خاک ہوئے۔ مقصد و نظریے سے وفاداری کے جذبے نے آپ کوتمام تر سیاسی مفادات و مراعات اور دولت و منصب کی ہوس سے بے نیاز کردیا تھا۔ آپ کے اسی عظمت کردار کا اثر تھا کہ آپ کے نماز جنازہ کے موقع پر آپ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے نظریاتی وسیاسی اختلاف کے باوجود راقم السطور کی زبان پر بے ساختہ رحمان بابا کے یہ اشعار جاری ہوئے کہ..
بادشاھانو کی قصرونہ کڑل آباد ما د عشق عمارتونہ کڑل شاد
نوم د کوم یوہ بادشاہ ھسی یادیژی لکہ نوم دی دمجنون او د فرہاد
اللہ تعالی آنجناب کی ملی و سیاسی خدمات کو قبول فرمائے خطاﺅں سے درگزر اور جنت میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے، آمین۔

اپنا تبصرہ بھیجیں