سرداراختر مینگل کا استعفیٰ! ایک دردبھری داستان

تحریر: ڈاکٹر طاہر حکیم بلوچ
بلوچستان کے بدلتے ہوئے سیاسی منظرنامے میں سردار اختر مینگل کا استعفیٰ اپنی نوعیت کا ایک اہم اور منفرد استعفیٰ ہے جس کا ہر زوائیے سے تنقیدی و تعریفی جائزہ لیا جارہا ہے اور مختلف آراء سامنے آرہی ہیں۔ ہر ایک اسے اپنی نقطہ نگاہ اور اپنے نقطہ نظر سے دیکھ رہا رہے اور اس کا تجزیہ و تحلیل کررہا ہے۔ کوئی اسے ایک بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دے رہا ہے تو کوئی اور اسے عارضی احتجاج اور ردعمل سمجھ رہا ہے کوئی اسے اختر مینگل کی شدید مایوسی اور فرسٹریشن کا اظہار تو کوئی اسے آئندہ کی حکمت عملی کا حصہ قرار دے رہا ہے جبکہ چند ناقدین اسے ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی قیادت میں اُبھرنے والی نئی سول رائٹس موومنٹ سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں لیکن بنیادی اور اہم سوال یہ ہے کہ عام انتخابات کے صرف چھ مہینے بعد سردار اختر مینگل کو اپنا استعفیٰ کیوں دینا پڑا؟یا ایسا کونسا واقعہ رونما ہوا تھا جس نے سردار اخترمینگل کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے پر مجبور کردیا حالانکہ چار مہینے پہلے وڈھ کے ضمنی الیکشن میں سردار اختر مینگل اور ان کی جماعت نے نہ صرف انتہائی جوش و خروش سے اپنے امیدوار کے لیے انتخابی مہم چلائی تھی بلکہ اس ضمنی الیکشن کو اتنا اجاگر کیا تھا کہ ایسے گمان ہورہا تھا کہ اس ضمنی الیکشن سے ہی بلوچوں کا زندگی اور موت کا مسئلہ وابستہ ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے بہرحال اخترمینگل کی یہ سب سے بڑی خصوصیت اور ہنرکاری ہے کہ وہ وکٹم کارڈ کو انتہائی سلیقے اور طریقے سے استعمال کرنے کا فن جانتے ہیں۔ بلوچستان کے کسی بھی سیاسی رہنما کے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں ہے وہ اپنے پتے مہارت سے پھینکنے کا ہُنر اور گُر جانتے ہیں۔ ہمیشہ ان کے ایک ہاتھ میں ترمپ کا پتہ اور دوسرے ہاتھ میں وکٹم کارڈ ہوتا ہے۔ وہ سیاسی کھیل کے بہت بڑے ماہر اور مستند کھلاڑی ہیں۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے حالات کے عین مطابق ایک ایسا ہی کھیل کھیلا ہے اور سب کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔
سردار اخترمینگل کے بقول انہوں نے اپنے استعفیٰ کے فیصلے پر کسی سے مشاورت نہیں کی ہے اور نہ اپنی پارٹی کی مرکزی کابینہ کو اعتماد میں لیا نہ مرکزی کمیٹی کا اجلاس طلب کرکے ان کی رائے پوچھی بلکہ اکیلے ہی بیٹھ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے ان کی اس سولو فلائٹ پر سب سے زیادہ تنقید ہورہی ہے۔ ان کے ایک پرانے سیاسی رفیق و سنگت اور بی ایس او کے سابق چیئرمین وحید بلوچ نے تو اس عمل کو انتہائی غیر جمہوری عمل قرار دیا ہے جبکہ سردار صاحب کے دیگر سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان میں تو جمہوریت اور جمہوری قدروں کا رونا روتے ہیں لیکن ان کا اپنا فیصلہ اور رویہ غیر جمہوری ہے ان کی اپنی پارٹی میں جمہوریت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں، وہ گزشتہ تیس سالوں سے پارٹی کی صدارت پر فائز ہیں پارٹی کے تمام فیصلے وہ خود کرتے ہیں البتہ جب دفاع اور جواب کی باری آتی ہے تو پارٹی کو فرنٹ لائن پہ کھڑا کرتے ہیں۔ سوشل میڈیاکے مختلف پلیٹ فارم پر اس قسم کے کئی تنقیدی آراء اور نقطہ نظر سامنے آرہے ہیں۔
اس سے قطع نظر، سردار اخترمینگل بلوچستان کی قوم پرستانہ سیاست میں ایک نمایاں اور اعلیٰ مقام رکھتے ہیں وہ بلوچستان کے پہلے منتخب عوامی وزیراعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل کے بر خوردار ہیں۔ سردار اختر مینگل کی اپنی ایک سیاسی جد و جہد اور تاریخ ہے جو تقریبا تین سے زیادہ عشروں پر محیط ہے۔ انہوں نے اپنی پنتیس سالہ سیاست کی تاریخ میں کئی سیاسی نشیب و فراز دیکھے ہیں اور ایک باوقار سیاسی زندگی گزاری ہے۔ وہ دور جدید میں بلوچستان کے چند پارلیمانی آوازوں میں سے ایک توانا آواز ہیں۔ لیکن وہ تنقید سے بالاتر نہیں ہیں چونکہ وہ پبلک پراپرٹی ہیں تو ان پر تنقید ہر کسی کا حق بنتا ہے جب وحید بلوچ ایک تنقیدی نقطہ نظر سامنے لے آئے تو اس کے خلاف ایک بھرپور مہم شروع کی گئی۔ لہٰذا کسی سے تنقید اور سوال کا حق چھیننا خود بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔
سردار اخترمینگل نے اپنی پارلیمانی سیاست کا آغاز اسّی کے اواخر میں اس وقت کیا جب بلوچ نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کی نئی ابھرتی ہوئی تحریک نے اپنے ایک سابق طالب علم رہنما ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی قیادت میں پہلے مرحلے میں 24 دسمبر 1987 کو ”بلوچستان نیشنل یوتھ مومنٹ“ اور بعد میں 15جولائی 1989 کو ”بلوچستان نیشنل مومنٹ“ کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرکے نواب اکبرخان بگٹی کے ساتھ مل کر ایک انتخابی الائنس ”بلوچستان نیشنل الائنس“ قائم کی اور 1988 کے عام انتخابات میں نواب اکبرخان بگٹی کی قیادت میں حصہ لیا۔ سردار اخترمینگل نے بھی اس انتخابی الائنس کے پلیٹ فارم پر نال وڈھ کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑا اور پہلی مرتبہ کامیاب ہوکر بلوچستان اسمبلی کے رکن بن گئے اور یہیں سے ان کی پارلیمانی سیاست کا نقطہ آغاز ہوتا ہے چونکہ ان کی جماعت بی این وائی ایم، بی این اے کا حصہ تھی۔ تو ان کی جماعت کے دو ارکان کہدہ اکرم دشتی کو بلوچستان اسمبلی کا اسپیکر منتخب کیاگیا جبکہ ایک اور رکن اسمبلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو محکمہ صحت کا قلمدان سونپا گیا لیکن سردار اخترمینگل نے چند وجوہات کی بنا پر وزارت لینے اور نواب بگٹی کی کابینہ میں شمولیت سے انکار کردیا۔ بعد ازاں نواب بگٹی کے ساتھ ان کے اختلافات کھل کر سامنے آگئے جس کے نتیجے میں پارٹی کو یہ سخت لائن دی گئی کہ وہ نہ صرف نواب بگٹی کی مخلوط حکومت سے علیحدگی اختیار کرے بلکہ ٹریژری بنچوں کی بجائے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ جائے۔ پارٹی نے با دل نخواستہ اپنے دونوں ارکان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور کہدہ اکرم دشتی سے استعفیٰ طلب کرلیے لیکن بی این ایم نے ڈاکٹر عبدالحئی کی قیادت میں نواب بگٹی کی حکومت کو اس وقت تک گرنے اور کمزور ہونے نہیں دیا تب تک صدر غلام اسحاق خان نے اگست 1990ء میں اسمبلیاں تحلیل کرکے ملک میں ایک نئے انتخابات کا اعلان نہیں کیا۔ بعد میں نواب بگٹی نے اپنی ایک الگ جماعت ”جمہوری وطن پارٹی“ کے نام سے قائم کی حالانکہ وہ بلوچستان نیشنل الائنس کو ایک سیاسی پارٹی بنانے کے خواہاں تھے اور اسی پلیٹ فارم پر بی ایس او کے سابق رہنماؤں کے ساتھ مستقبل کی سیاست کرنا چاہتے تھے لیکن اندرونی چپقلش، باہمی مخالفت اور غیر جمہوری روئیوں کی وجہ سے نہ صرف یہ اتحاد وقت سے پہلے بکھر گیا بلکہ سب کے راستے بھی جدا ہوگئے۔ ستّر کے بعد یہ دوسری پارلیمانی پریکٹس تھی جو ناکام ثابت ہوئی۔
بی این ایم کے اندر ایک دلچسپ صورت حال اس وقت پیدا ہوگئی جب پارٹی کی پارلیمانی بورڈ نے پنجگور کی صوبائی اسمبلی کی نشست کے لیے کچکول علی ایڈوکیٹ کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا جبکہ سردار اختر مینگل نے اس ٹکٹ کا صحیح حقدار اسداللہ بلوچ کو قرار دے دیا، چند اور نشستوں پر بھی اس طرح کے معاملات سامنے آئے لیکن پارلیمانی بورڈ نے سردار اختر مینگل کے تمام اعتراضات مسترد کردئیے۔ یوں انہوں نے نہ صرف شدید ناراضگی کا اظہار کردیا بلکہ الیکشن کے عین موقع پر نہ صرف الیکشن سے دستبردار ہوگئے بلکہ پارٹی کی مرکزئی سینئر نائب صدر کے عہدے سے بھی استعفیٰ دے دیا جس سے پارٹی ایک بہت بڑے آئینی، سیاسی اور تنظیمی بحران کا شکار ہوگئی اس کے اثرات انتخابی نتائج پر بھی پڑے جس کے نتیجے میں بی این ایم کو بمشکل دو نشستیں تربت سے ڈاکٹر مالک بلوچ اور پنجگور کی نشست پر کچکول علی ایڈوکیٹ اپنی نشستوں کو جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔ بی این ایم کے باقی تمام امیدوار ہار گئے۔ بعد ازاں بی ایس او کے مرکزی چیئرمین شہید غلام محمد بلوچ کی مفاہمتی اور مصالحتی کوششوں کے نتیجے میں ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے اختر مینگل اور ان کے ساتھیوں کو دوبارہ پارٹی میں خوش آمدید کہا اور ان کی سابق حیثیت بحال کی۔ یوں بی ایس کی اپیل اور درخواست پر یہ معاملہ رفع دفع کردیا گیا لیکن دونوں فریقین کے دلوں میں رنجش اور کدورتیں موجود تھیں۔ اس لیے یہ مفاہمتی اور مصالحتی عمل دیرپا ثابت نہ ہوسکا۔ جب 15 نومبر 1991 کو بی این ایم کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی زیر صدارت منعقد ہوا تو پارٹی واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوگئی، بی این ایم حئی اور بی این ایم مینگل بن گئے۔ ایک دھڑے کی قیادت اخترمینگل نے کی جس میں مرحوم ایوب جتک، وحید بلوچ، مہیم خان بلوچ، اسدللہ بلوچ و دیگر شامل تھے جبکہ دوسرے حصے کی قیادت ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے کی جس میں کچکول علی ایڈوکیٹ، ڈاکٹر یاسین، ڈاکٹر مالک بلوچ، مولابخش دشتی، کہدہ اکرم دشتی، میر عبدالخالق لانگو، عبداللہ جان محمد شہی، رجب علی رند، عبدالرحیم رند، مجید بزنجو و ان کے دیگر ہم خیال دوست شامل تھے۔ بی این ایم کی تقسیم کی وجہ سے بلوچ طالب علموں کی نمائندہ طلبہ تنظیم جس کی قیادت شہید غلام محمد بلوچ کررہے تھے بھی ایک دفعہ پر دو حصوں میں بٹ گئی۔ بی ایس او (حئی) اور بی ایس او (مینگل) بن گئے۔چیئرمین غلام محمد کی قیادت میں بی ایس او نے ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی حمایت کا اعلان کردیا جبکہ سینئر وائس چیئرمین رحیم بلوچ ایڈوکیٹ، مرکزئی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر ایوب بلوچ(زہری) و رضا شاہ بلوچ نے اخترمینگل کی حمایت کا اعلان کردیا یوں بی ایس او بھی ایک مرتبہ پھر پارلیمانی جماعتوں کی ٹکٹوں کی تقسیم، نشستوں کی بندربانٹ، ذاتی ضد و انا، غیر جمہوری اور غیر نظریاتی روئیوں کی وجہ سے تنظیمی بحران اور دھڑے بندیوں کا شکار ہوکر آنے والے وقتوں میں انتہائی غیر موثر اور بے اثر رہی۔ جس کا خمیازہ آج تک وہ بھگت رہی ہے۔ دوسری طرف سردار اخترمینگل اور ان کے ہم خیال دوستوں نے اپنے دھڑے کا قومی کونسل سیشن 30،29 دسمبر 1991 کو کوئٹہ میں طلب کردیا اور ایک نئی اور متبادل مرکزی کابینہ اور مرکزی کمیٹی سامنے لے آئے۔ بعد میں انہوں نے بی ایس او سہب اور حبیب جالب بلوچ کی ”پروگریسیو نیشنل موومنٹ“ کے ساتھ اشتراک عمل کرکے 15 جولائی 1994ء میں دونوں جماعتوں کے مشترکہ کونسل سیشن کے نتیجے میں سردار اخترمینگل بی این ایم مینگل کے مرکزی صدر اور حبیب جالب بلوچ مرکزی سیکریٹری جنرل منتخب ہوگئے۔ بی ایس او سہب اور بی ایس او مینگل کے مابین انضمام کے نتیجے میں رحیم بلوچ ایڈوکیٹ مرکزئی چیئرمین اور پزیر بلوچ مرکزی سیکریٹری جنرل، آغا حسن بلوچ پریس سیکریٹری جبکہ سعید فیض، ثناء بلوچ و دیگر مرکزی کمیٹی کے رکن منتخب ہوگئے۔
جب سردار عطا اللہ مینگل طویل جلاوطنی کے بعد واپس وطن تشریف لے آئے تو انہوں نے 1996ء کو سردار اخترمینگل کی ”بلوچستان نیشنل موومنٹ“ اور میرحاصل خان بزنجو کی ”پاکستان نیشنل پارٹی“ کے مابین انضمام کرواکر ایک نئی بلوچ قوم پرست جماعت ”بلوچستان نیشنل پارٹی“ کے نام سے قائم کی۔ فروری 1997ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں سردار صاحب کی جماعت نے گوادر سے لے کر مستونگ تک کلین سویپ کردیا جس سے بی این پی بلوچستان اسمبلی میں ایک واضح پارلیمانی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی، بعد ازاں سردار مینگل نے نواب اکبرخان بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی کے ساتھ مل کر ڈھائی سالہ فارمولہ کے تحت ایک معاہدہ کیا جس کے ذریعے پہلے مرحلے میں سردار اختر مینگل جبکہ دوسرے مرحلے میں نوبزادہ سلیم بگٹی کو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ ہونا تھا۔ یوں معاہدہ کے تحت پہلے مرحلے میں سردار اخترمینگل بلوچستان کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے لیکن جلد ہی ان کی یہ مخلوط حکومت اسلام آباد کی سازش، باہمی اختلافات اور آپس کی چپقلشوں کا شکار ہوگئی۔
اس کا آغاز اس وقت ہوا جب سردار اختر مینگل نے جمہوری وطن پارٹی کو اپنی کابینہ سے نکال دیا جس سے نواب بگٹی اور ان کے درمیان فاصلے مزید بڑھ گئے۔ نواب بگٹی نے سردار اختر مینگل پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کردیا۔ دوسری طرف 28مئی 1998 ء کو راسکوہ میں ایٹمی دھماکے کروائے گئے جس سے سردار اخترمینگل کی حکومت مزید دباؤ اور تناؤ کا شکار ہوکر شدید تنقید کی زد میں آگئی۔ اسے نہ صرف سیاسی مخالفین بلکہ اپنی پارٹی کے اندر سیاسی و نظریاتی کارکنوں کی طرف سے بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا خاص کر دھماکے کے دوران نواز شریف کی گاڑی کو ڈرائیونگ کرنے پر کڑی تنقید کی گئی۔ جب ڈیڑھ مہینے کے بعد 15 جولائی 1998کوکو ئٹہ میں بی این پی کی پہلی کانگریس منعقد ہوئی توپارٹی کے مرکزی چیف آرگنائزر سردار عطا اللہ مینگل نے بند اجلاس کے پہلے دن پارٹی وزراء کی کارکردگی کا جائزہ لئے ہوئے ان کی کارکردگی کو انتہائی مایوس کن اور غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے ان کی کرپشن اور اقربا پروری کے حقائق کونسلران کے سامنے رکھ دئیے تو سب کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے جس کے ردعمل میں پارٹی کے وزراء اسداللہ بلوچ، سید احسان شاہ، میر محمد علی رند، میر غفور کلمتی، سردار بہادر خان بنگلزئی، میر اسرار اللہ زہری و دوسروں نے سردار مینگل کے خلاف پارٹی کے اندر بغاوت کا اعلان کرکے مہیم خان بلوچ کی سربرائی میں ”بلوچستان نیشنل پارٹی“ کے سامنے ”عوامی“ کا لاحقہ چسپان کرکے سردار عطا اللہ مینگل اور اپنے وزیر اعلیٰ سردار اخترمینگل کے خلاف کھل کر میدان میں آگئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان تمام منحرف ارکان کو مقتدرہ کی آشیرواد اور خفیہ اداروں کی مکمل حمایت اور پشت پنائی حاصل تھی ورنہ ان کے اپنے اندر اتنی جرآت نہ تھی کہ وہ کھل کر سردار مینگل کے خلاف میدان میں آ جاتے، یوں یہ بلوچ قوم پرست پارٹی ڈیڑھ سال کے اندر دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ یہ بلوچوں کی تیسری پارلیمانی پریکٹس تھی جوسخت فلاپ ہوگئی بعد میں بی این پی عوامی مزید تقسیم کا شکار ہوتی گئی اور اس کا شیرازہ بھکرتا چلا گیا بلکہ بعد میں ”عوامی“ کے چار مزید دھڑے سامنے آگئے، ایک دھڑا حاصل خان بزنجو کی ”بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی“ کی شکل میں سامنے آئی۔ دوسرا دھڑا سید احسان شاہ کی قیادت میں ”پاکستان نیشنل پارٹی عوامی“ کے نام سے تیسرا گروپ اسرار زہری کی سربرائی میں جبکہ چوتھا گروپ اسداللہ بلوچ کی قیادت میں جو اب بھی وینٹی لیٹر پر موجود ہے اور اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا ہے۔ ہر ریاستی انتخابات کے موقع پر یہ ”عوامی“ ٹکٹوں کی تقسیم یا وزارتوں کی بندربانٹ پر آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے اور ہر سال ایک نیا دھڑا سامنے آتا رہا۔ جبکہ دوسری طرف سردار اخترمینگل کی قیادت میں بی این اپی اپنی جگہ پر قائم رہی ان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ البتہ متحدہ بی این پی کی تقسیم کے اثرات اس وقت بی ایس او پر بھی پڑے۔ بی ایس او مینگل جس کی قیادت سعید فیض کے ہاتھوں میں تھی نے کوئٹہ پریس کلب میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بی ایس او کے اندر دھڑے بندیوں کا سارہ ملبہ سردار مینگل پر ڈال دئیے اور انہیں ”لندن گروپ“ کے نام سے منسوب کردیا حالانکہ بظاہر بی ایس او کی دھڑے بندیوں سے ان کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ یوں بی ایس او دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ایک دھڑے کی قیادت سعید فیض اور شہید حمید شاہین نے کی جبکہ دوسرے دھڑے کی قیادت منظور بلوچ اور میر حمل نے کی۔ سعید فیض نے منحرف ارکان کا ساتھ دیا جبکہ منظور بلوچ نے سردار مینگل کی حمایت کا اعلان کردیا بی این پی کے منحرف ارکان اور باغی دھڑے نے سردار عطا اللہ مینگل اور سردار اخترمینگل کی جس طریقے سے اور جس جارحانہ انداز سے کردار کشی کی اس کی نظیر بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی اگر 15 جولائی1998 سے لے کر اکتوبر 1999 تک کے اخبارات کی فائلوں کا مطالعہ کیا جائے تو لگائے گئے الزامات، ذاتی نوعیت کی تنقید اور کردار کشی پر مشتمل بیانات کے متعلق ایک مُبسوط تحقیقی مقالہ لکھا جاسکتا ہے۔ اس لیے جب گزشتہ دنوں بلوچستان اسمبلی میں علی مدد جتک اور اسدللہ بلوچ آمنے سامنے ہوگئے تو ذہن فوراً فلیش بیک پہ چلی گئی۔ جہاں 1998 کو کوئٹہ کے منان چوک پر بی این پی عوامی کے قائدین اسد بلوچ، اسرار زہری و دیگر نے سردار مینگل کی کردار کشی کی۔ مہم میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے کوششوں میں مصروف تھے۔ یعنی جس اسد بلوچ کی ٹکٹ کے لیے سردار اخترمینگل نے نوّے کی دہائی میں اپنی پارٹی کو ایک بہت بڑے بحران سے دوچار کرکے دوستوں کو ناراض کردیا تھا اب وہی اسد بلوچ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ ان کے خلاف بول پڑے۔ چونکہ بی این پی کی تقسیم کی وجہ سے سردار اخترمینگل اپنی پارٹی کے اندر سے ہی کمزور پڑگئے تھے اور پارلیمانی عددی اکثریت کھوچکے تھے۔ ان کے علاوہ اس کے ساتھ صرف تین ارکان یعنی پرنس موسیٰ جان، شہید اسلم جان گچکی اور غالباَ ڈاکٹر تارا چند ہی رہ گئے تھے باقی تمام ارکان منحرف ہوچکے تھے اس لیے نواز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ نے بھی اپنی حمایت واپس لے لی حالانکہ نواز شریف نے آخر تک سردار اخترمینگل کو ہر طرح کی تعاون و مدد فراہم کی لیکن چونکہ ان کا اپنا گھر ٹھیک نہیں تھا اور گھر کے معاملات ان کے کنٹرول کی بجائے کسی اور طاقتور کے کنٹرول میں چلے گئے تھے تو بالآخر سردار اختر مینگل کو وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دینا پڑا جبکہ دوسری طرف ان کے منحرف ارکان نے مسلم لیگ کے جان محمد جمالی کو اپنا نیا قائد ایوان منتخب کر لیا یوں بی این پی کے سارے منحرف ارکان جان محمد جمالی کی کابینہ میں وزیر و مشیر بن کر کرپشن اور لوٹ مار کی سمندر میں غوطے کھانے لگے۔ جب اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے عنان اقتدار سنبھال کر ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا تو یہ سارے منحرف ارکان پکڑ دھکڑ کی ڈر سے بلوچستان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ کسی نے دبئی میں پناہ لے لی تو کسی نے سنگاپور کا رخ کرلیا تو کسی اور نے لندن کی فلائٹ پکڑ لی لیکن سردار اختر مینگل نہ صرف بلوچستان میں موجود رہے بلکہ انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی فوجی مارشل لا اور آمریت کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ جب 26 اگست 2006 کو ممتاز بلوچ قوم پرست رہنما نواب اکبربگٹی کی شہادت کا اندوہناک واقعہ رونما ہوا تو سردار اخترمینگل نے اس گھناؤنے قتل کے خلاف بطور احتجاج اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا حالانکہ ان کی جماعت اس کے حق میں نہیں تھی پارٹی کا ایک سینیٹر آخر تک لیت و لعل سے کام لیتے رہے۔ گمان یہی تھا کہ سردار اختر مینگل پارلیمانی سیاست کو ہمیشہ کے لیے ترک کردیں گے ان پراس کا دباؤ بھی تھا۔ جب فروری 2008ء کے عام انتخابات میں بلوچ اور پشتون قوم پرستوں نے ایک ساتھ بائیکاٹ کا فیصلہ کردیا تو سردار اخترمینگل کی جماعت بھی اس بائیکاٹ میں پیش پیش تھی لیکن انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کردئیے۔ خضدار اور وڈھ کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر اپنے آزاد امیدوار کھڑے کردئیے جس کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی نشست پر عثمان ایڈوکیٹ اور وڈھ کی صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر عبدالرحمن مینگل، سردار اخترمینگل اور بی این پی کی حمایت یافتہ امیدوار تھے جو جیتنے والوں میں شامل رہے۔ اس طرح نیشنل پارٹی بھی بائیکاٹ کرنے والی جماعتوں میں سرفہرست تھی لیکن نال کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر سردار اسلم بزنجو نے بطور آزاد امیدوار حصہ لیا اور وہ بھی جیت گئے کیونکہ انہیں بھی اپنی پارٹی کی در پردہ حمایت حاصل تھی۔ جبکہ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں بی این پی نے ایک دفعہ پھر انتہائی بھرپور طریقے سے حصہ لیا جس کے نتیجے میں بی این پی کو قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں مل گئیں۔ جب دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات سے چند مہینے قبل سردار ثنااللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو بی این پی کی ووٹوں کی اہمیت بڑھ گئی اس لیے اخترمینگل نے اپنی پارٹی کے دونوں ووٹوں سے ایک بہت بڑا معرکہ سرکرلیا انہوں نے اس دفعہ بھی اپنے پتے بڑی ہوشیاری سے کھیلے ایک طرف قدوس بزنجو کو وزیر اعلیٰ بنوایا تو دوسری طرف 2018 کے عام انتخابات میں اپنی پارٹی کی پارلیمانی قوت کو وسعت دینے کا بند و بست بھی کردیا۔ اس لیے ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ قدوس بزنجو کی بھر پور حمایت کے عوض بی این پی کو دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں ان کی حجم سے زیادہ ایک غیر معمولی پیکیج سے نوازا گیا ہے۔ جس میں ایک درجن کے قریب صوبائی اسمبلی کی نشستیں اور چار قومی اسمبلی کی نشستیں شامل تھیں اگر منظور بلوچ اور حاجی لشکری رئیسانی کی جیت کو ہار میں تبدیل نہ کیا جاتا تو بی این پی کی یہ نشستیں چھ تک پہنچ جاتیں۔ جو بلوچستان کے حوالے سے ایک بہت بڑی سائز ہوجاتی۔ اس سے اختر مینگل کو مرکز میں کھیلنے کا اور مزہ آتا لیکن شاید اس لیے ہاتھ کو ہلکا رکھا گیا۔
بی این پی نے قومی اسمبلی کی ان چار نشستوں سے شہر اقتدار میں کافی توجہ حاصل کی۔ ان کے چاروں ووٹوں نے سرباجوہ کے من پسند امیدوار مسٹر عمران خان کی حکومت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس طرح جب بلوچستان میں جام کمال کی جگہ ایک دفعہ پھر قدوس بزنجو کی لاٹری نکل آئی تو بی این پی ایک دفعہ پر توجہ کا مرکز بن گئی انہوں نے قدوس بزنجو کو وزیر اعلیٰ انیکسی تک پہنچانے کے لیے اپنا سیاسی کندھا فراہم کردیا جہاں قدوس بزنجو دن کو سوتے تھے اور رات کو جاگتے تھے اور اینکسی میں بی این پی کے رکن صوبائی اسمبلی میر حمل کلمتی بھی طعام و قیام کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود بی این اپی کے دوست کہا کرتے تھے کہ ”وہ قدوس بزنجو کے گناہوں میں شریک نہیں ہیں“۔ جب سرباجوہ نے عمران کی جگہ پی ڈی ایم کے شہباز شریف کو نئے فرائض سونپنے کا فیصلہ کرلیا تو ایک دفعہ پھر بی این پی کے ووٹوں کی ضرورت پڑگئی جس کے عوض بی این پی کو مرکز میں دو وزارتیں جبکہ بلوچستان میں گورنر شپ دے دی گئی یہ اور بات ہے کہ بی این پی کے اس لائق اور فائق گورنر نے بلوچستان کے جامعات کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یوں بی این پی نے مرکز میں شہباز شریف اور صوبہ میں قدوس بزنجو سے پی ایس ڈی پی سے لے کر جنرل فیض حمید کے چیئرمین سینٹ کے امیدوار کو ووٹ دینے تک اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔ آئینی ترامیم اور ریکوڈک جیسے بلوچ قومی دولت پر حکومت کو کھبی بھی ناراضگی کا موقع فراہم نہیں کیا۔
لیکن ان پانچ سالوں کے دوران بلوچستان کے حالات جوں کے توں رہے۔ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی، فیک انکاؤنٹر، مسخ شدہ لاشیں، بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیاں، آپریشن، ڈیتھ اسکواڈ کی کاروائیاں، بلوچ قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ اور بلوچوں پر ریاستی جبر کا سلسلہ نہ صرف جاری رہا بلکہ اس میں شدت بھی لائی گئی جبکہ دوسری طرف بی این پی کے اندر ٹھیکہ داری سسٹم، مراعاتی اور کاروباری سیاست کے خلاف آوازیں بھی اٹھنا شروع ہوئیں اور مختلف تنقیدی نقطہ نظر بھی سامنے آئے۔ ہمایوں عزیز کرد، حاجی لشکری رئیسانی، حسین واڈیلہ، جان محمد دشتی، حبیب جالب کے بھائی رحمت اللہ بلوچ، میر انور مزار، میر حمل بلوچ و سینکڑوں سیاسی، نظریاتی کارکنوں نے پارٹی کے ارکان اسمبلی اور وفاقی وزراء کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے اور پارٹی کی پالیسیوں اور کاروباری سیاست پر اپنے تحفظات کا بھرپور اظہار کردیا جب ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی تو مذکورہ رہنماوں سمیت کئی سیاسی کارکنان نے یا تو خاموشی اختیار کی یا اپنے راستے الگ کر دئیے۔
جبکہ بی این پی نے سردار اخترمینگل کی قیادت میں فروری دوہزار چوبیس کے عام انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا اور ایک شاندارانتخابی مہم چلائی، سردار اختر مینگل نے اپنی پارٹی کے پرانے منحرف رکن سیداحسان شاہ کو نہ صرف دوبارہ گلے لگایا بلکہ پارٹی کے ایک سینئر رہنما اور اپنے دیرینہ ساتھی ڈاکٹر عبدالغفور بلوچ کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی جگہ ایک نووارد کو پارٹی ٹکٹ جاری کردیا جبکہ اس سے قبل انہوں نے سینیٹ الیکشن میں بھی اپنی پارٹی کے سینئر و حقدار کارکنوں کی جگہ سید احسان شاہ کی اہلیہ کو سینیٹر بنوایا جبکہ سید احسان شاہ کو قدوس کابینہ میں بی این پی کے کوٹے سے ان کی من پسند اور منافع بخش وزارت یعنی اے کیٹگری کی وزات”محکمہ صحت“کا قلمدان بھی دلوایا۔ شاہ صاحب ڈیڑھ سال تک اس وزارت سے خوب لطف اندوز ہوتے رہے جبکہ ادھر بی این پی مفت میں گناہ بے لذت میں شریک رہی۔ جب سردار اسلم بزنجو نے وڈھ کی نشست پر شفیق مینگل کو سپورٹ کیا تو سردار اختر مینگل نے بھرپور جواب دینے کے لیے تربت کی نشست پر سید احسان شاہ کو قبولیت بخشی جبکہ گودار تربت کی قومی اسمبلی کی نشست پر حسین واڈیلہ جیسے سیاسی کارکن کو سپورٹ کرنے کی بجائے ایک بدنام زمانہ غیر سیاسی اور کاروباری شخصیت کے نالائق بیٹے کو اپنا امیدوار بنایا۔ واضح رہے مذکورہ شخص کو نیشنل پارٹی نے بھی دوہزار تیرہ کے الیکشن میں اپنی پارٹی ٹکٹ سے نوازا تھا جبکہ اب کی بار یہ قومی فریضہ بی این پی نے سرانجام دیا۔ یہ بلوچستان کی پارلیمانی سیاست کا وہ بھیانک سیاسی چہرہ اور منظرنامہ ہے جسے ہم روز اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں جو ایک حقیقت کے ساتھ ایک درد بھری کہانی بھی ہے۔
دوہزار چوبیس کے عام انتخابات میں میچ فکسڈ ہونے کی صورت میں بی این پی کے حصے میں ایک قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشست آئی۔ این اے256 خضدار کی جس نشست پر سردار اخترمینگل نے اپنا استعفیٰ جمع کردیا ہے اس نشست پر اسے جتوانے میں جمعیت علمائے اسلام کے ووٹ بینک نے ایک اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ جبکہ نیشنل پارٹی کے حصے میں چار صوبائی اور ایک قومی اسمبلی کی نشست آئی حالانکہ عام انتخابات سے قبل نیشنل پارٹی کی قیادت انتہائی خوش فہمی میں مبتلا تھی لیکن الیکشن کے نتائج نے انہیں چونکا دیا بلکہ مقتدرہ نے دونوں جماعتوں کو خوب چونا لگادیا ایک ہفتہ تک شور شرابہ کرنے کے بعد جب انہیں پتہ چلا کہ اگر انہوں نے مزید چی گویرا بننے کی کوشش کی تو ان کی یہ جیتی ہوئی نشستیں بھی ان سے چھین لی جائیں گی۔ اس لیے نیشنل پارٹی کے ارکان حلف لینے کے لیے سب سے پہلے اسمبلی ہال پہنچ گئے۔
گزشتہ پانچ سالوں کے دوران جو قومی خدمات بی این پی نے جس احسن طریقے سے سرانجام دئیے ہیں اب اس ”قومی خدمات“ کو سرانجام دینے کی ذمہ داری نیشنل پارٹی نے لے لی ہے۔این پی کی رکن اسمبلی خیرجان بلوچ کی 6ستمبر کی تقریب میں شرکت سرفراز بگٹی سے دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بی این پی نے تو قدوس کا ماتھا چھوما تھا جبکہ نیشنل پارٹی نے سرفراز بگٹی کو بھوسا دیا ہے۔ گندے نظام میں رہتے ہوئے کسی سے انقلابی بننے کی خواہش یا امیدعبث کے سوا کچھ نہیں۔ ایک طرف سردار اختر مینگل نے اپنا استعفیٰ دے دیا ہے جبکہ دوسری طرف وہ اپنے مطالبات بھی پیش کر رہے ہیں جبکہ ان کی جماعت آئینی ترامیم کے سلسلے میں مذاکرات بھی کررہی ہے۔ وہ حکام بالا کو یہ فارمولا بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ کس طرح اور کس طریقے سے دو ووٹوں کے عوض آپ دوہزار لاپتہ افراد کو بازیاب کرسکتے ہیں۔ اس طرح کی سنگین مذاق اپنے آپ سے کبھی کسی نے کی ہے؟ ایک طرف آپ سسٹم پر لعنت بھیج رہے ہیں۔ اس پر عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں جبکہ دوسری طرف اسے مینڈیٹ دے رہے ہیں اور اس کی حیثیت کو Legitimized بھی کررہے ہیں۔ اخترمینگل نے استعفیٰ کے وقت اپنی پارٹی کے اعلیٰ اداروں سے رجوع نہیں کیا لیکن پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے اخترمینگل کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے اپنے دو سینیٹرز اور ایک رکن صوبائی اسمبلی کے استعفیٰ کا اختیار بھی سرداراخترمینگل کو دے دیا۔اسی کا نام سیاست ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں