سردار عطا اللہ خان مینگل یونیورسٹی: وقت کی اہم ضرورت
تحریر: فرید مینگل
دنیا بھر میں مختلف اقوام اپنے سیاسی رہبروں، دانشوروں، تاریخ دانوں، شاعروں اور دیگر اہم شخصیات تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کےلیے امر کرنے واسطے ان کے نام مختلف یاد گاریں بناتے اور تعمیر کرتے ہیں۔ ان میں لائبریری، میوزیم، پارکس، تعلیمی ادارے وغیرہ ہوتے ہیں۔
ا±س مخصوص یادگار کا معنی و مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس قومی رہبر و رہنما یا پھر اس قوم کی ثقافت کو تا ابد زندہ رکھنا اور اس تاریخ کو اپنے آنے والی نسلوں کو منتقل کرنا ہوتا ہے، تاکہ وہ قوم اپنی آنے والی نسلوں کو ان کی تاریخ و ثقافت اور سر زمین سے جڑا رکھ سکے۔
تاریخ و ثقافت اور سر زمین سے جڑے رہنے میں ہی تو زندگی ہے، شناخت ہے پہچان ہے ورنہ جس بھی بدبخت قوم نے اپنی تاریخ سے رو گردانی کی، اسے بھلایا اور اس سے دور ہوا تو اس بد نصیب قوم کو پھر قبضہ گیر غزنویوں، غوریوں، عصمتیں تاراج کرنے والے بِن قاسموں کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ اس جھوٹی تاریخ کو ہی اپنی تاریخ بنا کر پیش کرتے ہیں۔
اس بیگانگی اور تاریخی ہزیمت سے بچنے کےلیے دنیا کے مختلف اقوام نے اپنی سرزمین اور سیاسی و تاریخی اکابرین کے نام بڑے بڑے یاد گار تعمیر کیے ہیں۔ ان یادگاروں میں اعلٰیٰ تعلیمی اداروں یعنی یونیورسٹیوں کی تعمیر قابل ذکر ہے، جہاں اس قوم کے ہزاروں لاکھوں فرزند روزانہ کی بنیاد پر اپنی سورماﺅں سے واقف رہتے ہیں اور ان کے مزاحمتی کردار اور وطن دوستی سے ہیرے چنتے رہتے ہیں۔
اس کی ایک شاندار مثال ہندوستان کے تحریک آزادی کے رہنما جواہر لال نہرو کے نام تعمیر کردہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی ہے۔ اس یونیورسٹی نے جواہر لال نہرو کے افکار و سیاسی کردار کو نہ صرف محفوظ رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ اس یونیورسٹی نے ہندوستانی سیاست کو آگے بڑھانے اور پوری کی پوری ہندوستانی سیاست کو متاثر کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ مودی سرکار اور بی جے پی حکومت کے ہندو فاشزم کے سامنے ڈٹ کر مزاحمت کرنے والا اولین ادارہ یہی تعلیمی ادارہ اور اس کے طلبا رہے ہیں۔
اسی طرح گھانا میں کوامے نکرومہ یونیورسٹی، چین میں سِن یات سِن یونیورسٹی، بنگلا دیش میں شیخ مجیب الرحمن یونیورسٹی، امریکہ میں مارٹن لوتھر کِنگ کالج، جرمنی میں مارٹن لوتھر کنگ یونیورسٹی، گرو گوبند سنگھ یونیورسٹی ہندوستان، تھامس مور یونیورسٹی، کم ال سنگ یونیورسٹی نارتھ کوریا سمیت ایسے سیکڑوں ادارے ہیں جنہیں ان اقوام نے اپنے سیاسی اکابرین کے نام رکھا اور ان سیاسی رہنماﺅرں کو تاریخ میں زندہ رکھا۔
اور تو اور پاکستان پیپلز پارٹی جو کہ ہمیشہ بلوچ دشمن جماعت رہی ہے، چاہے وہ ذوالفقار علی بھٹو کی بلوچ وطن پر فوج کشی رہی ہو، یا پھر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی بلوچ دشمن پالیسیاں یا پھر 2008 میں پیپلز پارٹی کی مارو اور پھینکو کی بلوچ دشمن پالیسیاں، مگر اس جماعت نے تعلیمی اداروں کی صورت میں سندھی تاریخ اور ثقافت کو محفوظ رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ شاہ لطیف بھٹائی یونیورسٹی، سچل سرمست یونیورسٹی، شیخ ایاز یونیورسٹی، سمیت درجنوں تعلیمی ادارے و ہاسپٹلز و دیگر قومی یاد گاریں تعمیر کی ہیں۔
سردار عطا اللہ خان مینگل کا شمار بھی ان بلوچ اکابرین میں ہوتا ہے جنہوں نے بلوچ وطن کی سر بلندی کےلیے مزاحمت کا عَلم بلند کیے رکھا، جیلیں کاٹیں، سازشیں جھیلیں، اسد کھوئے، جلا وطن ہوئے مگر وطن کے ساتھ غداری اور وطن فروشی نہ کی۔ آج اگر وہ زندہ و صحت مند ہوتے تو اپنے پارٹی کی کارستانیوں پر نہ جانے کیا کہتے اور کس کس کو عاق کرتے۔
جی یہ وہی عطااللہ خان مینگل تھے جو برملا عسکری اسٹبلشمنٹ اور پنجاب کے الیٹ اشرافیہ کو دوٹوک الفاظ میں غاصب و قبضہ گیر اور استحصالی کہتے تھے۔ مگر آج ان ہی کی پارٹی کا یہ حال کر دیا گیا ہے کہ پارٹی اور اس کا طلبہ وِنگ نہ صرف حکومت میں ہیں بلکہ وہ باقاعدہ طور پر اسٹبلشمنٹ بچاﺅ ریلیوں میں بھی حاضری لگائے بنا نہیں رہتے۔
قیادت نے پارٹی کے ساتھ جو کیا سو کیا، اس کا احتساب بلوچ قوم ہی کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ مگر اس عظیم سیاسی رہنما کے ساتھ بھی ان کا سلوک کچھ اچھا نہیں ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بلوچستان میں اولین تعلیمی ادارے قائم کرنے والے اس عظیم رہبر کے نام اب تک کئی ایک یاد گاریں بنتیں، ان کے نام پر اسکولز، کالجز، یونیورسٹیاں، لائبریریا، ثقافتی مراکز بنا کر ان کو خراج تحسین پیش کیا جاتا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ بی این پی وفاقی و صوبائی حکومت میں ہوتے ہوئے بھی اور باقاعدہ گورنرشپ رکھتے ہوئے بھی ان کے نام کچھ کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔
بلکہ اس کے برعکس ان کے علاقے میں قائم کردہ لسبیلہ یونیورسٹی وڈھ کیمپس کو بھی فقط غیر فعال کیمپس رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ سیاسی پریشر کی وجہ سے وڈھ کیمپس کا اعلان بھی کیا گیا اور زمین بھی الاٹ کی گئی مگر وڈھ میں کسی باقاعدہ یونیورسٹی کا ان کا بالکل ارادہ ہی نہیں۔۔۔۔؟
کیونکہ وڈھ کیمپس کے بعد بننے والے کیمپسز باقاعدہ طور پر یونیورسٹیاں بن چکے ہیں یا پھر کم از کم ان کی تعمیرات اور اکیڈمک اسٹاف وغیرہ باقاعدہ یونیورسٹی لیول پر جا پہنچے ہیں جبکہ دوسری جانب وڈھ کیمپس آج بھی ایک اسکول تک محدود ہے اور اکیڈمک اسٹاف در بدر ہے۔ طلبا کا تو حال ہی مت پوچھیں کہ نا اہل کرپٹ انتظامیہ ان کا ضروری سامان تک نہیں سنبھال سکتی تو ادارہ کیا سنبھال پائے گی۔
موجودہ گورنر بلوچستان جو کہ بی این پی کے سینئر رہنما عبدالولی خان کاکڑ ہیں، نے جب گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد فوری طور پر وڈھ کا دورہ کرنے کا اعلان کیا تو ہم سمجھ رہے تھے کہ وہ نہ صرف وڈھ کیمپس کا دورہ کریں گے بلکہ اس کیمپس کو باقاعدہ یونیورسٹی کا درجہ دے کر اسے سردار عطا اللہ خان مینگل کے نام کرنے کا اعلان کریں گے۔ مگر شومئی قسمت کہ انہیں کیمپس آنے کی توفیق تک نہ ہوئی۔
مجبوراً طلبا اور اسٹاف کو ہی اپنی فریاد لے کر ان کے پاس جانا پڑا، اور مطالبات رکھے، بعد میں مطالبات کو تحریری طور پر پیش کرنے کی فرمائش ہوئی سو وہ بھی پوری کر دی، مگر وہاں سے اب تک کوئی خاطر خواہ رد عمل سامنے نہیں آیا۔ البتہ وڈھ کیمپس کے بعد منظور ہونے والے کیمپسز کو باقاعدہ یونیورسٹی بنانے کے نوٹیفیکشنز جاری ہوئے اور سردار عطا اللہ خان مینگل کے اپنے علاقے کے کیمپس کو مکمل نظر انداز کر دیا گیا۔
لہٰذا اس وقت اگر بی این پی کی قیادت بلوچستان بالخصوص وڈھ کے عوام کےلیے واقعی کچھ کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے اور مخلص ہے تو وڈھ کیمپس کو فوری طور پر فل فلیج یونیورسٹی کا درجہ دے کر اسے سردار عطااللہ خان مینگل کے نام سے منسوب کرے۔ کیونکہ اس وقت وفاقی حکومت بھی ان کا ہے اور صوبائی حکومت بھی ایک طرح سے ان کا، حتٰی کہ گورنرشپ بھی ان کی ہے۔ اگر قیادت بدنیتی کا شکار نہ ہو تو سردار عطااللہ خان یونیورسٹی بننے میں فقط گورنر صاحب کی جانب سے ایک نوٹیکفکیشن کی ہی دیر ہے۔