ڈاکٹر حکیم اور ماما قدیر کے الزامات درست نہیں، ثبوت پیش نہیں کیے گئے تو اپنی دفاع کرنے کا حق رکھتے ہیں، میر پسند خان مینگل و میر بالاچ مینگل

قلات،گزشتہ دنوں تربت میں دلخراش واقعہ پیش آیا اسکی ہم بھر پور مذمت کرتے ہیں لیکن گزشتہ دنوں ڈاکٹر حکیم لہڑی نے ماما قدیر ریکی کے ہمراہ ریلی نکال کر نعرہ بازی کرکے اپنے خطاب کے دوران قبائلی رہنما سرخیل مینگل میر قمبر خان مینگل اور انکے فرزندوں کو اس واقعات میں ملوث کرنے اور نام نہاد الزامات لگا کر ناکام سازش کرکے ڈاکٹر حکیم لہڑی نے بلوچیت کی سرٹیفکیٹ لینے کی کوشش کی ہیں تربت واقعہ سے ہمارا کوئی تعلق اور واسطہ نہیں، الزامات لگانے والے میر قمبر خان مینگل اور انکے خاندان کی تاریخ کا مطالعہ کرکے انکی قربانیوں سے شناسائی حاصل کرے پھر الزامات لگائے، بلوچ نوجوانوں کو ورغلانے کا دور گزر چکا اب عوام باشعور ہوچکی ہے بندوق کی بجائے قلم کے زریعے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ قبائلی سربراہان کے سامنے ڈاکٹر حکیم و قدیر ریکی الزامات کے ثبوت پیش کرے بصورت دیگر ہم قبائلی حوالے سمیت سرکاری بنیاد پر اپنی دفاع کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار ممتاز قبائلی رہنما میر قمبر خان مینگل کے فرزند میر پسند خان مینگل، میر بالاچ خان مینگل نے خلق شہید میر لونگ خان مینگل دشت گوران میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تربت واقعہ کی پہلے بھی مذمت کی ہے اور آئندہ بھی کرینگے۔انہوں نے کہا کہ الزام لگانے والے پہلے تاریخ کا مطالعہ کرے کہ میر قمبر خان مینگل انکے خاندان کی کتنی قربانیاں ہے 1973 میر لونگ خان مینگل کے خلاف آپریش کرکے انہیں شہید کیا گیا۔گھروں کو مسمار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی وزیراعلی بلوچ نواب ہی تھا۔ اس وقت کسی نے مذمت نہ کی۔ کچھ لوگ کہتے ہیکہ بلوچ قوم نے انہیں معاف کیا ہم سوال کرتے ہیکہ گھر ہمارے مسمار ہوئے ہمارے بزرگ شہید کئے گئے معاف کسی اور نے کیا۔ ہمارے ساتھ ظلم جاری رہا۔ وہاں میر علی محمد مینگل شہید ہوئے ادھر میر لونگ خان مینگل کی شہادت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک قبائلی تنازعہ اراضیات پر چل رہا ہے اسے کوئی اور رنگ نہ دیا جائے۔اور کوئی ہم پر نام نہاد الزامات نہ لگائی جائے انہوں نے کہا کہ سال 2007 کے دوران بعد ہمارے اوپر آپریشن کیا گیا۔ 2014 میں ڈاکٹر مالک بلوچ وزیراعلی کے دور میں پھر ہمارے گھروں کو مسمار کیا گیا۔اس وقت ڈاکٹر حکیم بلوچ کو خبر نہیں تھی یا اس وقت انہیں بلوچیت کی سرٹیفکیٹ نہیں ملی تھی اس وقت انہیں یہ ظلم و آپریشن کیوں نظر نہیں آئے۔ ایک مذمتی بیان تک جاری نہ کیا انہوں نے کہا کہ اسکے بعد کے وزیراعلی سردار ثنا اللہ زہری کے دور میں کیا کیا ظلم کئے گئے وہ کسی سے ڈکھی چھپی نہیں۔ ان تمام ادوار کے ظلم و ستم کے خلاف نہ ماما قدیر نہ ہی ڈاکٹر حکیم کے بیان جاری ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ جب ماما قدیر کوئٹہ سے لانگ مارچ کیلئے نکلے تو ہم بلوچ عوام نے انکے ساتھ تعاون کیا انہیں سپورٹ دیا۔وہ آج بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میر قمبر خان مینگل کے بھائیوں میر شائستہ خان مینگل اور میر اصغر خان مینگل شہید کئے گئے وہ کونسی قوتیں تھی اور انکے ساتھ کون شامل تھے وہ آج وہی ہمارے مخالفین جس کیمپ میں بیٹھ کر ہمارے اوپر الزام لگاتے ہیں ڈاکٹر حکیم اور قدیر ریکی بھی وہی الزام لگارہے ہیں۔ آخر انکے ساتھ کیا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ دوسروں پر بھی الزامات لگاچکے ہیں مگر انکے ہم جواب دہ نہیں لیکن ہم اپنے اوپر لگائے گئے الزامات مسترد کرتے ہیں اور پوچھتے ہیکہ ہم نے کس کو مارا، کہاں ہمارا ڈیتھ اسکواڈ تھا؟ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر حکیم لہڑی ہمیں مشورہ دے رہے ہیں کہ آپ ہمارے صف میں شامل ہوکر جدوجہد کرے ہمارے تنظیموں میں شامل ہوجائے مگر ہم واضع کرنا چاہتے ہیں بلوچ قوم نے آپ لوگوں کو مسترد کیا ہے عوام میں شعور آچکی ہے وہ قلم کی طاقت سے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں۔ وہ وقت چلا گیا کہ ان بے گناہ لوگوں کے خون سے کھیلتے تھے۔ انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ چوک پر بیٹھ جلسوں میں عوام کو کالعدم تنظیموں اور کشت خون والی راہوں پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں یہ سمجھ سے بالا تر ہیکہ ہم پہاڑوں میں رہ کر بھی یہ دعوت دے نہیں سکتے۔ پتا نہیں کہ آپکی کن قوتوں سے وابستگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انجیرہ واقعہ جو گزشتہ دنوں ہوا اس واقعہ پر ماما قدیر اور ڈاکٹر حکیم کی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا شور پارود میں جو ہورہا ہے وہ ظلم ہمارے لوگ سہہ رہے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر حکیم لہڑی اور ماما قدیر کے لگائے گئے الزامات کو ایک بار پھر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمارے والد محترم میر قمبر خان مینگل اور ہمارے خاندان پر لگائے ہیں وہ قبائلی سربراہان کے زریعے انکے سامنے پیش نہیں کیا تو ہم انکے خلاف قبائلی و قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ اور یہ واضح کرتے ہیں کہ اگر ہمارے خاندان یا قوم کے کسی فرد کو کوئی نقصان پہنچا تو وہ اس کے ذمہ دار ہونگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں