مسئلہ بلوچستان اقوام متحدہ میں

تحریر :انور ساجدی
عام طور پر ریاستوں کو چلانے کے لئے ایسی شخصیات کا انتخاب کیا جاتا ہے جو اس کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہوں اس حوالے سے پاکستان کی تاریخ زیادہ روشن نہیں ہے۔76سالوں میں صرف دو شخصیات ایسی دکھائی دیتی ہیں جو ہر لحاظ سے اس قابل تھیں کہ وہ سربراہ مملکت کی تعریف پر پوری اترتی ہوں۔ان میں پہلا مقام حسین شہید سہروردی کا ہے جن کا تعلق بنگال سے تھا۔انہیں مختصر مدت کے لئے وزیراعظم بنایا گیا اور بے عزت کر کے نکال دیا گیا۔ان کی موت بھی بیروت کے ایک ہوٹل میں پراسرار حالات میں ہوئی دوسری شخصیت ذوالفقار علی بھٹو کی تھی جو اپنی تعلیم ذہانت اور دنیا کو سمجھنے کی صلاحیت کی وجہ سے مقبول ا ور مشہور تھے انہوں نے ٹوٹے ہوئے پاکستان کو سہارا دے کر اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا۔ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی اور معیشت کو دیوالیہ پن سے نکال کر مستحکم کر دیا لیکن انہیں ان خدمات کے عوض میں راولپنڈی جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ضیاءالحق نے1973 کے آئین کی بساط لپیٹ دی اور11سال تک مطلق العنان حکمران رہے۔انہوں نے مجلس شوریٰ اور صوبائی کونسلیں بنا کر پاکستانی جمہوریت کو برسر عام رسوا کردیا حتیٰ کہ اپنے منتخب کردہ وزیراعظم محمد خان جونیجو کو بھی برطرف کر کے گھر بھیج دیا۔
ضیاءالحق کے بعد اس ملک میں کبھی صحیح انتخابات نہیں ہوئے اور نہ ہی میرٹ پر عوامی نمائندوں کا چناؤ ہوا۔1988 میں بے نظیر نے ضیاءالحق کی باقیات کو شکست تو دے دی لیکن انہیں چلنے نہیں دیا گیا تاوقتیکہ1990 کے انتخابات میں زبردست دھاندلی کر کے نوازشریف کو وزیراعظم بنایا گیا۔ضیاءالحق کے وقت سے سیاست اور الیکشن میں جو مداخلت شروع ہوئی تھی اس کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔2018 میں جھرلو پھیر کر عمران خان کو اکثریت دے دی گئی اور پھر2022 میں انہیں تھپیڑے لگا کر بنی گالا بھیج دیا گیا۔امریکی صدر جوبائیڈن نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ عمران خان کو نکالنے کے لئے انہوں نے جنرل باجوہ سے بات کی تھی۔خیر تھپیڑے تو نوازشریف کو بھی پڑے تھے۔12اکتوبر1999میں ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔خیر جو گزشتہ ادوار یا انتخابات تھے وہ گزر گئے لیکن8 فروری2024 کو تو کمال ہوگیا۔ایسی دھاندلی تو دنیا کی تاریخ میں کہیں بھی نہیں ہوئی۔لاہور کے باخبر اور تجربہ کار ایڈیٹروں کے مطابق ن لیگ کو پورے ملک میں صرف17نشستیں ملیں لیکن اس کی کامیابی کا اعلان فارم47 کے ذریعے کیا گیا۔بدترین شکست کی وجہ سے ن لیگ کے سپریم لیڈر نوازشریف وزارت عظمیٰ کی امیدواری سے دستبردار ہوگئے اور مقتدرہ نے انتہائی تابع فرمان اور ہرحکم پر لبیک کہنے والے شہبازشریف کو وزیراعظم بنا دیا۔اب وہ ریاست کو کس طرح چلاءرہے ہیں اس کا اندازہ سبھی کو ہے۔دو صوبوں میں حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن وزیراعظم اسے صوبائی معاملہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں انہیں جمہوریت،آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی جیسے معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔سادہ اتنے ہیں کہ 1973 کے آئین کو بدلنے کے لئے50ترامیم پر مشتمل پیکیج ان کے ہاتھ میں دیا گیااور انہوں نے پڑھے بغیر اس پیکیج کو جلد بازی میں پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا ویسے بھی شہبازشریف کوئی بھی کاغذ پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے تقریباً نوجوان چیئرمین بلاول بھی اس فلسفہ پر عمل پیرا ہیں انہیں معلوم نہیں کہ ان کے ان ترامیم کے ذریعے ان کے نانا کے بنائے گئے آئین کو تبدیل کیا جا رہا ہے اور اس عمل کا مقصد پاکستان کے بطور مطلق العنان ریاست کو آئینی طورپر یا عملی طور پر ایسا بنانا مقصود ہے بھلا ہو جہاندیدہ مولانا صاحب کا کہ انہوں نے عین موقع پرانکار کر کے آئین تبدیل کرنے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔جب سے شہبازشریف وزیراعظم بنے ہیں انہوں نے پہلی بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کیا ان کا فوکس فلسطین اور کشمیر پر رہا لیکن انہوں نے ایک ایسا کام کیا جو آج تک کوئی وزیراعظم نہ کرسکا معلوم نہیں کہ دفتر خارجہ یا مقتدرہ کے کن لوگوں نے انہیں پڑھنے کے لئے تقریر لکھ کر دی تھی۔