انصاف کرو، بھلے آسمان ٹوٹ پڑے
تحریر: امتیاز عالم
انصاف کرو، بھلے آسمان ٹوٹ پڑے، مکمل عدالتی انصاف کا تقاضہ رہا ہے۔ اس بار اگر ریزروڑ سیٹس کے کیس میں فل کورٹ (کے اکثریتی 8 ججوں) کا فیصلہ اگر آسمان بن کر ٹوٹا بھی تو اس ادارے پر جسے عدالت نے شفاف انتخابات، انتخابی انصاف اور جمہورئیت کے نگہبان کے طور پر ریاست کا چوتھا ستون قرار دیا ہے اور جو 8 فروری 2024 کے انتخابات منصفانہ اور آزادانہ طور پر کروانے میں ناکام قرار دیا گیا ہے۔ سارے انتخابی عمل کو تہس نہس کرنے اور عدالت عظمیٰ کی جانب سے ملزم قرار دیئے جانے کے باوجود چیف الیکشن کمشنر اور انکے ساتھی ٹس سے مس نہیں ہورہے۔ الیکشن کمشن کے PTI کو انتخابی نشان سے محروم کرتے ہوئے 22 دسمبر 2923 کے فیصلے کے زریعہ تحریک انصاف کو بطور جماعت انتخابی مہم سے باہر کرنے اور اس فیصلے کی 13 جنوری کو سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسی کے تین رکنی بنچ کے تائیدی فیصلے (جس میں پارٹی نشان چھیننے کی حمائت کرتے ہوئے بطور جماعت تحریک انصاف کے حقوق کی صراحت سے اجتناب) نے سارے انتخابی عمل کو دھاندلی زدہ کرنے کی بنیاد ڈالدی۔فیصلے کے مطابق اگر پی ٹی آء کو بغیر نشان کے بھی انتخاب لڑنے دیا جاتا تو نوبت ریزروڑ سیٹس کے بحران تک نہ آپاتی۔ بوجوہ جسٹس منصور علی شاہ اور دیگر 7 ججوں نے اپنے چیف جسٹس کے حزب مراتب کا خیال رکھتے ہوئے 13 جنوری کے جسٹس عیسی کے فیصلے پر بس اتنا اکتفا کیا کہ اس کا الیکشن کمشن نے غلط مطلب نکالا کہ نہ صرف تحریک انصاف سے نشان چھین لیا گیا بلکہ اسے بطور جماعت انتخابی عمل سے خارج کردیا گیا، جسے اکثریت فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 17 کے شہری کے سیاسی جماعت میں شمولیت کے حق اور آرٹیکل 19 کے تحت حق اظہار اور حق رائے دہی کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ چونکہ جسٹس عیسی کے 13 جنوری کے فیصلے کے خلاف ریویو کی درخواست ابھی زیر غور آنی ہے تو جسٹس منصور علی شاہ اور انکے ہم خیال ساتھی ججوں نے اس معاملے پر رائے زنی سے اجتناب کیا ہے۔ اس لحاظ کا چیف جسٹس نے پاس نہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی تین رکنی کمیٹی میں حکومت کے لائے آرڈیننس کی توثیق کرتے ہوئے کمیٹی میں اپنی اکثریت بنانے میں دیر نہ کی جو انکے اپنے گزشتہ مستحسن موقف کے منافی اور بقول جسٹس منصور ‘‘ون میں شو’’کے مترادف ہے۔ اگر قاضی عیسی اپنے فیصلے کے خلاف پی ٹی آء کی ریویو پیٹیشن میں اپنی مرضی کا بنچ بنابھی لیں گے تو تب بھی وہ 8/5 کے فل بنچ فیصلے کے خلاف ‘‘جوڑیشل کوْ’’ نہیں کرپائیں گے۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو دوسرا آسمان ان پر گرکے رہے گا، جبکہ انکے پاس وقت نہیں بچا۔ لیکن جو سب سے بڑا آسمان گرا ہے تو وہ ھائبرڈ حکومت پر جسکا اپنی مصنوعی اکثریت کو الیکشن کمشن کی ناجائز اور لاقانونی مدد سے دو تہاء اکثریت کے سرقہ بالجبر کا خواب خاک میں مل گیا۔ اگر جمہورئیت کے خلاف یہ نسخہ اجل کامیاب ہوجاتا تو بس پھر سپریم کورٹ کی بطور اعلی تر آئینی عدالت کے تدفین ہوجاتی اور مقتدرہ کی پسند کی وفاقی آئینی عدالت چارٹر آف ڈیماکریسی کے شاندار کفن سے برآمد ہوجاتی اور ھائبرڈ نظام کو دستوری شکل دے دی جاتی جس کی باگ ڈور باوردی وائسرائے کے پاس ہوتی۔ اب آمرانہ قوتیں اور چارٹر آف ڈیماکریسی کے نام لیوا گورکن اور میڈیا پہ چھائے بھاڑے کے ٹٹووْں کی فوج ظفر موج جو بھی جتن کرلے، فل کورٹ کے تفصیلی فیصلے پر عملدرآمد کے سوا کوء چارہ کار نہیں۔ یا پھر زیادہ سے زیادہ ریویو پیٹیشن کی اشک شوء۔ لیکن اشکوں پہ گزارا سلامتی کی ریاست کا شیوہ نہیں۔ اشتعال انگیز ایجنٹس ہیں کے انکے رسے کھول دیئے گئے ہیں کہ وہ عدلیہ اور سول سوسائیٹی کو ڈرائیں کہ عوام کی جیسی کیسی نمائندگی، عدالتی انصاف کو بھول جائیں اور طاقت کا سرچشمہ جہاں ہے وہ ٹس سے مس ہونے والا نہیں۔ صحافت اتنی گٹر میں گرسکتی ہے اور قانونی جغادریوں کی گمراہ کْن نکتہ وریاں اتنی سطحی ہوسکتی ہیں کہ خدا کی پناہ! سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ جونہی آیا، سب کے سب بڑے ٹیلی ویڑن چینلز دْم کے بل کھڑے ہوگئے اور وہ بھی اس گمراہ کْن الزام پر کہ عدالت عْظمی آئین سے روگردانی کی مرتکب ہوکر پی ٹی آء کو وہ ریلیف دینے جارہی ہے جو اس نے مانگا ہی نہ تھا۔ سب کے سب اچانک سنی اتحاد کونسل کے گڑے مْردے کو جگا کر اسکے مال مسروقہ (مخصوص نشستیں) پہ حق کے شاطرانہ پرچارک بن گئے کہ جسے پہلے ہی سے ریزروڑ سیٹس پر حقِ شْفع سے محروم کردیا گیا تھا۔اس ٹیلی مباحثہ کا سارے کا سارا زور اس پر تھا کہ کسی بھی سول مقدمہ کی طرح انتخابی سرقہ کے کیس میں بھی وہی موضوع زیر غور لایا جاسکے گا جسکی حد پشاور ھائیکورٹ کے فیصلے میں طے کردی گئی تھی جسکے خلاف فقط پروسیجرل بنیاد پر سپریم کورٹ میں آرٹیکل 245 کے تحت محدود اپیل سنی جانی تھی۔ اس میں حیرانگی کی بات یہ تھی کہ سارے کا سارا مباحثہ پروسیجر ل سوالات پہ مرکوز رہا اور کسی کو بھی یہ توفیق نہ ہوء کہ تفصیلی فیصلے کے آئینی و استخراجی مرکزی فریم ورک کو زیر غور لاتا۔ دلچسب بات یہ ہے کہ خود سپریم کورٹ نے بھی اس پر تاسف کا اظہار کیا ہے کہ سائلین کے وکلا نے بھی آئین کی حقیقی جمہوری روح، بنیادی حقوق، حق انجمن سازی اور حق اظہار بشمول حق رائے دہی کی جانب عدالت کی توجہ نہ دلاء، حالانکہ 11,ججوں بشمول چیف جسٹس کے اس کا احساس تھا لیکن وہ اصلاح احوال کی نوعئیت پہ متفق نہ ہوسکے اور فیصلہ 8/5 کی اکثریت سے کرنا پڑا۔ فیصلے کی ابتدا میں ہی اسکے دیباچہ میں جسٹس منصور نے مقدمے بارے میں ایک واضح لکیر کھینچ دی کہ یہ عام سویلئین مقدمہ نہیں بلکہ ایک ایسے بڑے عوامی مفاد کا کیس ہے جسکا تعلق عوام کے اقتدار اعلی، جمہوریت، حق رائے دہی اور حق انجمن سازی اور پورے نظام نمائندگی کے ساتھ ہے جس میں سیاسی جماعت اور رائے دھند گان بنیادی عامل ہیں۔ اس لیئے عدالت عظمی نے ‘‘مکمل انصاف’’ کے لیئے انتخابی دھاندلی کی جڑ کو پکڑنے کے لیئے آرٹیکل 187 میں دیئے گئے وسیع تر اختیارات کا سہارا لیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے مجوزہ فیصلے کے لیئے آئنینی فریم ورک کی سیر حاصل آئئینی توجیہات بیان کرتے ہوئے اس فریم ورک میں آئین کے آرٹیکل 17 میں شہریوں کے سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے حق اور جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں کے کردار، شہریوں اور انکے انتخابی حلقوں کے رائے دھندگان جو کہ اصل اسٹیک ھولڈرہیں کے حقوق اور آڑیکل 19 کے تحت حق اظہار بشمول آزادانہ حق رائے دہی اور صاف و شفاف انتخابات کے جمہوری حق کو بنیاد بنایا ہے۔ اگلا اہم سوال پروسیجرز اور ضوابط کے بارے میں تھا جس پر میڈیا اور تمام تر وکلا کی توجہ رہی۔ جسٹس شاہ نے اس بارے قانونی مکاتیب فکر اور بڑے قانون دانوں سے صلاح لیتے ہوئے یہ شرح پیش کی ہے کہ پروسیجرز، ضوابط اور ثانوی قوانین کو آئین کی اصل جمہوری روح کے مطابق دیکھتے ہوئے ایسی تشریح کی جائے جو لفظی یا رسمی نہ ہو بلکہ جس کا مدعا بنیادی انسانی و جمہوری حقوق کو کمزور کرنے کی بجائے مضبوط کرے۔ یہی وہ آئین کی فلسفیانہ تشریح ہے جو ضابطے کی مکھی پر ضابطے کی مکھی مارنے (Literal interpretation) کی بجائے آئین کی جمہوری روح (Spirit of constitution )کے احکام اور رائے دھندگان کی سرخروء کی ضمانت دے-فیصلے میں 8 معزز جج معاملے کی اصل جڑ کی طرف گئے ہیں کہ کس طرح الیکشن کمشن نے انتخابات کے شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی تحریک انصاف کو بطور جماعت انتخابی عمل سے نکالنے کی غیر آئینی کوششیں کیں اور اسکے امیدواروں کو آزاد ڈیکیلیئر کیا اور بعد ازاں ریزروڑ سیٹس کے معاملے میں سرقہ بالجبر کرنے کی کوشش کی۔ میرے خیال میں اس کا مقصد حکمراں مخلوط حکومت کو دو تہاء اکثریت دلوانا تھاتاکہ وہ سپریم کورٹ ہی کو بطور اعلی تر آئینی عدالت کے فارغ کردے۔ سپریم کورٹ نے براء کی جڑ کو پکڑا ہے، شاخوں کو نہیں- جبکہ الیکشن کمشن اور حکومت کا سارا زور اپیل کو ضابطوں کی تنگ حد میں برقرار رکھنے پر تھا۔ سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آزادانہ و منصفانہ انتخابات، بنیادی حقوق، جمہورئیت اور عوام کی حکمرانی کے حوالے سے کیا گیا ہے اور یہ جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کے کام آئے گا۔ اس سے خاص طور پر آمرانہ اور غاصبانہ عناصر کو لگام ڈالی جاسکے گی جو وہ ایک عرصہ سے ہر پاپولر سیاسی جماعت کے خلاف کرتے آئے ہیں تاکہ انکا کٹھ پْتلی تماشہ جاری رکھا جاسکے۔ ?سہریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے سوا کوء آئینی راستہ نہیں۔ وہ لوگ جو فیصلے پر عملدرآمد کو روکنے کا واویلہ کررہے ہیں، وہ صرف آئینی انہدام چاہتے ہیں۔اسی طرح کا پیغام بعض صحافیوں کی صورت خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹس بڑی ہی بے شرمی سے دے رہے ہیں۔ عمومی طور (چند کو چھوڑ کر)صحافت بھی ساری آزادی کھوکر اب آمرانہ قوتوں کی داشتہ بن کے رہ گئی ہے، یہ بھولتے ہوئے کہ جمہورئیت اور آئئینی نظام فارغ ہوگیا تو آزادی اظہار بھی ختم ہوگی اور میڈیا بھی۔جو لوگ کہ رہے ہیں کہ راولپنڈی فیصلے کو نہیں مانے گا، کیا وہ مارشل لا لگوانے کی دعوت دے رہے ہیں۔ جبکہ مارشل لا لگانا ملک کے مفاد میں ہے نہ افواج پاکستان کے، جنکے سامنے بڑا چیلنج دھشت گردی کی یلغار کوروکنا ہے۔ ہر طرف سے نفرت اور بے چینی کی خبریں آرہی ہیں، فوج انہیں سنبھالے گی یا سیاست کرے گی؟ اسے آئینی بریک ڈاوْن سے بچنا ہوگا، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنا ہوگا۔ اس سے ھائبرڈ حکومت کو ابھی کوء خطرہ نہیں ہوگا۔ البتہ جو غصہ عوام میں انتخابی چوری کے حوالے سے ہے اور جو بڑی شکائیت تحریک انصاف کو مینڈیٹ چوری کیئے جانے پہ ہے، سپریم کورٹ نے اسے حل کرنے کا راستہ نکالا ہے تاکہ سیاسی ٹکراوْ اور بحران کم ہو اور پارلیمانی سیاست نارملائز ہو سکے۔ سیاسی حل کی جانب جانا ہے تو سپریم کورٹ کی آئینی ثالثی قبول کرو۔ ورنہ پھر بحران ہی بحران جو ملک کے لیئے اچھا شگون ہے اور نہ اداروں کے لیئے اور نہ جمہورئیت کے تسلسل کے لیئے۔