تاریخ کے فیصلے
تحریر: انور ساجدی
لندن کبھی ورلڈ کیپیٹل تھا اور برطانیہ عظمیٰ پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا اب سب کچھ بدل چکا ہے برطانیہ کا نمبر یورپ میں جرمنی اور فرانس کے بعد آتا ہے سابقہ کالونیوں سے تعلق رکھنے و الے غلاموں کی بھرمار ہے جنہیں ازروئے آئین برابر کے حقوق حاصل ہیں۔کسی گورے کو کسی کالے پر فضیلت حاصل نہیں ہے۔ان آبادکاروں کی وجہ سے ایک ملٹی کلچر معاشرہ وجود میں آ چکا ہے معاشی زبوں حالی کے باوجود یہ دنیا کی سب سے قدیم ترین فلاحی مملکت ہے۔ضرورت مندوں کو مفت رہائش علاج کی مفت سہولتیں اور بے روزگاروں کو بے روزگاری الاؤنس ملتا ہے۔برصغیر کے لوگوں نے گھر بیٹھے مفت سہولتیں حاصل کرنے کے کئی گر سیکھ لئے ہیں خاص طور پر پاکستانی باشندے سب سے کم پڑھے لکھے ہیں اور ان کی اکثریت محنت کش طبقہ پر مشتمل ہے اس کے مقابلے میں انڈیا کے ہنرمند خاص طور پر کمپیوٹر اور سافٹ وئیر کے ماہرین کی بڑی تعداد موجود ہے جبکہ انڈیا کے کھرب پتی سیٹھ صاحبان کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔وجے لکشمی متھل،وجے مالیا، ہندرجا برادرز،مکیش امبانی اور اڈانی کی بڑی جائیدادیں اور کاروبار ہے جبکہ برطانیہ عظمیٰ کی آخری نشانی جیگوار کار اور رینج روور جیپ انڈیا کے شہرہ آفاق سرمایہ دار رتن ٹاٹا کی ملکیت ہیں۔برطانیہ میں جائیدادیں رکھنے والے سیاست دان وہ طبقہ ہیں جنہوں نے اپنے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر وہاں سرمایہ اکٹھا کیا ہے۔1990 کی دہائی میں لندن کے نواحی علاقہ میں واقع سرے محل مشہور ہوا تھا اور نوازشریف نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ محل آصف علی زرداری یا بے نظیر بھٹو نے لوٹ مار کی رقم سے خریدا ہے۔برادرم اکرم مجھے یہ محل دکھانے لے گئے تھے یہ ایک مکمل ویران مکان تھا جھاڑیوں سے اٹا ہوا لگتا تھا کہ برسوں سے یہاں کوئی رہائش پذیر نہیں ہے۔محل کی حالت آثار قدیمہ جیسی لگتی تھی اس مکان کی وجہ سے نوازشریف نے لندن میں ایک مقدمہ بھی قائم کروایا تھا لیکن پاکستانی حکومت کیس ہار گئی تھی معلوم نہیں کہ یہ محل بعد میں زرداری کو ملا کہ نہیں البتہ یہ سننے میں آیا تھا کہ محل فروخت کر دیا گیا ہے۔اتفاق سے جب نوازشریف نے زرداری پر الزام لگایا تھا اسی زمانے میں انہوں نے پارک لین میں ایک فلیٹ ہائیڈ پارک ون خریدا تھا اور اسے کافی عرصہ چھپائے رکھا تھا یہ فلیٹ اس وقت منظر عام پر آیا تھا جب لندن کے قاضی خاندان نے نوازشریف پر قرض واپسی کا مقدمہ دائر کیا تھا اور لندن ہائی کورٹ نے نوازشریف کی یہ جائیداد مشروط طور پر اٹیچ کی تھی پاکستان میں اس کیس کو حدیبیہ پیپر مل کا نام دیا گیا تھا اس کیس میں نوازشریف کے خلاف ناقابل تردید ثبوت موجود تھے لیکن عزت مآب جسٹس فائز عیسیٰ کی عدالت نے زائد المعیاد ہونے کی وجہ سے مقدمہ داخل دفتر کر دیا تھا ورنہ چوری اور منی لانڈرنگ کے الزام میں میاں صاحب کو سزا یقینی تھی تاہم2013میں تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد بحریہ ٹاؤن کے بدنام زمانہ مالک ملک ریاض نے اپنے معاملات سیدھے کرنے کے لئے ہائیڈ پارک ون دوگنے داموں خرید لیا۔انہوں نے جو رقم ادا کی وہ نوازشریف کے فرزند حسین نواز کے اکاؤنٹ میں گئی تاہم اسی دوران قوانین کی تبدیلی کی وجہ سے برطانیہ کی حکومت نے ملک ریاض پر کیس چلایا تحقیقاتی ادارہ نے قرار دیا کہ حسین نواز نے جو فلیٹ بیچا ہے وہ ٹھیک طریقے سے بیچا ہے تاہم ملک ریاض بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے مرتکب ہوئے ہیں کیس کی سماعت کے دوران ملک ریاض نے آؤف آف کورٹ بارگیننگ کی جس کی وجہ سے190 ملین پاؤنڈ پاکستان کو ملے لیکن ملک ریاض کے برطانیہ میں داخلہ پر پابندی عائد کر دی گئی جو تاحال قائم ہے۔جناب عمران خان نے یہ رقم سپریم کورٹ میں جمع کر دی تاکہ ملک ریاض پر واجب الادا 460 ارب روپے کی مد میں اسے ایڈجسٹ کیا جا سکے یہی کیس ایک اسکینڈل کی شکل اختیار کر گیا اور آج کل اس کی سماعت اڈیالہ جیل میں جاری ہے۔عمران خان پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے ملک ریاض سے بدلے میں القادر یونیورسٹی کےلئے وسیع زمین اور نقد عطیہ بھی وصول کیا۔اس کیس کی وجہ سے ملک ریاض دو سال پہلے دبئی فرار ہوئے جہاں وہ اپنے جمع شدہ سرمایہ سے کاروبار کر رہے ہیں۔بحریہ ٹاؤن کے پلاٹ گھر اور فلیٹ پراپرٹی ڈیلروں کے ذریعے روزانہ فروخت کئے جا رہے ہیں جبکہ سندھ حکومت اس کی این او سی منسوخ کر چکی ہے یعنی سادہ لوگوںخ پر بحریہ ٹاؤن کی جو جائیدادیں فروخت کی جا رہی ہیں وہ غیر قانونی ہیں۔اگر تحقیق کی جائے تو بحریہ ٹاؤن اپنے این او سی کی منسوخی کے بعد مزید اربوں روپے لوٹ چکا ہے۔ملک ریاض پچھتا رہے ہوں گے کہ اگر وہ لندن میں گڑ بڑ نہ کرتے تو وہاں وہ رئیل اسٹیٹ کے بادشاہ بن سکتے تھے جیسے کہ حسین نواز اور حسن نواز ہیں اور انیل مسرت کا شمار بھی بڑے پراپرٹی ٹائیکون میں ہوتا ہے۔
لندن ان تمام لوگوں کے لئے اہمیت کا حامل ہے جو برطانیہ عظمیٰ کی سابقہ کالونی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ ایک تو زبان کی آسانی ہے سہولتیں بہت ہیں ہر طرح کی آزادی ہے صرف بے ایمانی کی گنجائش نہیں ہے۔تقریباً ڈیڑھ صدی یا اس سے پہلے برطانیہ کے حکمرانوں نے فیصلہ کیا تھا کہ بڑے شہروں کے اندر یکساںڈیزائن کے چھوٹے مکانات تعمیر کئے جائیں برطانیہ کے ہر چھوٹے بڑے شہروں میں ہر گلی کے مکانات کا ڈیزائن الگ ہے یہ ساری حکومت کی تعمیر کردہ ہیں تاہم آبادی مھیں اضافہ کے پیش نظر جب زمین کم پڑ گئی تو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی بنیاد پر نئے ڈویلپرز کو مکان بنانے کی دعوت دی گئی۔عمران خان کے قریبی ساتھی انیل مسرت کا شمار بھی نئے ڈویلپرز میں ہوتا ہے۔نوازشریف کے صاحبزادگان البتہ گھاٹے کا سودا نہیں کرتے اور وہ خسہ حالت اور اجاڑ جائیدادیں خرید کر انہیں جدید شکل دے دیتے ہیں۔اس کاروبار کے ذریعے وہ اربوں ڈالر کما چکے ہیں اور سوشل میڈیا کے غیر تصدیق شدہ اندازوں کے مطابق شریف خاندان کی جائیدادوں کی تعداد350 کے قریب ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ آصف علی زرداری کی برطانیہ میں کوئی معلوم جائیداد نہیں ہے ان کی ملکیت میں وسطی لندن میں محترمہ بے نظیر کا فلیٹ آیا تھا جو بہت معمولی نوعیت کا تھا۔اگر انہوں نے آئل آف مین میں قائم کمپنیوں کے ذریعے کوئی جائیداد خریدی ہے تو وہ الگ بات ہے ہاں پیرس کے نواح میں ان کا ایک محل ہے جسے ان کے والد میر حاکم علی زرداری نے خریدا تھا اور وہاں پر انہوں نے علالت کے دن گزارے تھے۔پچھلی دفعہ جب زرداری صدر تھے تو انہوں نے اس محل کا وزٹ کیا تھا جس کے لئے ہیلی کاپٹر فرانسیسی حکومت نے مہیا کیا تھا۔لندن میں تو کئی چیزیں قابل دید اور مشہور ہیں لیکن مادام تساؤ کا مومی عجائب گھر اپنا ثانی نہیں رکھتا۔میں تین مرتبہ اس کی سیر کر چکا ہوں چند سال قبل شخصیات کے حصے میں گئے تو شروع میں مہاتما گاندھی برابر میں اندرا گاندھی اور ان کے ساتھ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قد آور مجسمے ایستادہ تھے۔نیلسن منڈیلا سمیت دنیا کی بڑی بڑی مشاہیر کے مجسمے بھی دیکھنے کو ملے لکین پاکستان کی ایک ہی شخصیت تھی اور وہ محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں۔پیسہ تو نوازشریف، زرداری،جہانگیر ترین،میاں منشا اور ملک ریاض کے پاس بہت ہے لیکن انہوں نے کوئی ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا کہ ان کے مومی مجسمے مادام تساؤ عجائب گھر کی زینت بن سکیں۔اتفاق سے میں نے دنیا کے عظیم آمروں کے مجسمے نہیں دیکھے۔مثال کے طور پرمسولینی، ہٹلر،چلی کے بنوشے، پاکستان کے ایوب خان،ضیاءالحق خان، یحییٰ خان اور پرویز مشرف کے مجسمے وہاں پر کبھی رکھے نہیں گئے۔اگر نوبل انعام یافتہ ہستیوں کے مجسمے بنائے گئے تو ان میں ملالہ یوسفزئی اور ڈاکٹر عبدالسلام کو اعزاز حاصل ہو سکتا ہے۔گمان یہی ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان میں کسی ایسے مشاہیر کا جنم لینا مشکل ہے جو مادام تساؤ کے عجائب گھر کی زینت بن سکے۔البتہ بے ایمانی اور لوٹ مار کرنے والی ہستیوں کے مجسمے بنائے گئے تو عجائب گھر میں رکھنے کی جگہ نہیں ہوگی۔قدرتی بات ہے کہ تاریخ میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جنہوں نے کوئی غیرمعمولی کارنامہ انجام دیا ہو۔اس لئے ایسے مشاہیر کی تعداد کم ہے۔حال ہی میں سابق گوریلا کمانڈر اور مراعات کے عوض سرنڈر کرنے والے میر ہزار خان رحمکانی مری کی ایک کتاب کی رونمائی ہوئی ہے۔امکانی طورپر ایسے لگتا ہے کہ میر ہزار نے یہ کتاب خود تحریر نہیں کی ہے بلکہ نظریہ ضرورت کے تحت اور لوگوں نے لکھی ہے اور سرکاری سرپرستی میں شائع کی گئی ہے۔میر ہزار کے بارے میں پاکستان کے لوگ اتنا نہیں جانتے لیکن بلوچستان کے لوگ ان سے اچھی طرح واقف ہیں انہوں نے73ءمیں مری علاقے میں پاکستان کے خلاف جنگ کی قیادت کی تھی اور نواب خیر بخش مری کے کہنے پر افغانستان ہجرت بھی کی تھی لیکن افغانستان یا پاکستان آنے کے بعد ان کے قدم لڑکھڑا گئے اور وہ ریاست کی پسندیدہ شخصیت بن گئے تھے۔سرنڈر کے بدلے انہیں ایک ہزار لیویز کی پوسٹیں اور چند کروڑ کے ترقیاتی اسکیمیں ملی تھیں لیکن پیرانہ سالی اور کمزور کردار کی وجہ سے وہ اپنی حیثیت کھو بیٹھے۔وہ بدقسمتی سے بلوچ سے مری اور مری سے بجارانی اور پھر رحمکانی بن گئے تھے۔ان کی ناتمام یادداشتوں کی اشاعت سے انہیں یا بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔1757 کی جنگ پلاسی کے بعد میر جعفر کے بیٹے نے شیر بنگال کے نام سے اپنے والد کے کارناموں پر مشتمل کتاب شائع کی تھی جو اتہاس کے پنوں میں کہیں گم ہوگئی اور پھر کبھی نہیں ملی۔جب انگریزوں نے سرنگا پٹم کی جنگ سے قبل ٹیپو سطان کو پیغام بھیجا کہ آپ انگریزوں کے خلاف غداری ترک کر دیں انہوں نے جواب دیا تھا کہ میں اپنی سرزمین پر موجود ہوں اور اس کی حفاظت کے لئے جان کی بازی لگانے کو تیار ہوں۔سات سمندر پار سے آپ یہاں آ کر حملہ آور ہیں ہمارے نزدیک غدار آپ ہیں۔ہندوستان کے عوام مجھے حق بجانب اور شہید کہیں گے۔قبضہ گیر آپ ہیں آپ کی اس قبضہ گیری کا کوئی جواز نہیں۔تاریخ میں ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ امر ہوگئے ہیں لیکن انگریز کو جارح اور قبضہ گیر لکھا جا رہا ہے اور اپنی یہ حیثیت خودانگریزوں نے بھی تسلیم کر رکھی ہے۔