ظاہر ہے کہ انہوں نے خطاب سے پہلے اسے پڑھنے کی زحمت نہیں کی ہوگی انہوں نے دہشت گردی کے ضمن میں دو تنظیموں کا ذکر کیا ایک تحریک طالبان پاکستان اور دوسری بی ایل اے۔وزیراعظم کو معلوم نہیں تھا کہ وہ بلوچتان کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کر رہے ہیں آج تک یہ مسئلہ جنرل اسمبلی میں پیش نہیں ہوا بظاہر تو یہ عام واقعہ ہے لیکن بادی النظر میں یہ غیرمعمولی واقعہ ہے۔ پاکستان کی مختلف حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بلوچستان کا مسئلہ عالمی فورمز پر پہنچ گیا ہے۔ چند سال قبل امریکی کانگریس میں ایک رکن نے یہ مسئلہ اٹھایا تھا جبکہ جنیوا میں انسانی حقوق کی سالانہ کانفرنس میں ہر بار بلوچستان کا مسئلہ پیش ہوتا رہتا ہے اگر غلطیاں جاری رہیں تو مسئلہ بلوچستان کی بازگشت عالمی سطح پر مزید مضبوط ہوگی۔لوگوں کو یاد ہوگا کہ خان آف قلات میر احمد سلمان داؤد نے جلا وطنی کے بعد کہا تھا کہ وہ ریاست قلات کا کیس عالمی عدالت انصاف میں لے کر جائیں گے۔شہبازشریف کے خطاب کے بعد ان کے لئے آسانی پیدا ہوگئی ہے کہ وہ ایسا کریں اگرچہ عالمی عدالت انصاف دوممالک کے درمیان تنازعات پر غور کرتی ہے جبکہ قلات اس وقت ایک ریاست نہیں ہے تاہم ایسی دستاویزات موجود ہیں کہ یہ کیس لڑا جا سکتا ہے۔مثال کے طور پر1947 کی ا سٹینڈ اسٹل ایگریمنٹ جو کہ برطانیہ قلات اور پاکستان کے درمیان ہوا وہ ایک ثبوت ہے کہ1948 تک قلات ایک خودمختار ریاست تھا۔
حکمرانوں کی جو حکمت ہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے وہ بلوچستان کو وفاق کی وحدت سمجھنے سے ہچکچا رہے ہیں جبکہ معاملہ کو سیاسی حل کے بجائے سیکورٹی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔گزشتہ کئی انتخابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران شفاف اور منصفانہ انتخابات پر یقین نہیں رکھتے۔اس لئے وہ ایسے انتخابات کرواتے ہیں کہ اس کے من پسند امیدوار صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں میں جا سکیں۔رواں سال کے انتخابات میں انہوں نے بی این پی مینگل اور نیشنل پارٹی کو نمائندگی کے حق سے محروم کر دیا حالانکہ اختر مینگل اور ڈاکٹر مالک فیڈریشن کے پلر سمجھتے جاتے تھے انہیں پارلیمانی سیاست سے آؤٹ کر کے ریاست نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ستون گرا دئیے اور تو اور رند قبائل کے سردار اور وفاق پر یقین رکھنے والے سردار یار محمد رند کو بھی معمولی حریف کے مقابلہ میں آؤٹ کر کے ایک اور ستون کو گرا دیا۔ماضی میں وہ نواب اکبر خان بگٹی شہید کے ساتھ بھی یہی کر چکے ہیں اختر مینگل کے بعد سردار یار محمد رند نے بھی اپنا راستہ الگ کرلیا ہے جبکہ آثار بتا رہے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کو بھی اس راستہ پر چلنا پڑے گا۔اگر یہ لوگ ہٹ گئے آئسولیشن میں چلے گئے تو مرکز گریز نوجوانوں کے لئے بڑی آسانیاں پیدا ہوں گی کیونکہ سیاست دانوں کی ایک پوری تجربہ کار نسل کو حکمرانوں نے بے عزت کر کے دھتکار دیا ہے اور ان کی جگہ بڑے قیمتی ہیرے اور جواہر کو تخت نشین کر دیا ہے۔یہ ایک شفٹ یا مراجعت ہے یعنی اختر مینگل ڈاکٹر مالک اور سردار یار محمد رند کی جگہ ان کے من پسند لوگ اور ان کے ساتھی بلوچستان کو چلائیں گے اور مشکلات سے نکالیں گے۔حکمرانوں کا یہ حال ہے کہ جن کو پتہ نہیں تھا ان کو بتا دیا گیا کہ فراری کیمپوں میں سینکڑوں یا ہزاروں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں موجود ہیں جو جنگ کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ایسی صورت میں کہ پورے بلوچستان میں حکومتی رٹ کمزور ہے اگر مزید نوجوان کود پڑے تو حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔باقی ریاست ان کی ہے سیاست ان کی ہے دولت ان کی ہے ان کی مرضی کہ جو چاہیں کریں اور جس طرح چاہیں ریاست کو چلائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں