سب کیلئے صاف پانی اورصحت وصفائی کی سہولیات تک رسائی کویقینی بنانے کیلئے عملی اقدامات ناگزیر!!

تحریر:یحییٰ ریکی
انسانی زندگی کیلئے پانی کی اہمیت سے انکارممکن نہیں اور یہ کرہ ارض پرموجود تمام جانداروں کیلئے انتہائی ضروری ہے، صنعت ہویازراعت، معیشت سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی پانی کے مرہون منت ہیں۔ پانی کے ساتھ صفائی ستھرائی اورسیوریج بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہےں کیونکہ زیر زمین پانی اور سیوریج کا نظام ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔عالمی سطح پرصاف پانی اور سیوریج کے نظام پر بہت زیادہ توجہ دی جارہی ہے اور اقوام متحدہ نے 2010میں اس کو انسانی حق کے طورپرتسلیم کیا۔ مگرپاکستان میں اس حوالے سے صورتحال تشویشناک ہے اور بے شمار کام کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بات مقررین نے ہوپ بلوچستان کے زیراہتمام فانسانیٹ ورک پاکستان کے تعان سے شہری علاقوں میں واش اینڈسینی ٹیشن کے معاملات کاجائزہ لیتے ہوئے سروسزکے معیارکوبہتربنانے کیلئے اسلام آبادمیں منعقدہ ” قومی اسٹیک ہولڈر کانفرنس “کے موقع پرخطاب کرتے ہوئے کہی۔ کانفرنس میں بلوچستان اورمردان سے مختلف محکموں کے آفیسران، مقامی حکومت کے ذمہ داران، بین الاقوامی ڈونراداروں کے نمائندے ، سول سوسائٹی کے نمائندے اورعوام نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

کانفرنس کا مقصد اسٹیک ہولڈرز بشمول سرکاری افسران، ڈونرز، INGOs، NGOs اور کمیونٹی کے نمائندوں کویکجاکرکے WASH کے حوالے سے اہم مسائل پر تبادلہ خیال کرکے حکمت عملی مرتب کرناتھا۔ خاص طور پر شہری علاقوں میں واش سروسزکی بہتری اور 2030ءتک جنوبی ایشیا میں محفوظ سینی ٹیشن اورصاف پانی تک شہریوں کی رسائی کویقینی بنانے کیلئے ممکنہ ذرائع تلاش کرنے ہیں۔

کانفرنس کے ابتداءمیں ہوپ بلوچستان کے ہیڈآف پروگرامزاورنیشنل کوارڈی نیٹرفانساپاکستان گل خان نصیربلوچ نے شرکاءکو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کیساتھ ترقی یافتہ ممالک نے اس سے نمٹنے کیلئے اقدامات اٹھائے مگرپاکستان میں اس حوالے سے مزیدکام کرنے کی ضرورت ہے، انسانی رویوں کی وجہ سے نہ صرف ماحولیات متاثرہورہاہے بلکہ زیرزمین پانی کی سطح دن بدن نیچے گرتی جارہی ہے جوآنے والے دنوں میں تشویشناک صورتحال اختیارکرسکتی ہے۔

پاکستان میں صفائی ستھرائی کے سروسزکوبہتربنانے میں پیشرفت ہوئی ہے مگراب بھی 25 ملین افرادکوصفائی کی مناسب سہولیات تک رسائی حاصل نہیں ہے۔انڈیااورانڈونیشیاءکے بعدپاکستان تیسرابڑاملک ہے جہاں پربڑی تعدادمیں لوگ کھلے میدان اورکھیتوں میں رفع حاجت کرتے ہیں۔ جہاں پراس سے پیداہونے والے جراثیم نہ صرف فضامیں شامل ہوکرماحولیات کوآلودہ کررہے ہیں بلکہ ہوااورپانی کیساتھ معلق ہوکرخوراک میں شامل ہورہے ہیں جس سے بچوں اورخواتین کی صحت و تندرستی پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میںسالانہ 53ہزارکے لگ بھگ بچے مضرصحت اورناقص پانی استعمال کرنے اور صفائی کی ابترصورتحال کی وجہ سے وجہ سے ڈائریا کاشکارہوکرلقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ بارباراسہال کی ہونےوالی اقساط میں مبتلا بچوں کے اسکول جانے یا مکمل طور پر چھوڑنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں ، اس کے علاوہ یہ سٹنٹنگ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس وقت پاکستان میں تقریباً 44 فیصد بچے متاثر ہورہے ہیں۔بچیوں کی اسکول چھوڑنے کی ایک اہم وجہ اسکولوں میں واش روم اورصفائی کی سہولیات کانہ ہونابھی ہے۔

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں واش رومزکے فضلات کوٹھکانے لگانے کاکوئی طریقہ کارموجودنہیں بلکہ لوگ ٹوائلٹ کے پائپ کوبراہ راست سیوریج کی نالیوں کیساتھ منسلک کردیتے ہیں اورمعمولی بارش کی صورت میں نالیاں ابل پڑتے ہیں اورسیوریج کے پانی کیساتھ انسانی فضلہ گلی کوچوں میں بہہ جاتا ہے جس سے ماحولیات مزیدآلودہ ہورہاہے۔ بلوچستان کے دیہی علاقوں میں صورتحال مزیدگھمبیرہے جہاں پرواش روم کاکوئی رواج نہیں ہے اورلوگ کھلی فضامیں رفع حاجت کرنے پرمجبورہیں۔ سیوریج کے نظام کی ابترصورتحال کی ایک وجہ پولیتھین بیگ کابے دریغ استعمال بھی ہے پابندی کے باوجودلوگ سوداسلف خریدنے کیلئے پلاسٹک بیگ استعمال کرتے ہیں اوراپناکام کرنے کے بعدپلاسٹک باہرپھینک دیتے ہیں جوہواکے جھونکے کیساتھ نالیوں میں گرکرانہیں بلاک کردیتاہے جس سے گندہ پانی سڑکوں پربہہ جاتاہے۔

انہوں نے پائیدارترقی کے عالمی اہداف کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پانی سے جڑے طبی مسائل کوحل کرنے کیلئے اقوام متحدہ نے2010میں واش سروسزکوبنیادی انسانی حقوق کادرجہ دیا۔ -SDG 6 کے مطابق سب کے لیے پانی اور صفائی ستھرائی کی دستیابی اور پائیدار انتظام کو یقینی بناناحکومتوں کی ذمہ داری ہے۔مگرہمارے یہاں اس پرخاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔

دنیا بھر میں تقریباً 2.2 بلین لوگ پینے کے صاف پانی تک رسائی سے محروم ہیں، جبکہ 4.2 بلین لوگوں کو مناسب صفائی کی خدمات تک رسائی نہیں ہے۔ اوراس بحران سے غیر متناسب طور پر خواتین اور لڑکیاں متاثر ہورہی ہیں، جوگھروں میں پانی کاانتظام کرتی ہیں اور ناقص صفائی سے متعلق تشدد اور صحت کے خطرات کا شکار ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم وصحت کے شعبے حکومتوں کی ترجیحات میں شامل ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے ماضی میں ہمارے یہاں ان پر توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے ہمارانظام تعلیم اورطب کاشعبہ زبوں حالی کاشکارہیں۔ پاکستان میں 25ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ اوربڑی تعدادمیں پاکستان کا مستقبل تعلیم کے زیور سے محروم ہے ۔وقت کاتقاضاہے کہ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں سینی ٹیشن اورواش سروسزکوچلانے کیلئے مختلف محکمے کام کررہے ہیں اوریہاں پرالگ الگ نظام رائج کئے گئے ہیں ۔فانسانیٹ ورک پاکستان کامقصدتمام محکموں کوایک پلیٹ فارم پریکجاکرکے شہریوں کیلئے سٹی وائڈانکلوزوسینی ٹیشن سسٹم متعارف کرواناہے تاکہ سب کیلئے یکساں اوربرابرنظام رائج ہوسکے۔شرکاءنے بتایا کہ شہری علاقوں میں بڑی تیزی سے آبادی میں اضافہ ،تباہ حال انفراسٹرکچر اور محدود مالی وسائل واش کی مناسب سہولیات فراہم کرنے میں سب سے بڑے چیلنجز ہیں۔

سرکاری حکام نے بتایا کہ حکومت نے گزشتہ دہائی کے دوران واش سیکٹر کے لیے فنڈز میں اضافہ کیا ہے اور مجموعی صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔ اس دوران پاکستان نے بنیادی صفائی ستھرائی کے حوالے سے اچھی پیشرفت کی، قومی کوریج 2000 میں 30 فیصد سے دگنا ہوکر 68 فیصد ہو گئی ہے۔ تاہم سالانہ تقریباً 2 فیصد پوائنٹس کی موجودہ بہتری کی شرح اب بھی 2030 تک عالمی رسائی حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ پچھلے چند دہائیوں کے دوران، پاکستان میں کھلے میدانوںمیں رفع حاجت کرنے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے، جو 2000 میں 39 فیصد تھی اوراب یہ7 فیصد ہوگئی ہے۔ پاکستان کے پاس سیوریج کنکشنز سے گندے پانی کی صفائی اور سیپٹک ٹینکوں اور گڑھے والی لیٹرین سے فضلے کے کیچڑ کو خالی کرنے اور ٹریٹمنٹ سمیت محفوظ طریقے سے منظم صفائی کاکوئی ڈیٹا موجودنہیں ہے۔ ترقی کے باوجود، ناکافی انفراسٹرکچر، فنڈنگ میں کمی اور گورننس کے مسائل جیسے چیلنجز اب بھی برقرار ہیں۔

FANSA Pakistan کے مطابق ایشیا کے شہروں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔آبادی میں اضافے کایہ رجحان برقراررہاتو 2030 تک، 55 فیصد سے زیادہ آبادی شہری علاقوں میں مقیم ہوگی۔ آبادی کی کثافت اور شہری توسیع کے ساتھ، انسانی فضلے کوٹھکانے لگاناپہلے سے مشکل ترہوتا جا رہا ہے۔ تیزی سے شہری آبادی میں اضافہ، اور معیار ی صفائی ستھرائی اور فیکل سلج مینجمنٹ سروسز کا محدود تجربہ ہمارے لئے بڑے چیلنج ہیں۔ انہوں نے سٹی وائیڈ انکلوزیو سینی ٹیشن (CWIS) شہروں کو سمجھنے اور موافقت کرنے کا مشورہ دیا کیونکہ CWIS دنیا کے بڑھتے ہوئے شہری علاقوں میں صفائی کے چیلنجوں کو زیادہ موثر طریقے سے پورا کرنے کے لیے ایک ابھرتا ہوا تصور ہے۔ یہ زیادہ جامع، موثر، اور پائیدار صفائی کی خدمات حاصل کرنے کے لیے موجودہ صفائی کی ٹیکنالوجیز اور طریقوں پر استوار ہے۔CWIS کے ذریعے شہری علاقوں میں ہر شخص کو مناسب اور پائیدار صفائی کی خدمات تک رسائی اور ان سے فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ اور تمام انسانی فضلہ کو پوری صفائی سروس چین کے ساتھ محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگایاجاسکتاہے ۔

کانفرنس میں شریک سول سوسائٹی کے نمائندوں نے حکومتوں پر زور دیا کہ وہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اور پرائیویٹ سیکٹر کو واش سیکٹر میں سرمایہ کاری جیسے متبادل ذرائع اور حکمت عملی اپنائیں۔ انہوں نے حکومتی سطح پر واش سیکٹر میں مناسب پالیسیوں اور طریقہ کار کی کمی کو بھی اجاگرکرتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنے وسائل کا انتظام بہتربنانے کے لیے مقامی اور صوبائی حکومت کی سطح پر خدمات فراہم کرنے والے محکموں کے درمیان دوریوں کوختم کرکے رابطوں کوبحال کرنا ہوگا۔

کمیونٹی کے نمائندوں نے بین الاقوامی ڈونرزپر زور دیا کہ وہ صوبائی حکومتوں کی بجائے مقامی حکومتوں کی مدد کریں کیونکہ خدمات کی فراہمی مقامی حکومتوں کا مینڈیٹ ہے۔ مقامی حکومتوں کے نمائندوں نے INGOs اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور دیگر ڈونرز جیسے ایشیائی ترقیاتی بینک، ورلڈ بینک EU وغیرہ سے درخواست کی کہ وہ مقامی حکومتوں کو ان کی استعداد کار میں اضافے، موجودہ خدمات کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کریں تاکہ سیف منیجمنٹ آف سینی ٹیشن سسٹم (SMSS) تک ہر شہری کی رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔

آئی این جی اوز اور ڈونرز کے نمائندوں نے بتایا کہ وہ پہلے ہی صوبائی اور قومی حکومتوں کے ساتھ کچھ پراجیکٹس پر عمل درآمد کر رہے ہیں، اورانہوں نے قانونی پیچیدگیوں اور حکومتی طریقہ کار کے مطابق مشترکہ منصوبوں کے لیے مقامی حکومتوں کیساتھ ملکر ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں تعاون اورعمل درآمدکی یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے اس بات پرزوردیاکہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی پیچھے نہ رہے۔

اقلیتی کمیونٹی کے نمائندگان، سول سوسائٹی، کوئٹہ اور مردان سے واش نیٹ ورک کے اراکین نے قومی کانفرنس میں شرکت کی اور متعلقہ حکام اور ڈونرز کے سامنے مسائل کواجاگرکیا۔ انہوں نے رائزنگ فار دی رائٹس پروجیکٹ میں شامل علاقوں میں کمیونٹی کی بہتری کیلئے اقدامات کے بارے میں آگاہی دی۔ انہوں نے بتایا کہ کمیونٹی پہلے سے زیادہ باشعور ہے اور وہ مقامی حکومتوں کےساتھ براہ راست ہم آہنگی کرکے مختلف معاملات میں کوئٹہ اورمردان میںمقامی حکومتوں کیساتھ تعاون کررہے ہیں۔اس موقع پرکمیونٹی نمائندگان نے اپنے اپنے علاقوں میںپروجیکٹس کے بارے میں آگاہی دی۔تقریب میں آئی این جی اوز، ورلڈ بینک، وفاقی وزارت انسانی حقوق، اقوام متحدہ کے اداروں اور واش ماہرین کے نمائندوں نے شرکت کی۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی جس میں عوام نے قومی سطح پرحکومتی ذمہ داران اورڈونرزکے سامنے براہ راست اپنے مسائل پیش کئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں