تاریخِ کراچی کے ایک لاپتہ باب کی بازیابی!
تحریر: ریاض بلوچ
رمضان بلوچ صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ادبی دنیا میں انہیں ’لیاری کی ادھوری کہانی‘، ’لیاری کی ان کہی کہانی‘، ’گوادر :ڈوبتے اُبهرتے سورج کی کہانی‘ کے مصنف کے طور پر جانا پہچانا جاتا ہے۔ پهر بهی رسمی طور پر ان کا اور ان کی اس نئی کتاب کا تعارف کروانا ضروری ہے تو چلیں ان کے اپنے الفاظ میں تعارف پیش کئے دیتے ہیں۔” ہماری پیدائش انگریزوں کے دورمیں 1944ع میں کراچی (لیاری) میں ہوئی۔ یہیں پلے بڑهے ۔ پاکستان میں پیدا ہوئے تهے اور نہ ہم نے پاکستان کو بنتے دیکھا۔ تین سال کے بچے سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ ’بن کر رہے گا پاکستان ‘ کی باریکیوں کو سمجھ اور محسوس کرسکے۔ البتہ ہم نے اپنے شہر کراچی کو پهلتے پهولتے ضرور دیکھا۔ یہیں آنکھیں کھولیں اور پهر آنکھوں نے اس عظیم شہر کی روشنیوں اور رعنائیوں کو اچھی طرح دیکھا اور یہاں شہری ہونے پر ہمیشہ فخر بهی کیا۔ شہر کے ایک ایسے علاقے میں ہم پرورش پائی جہاں غربت تهی، افلاس تها اور محرومیاں بهی تهیں۔ لیکن ایک اور انمول چیز بهی یہاں میسر تهی جو بچپن ہی سے ہمارے ذہنوں میں بٹهادی گئی جس کا لمس اور لو پوری زندگی ماؤف ہوئی نہ اب ہوسکتی ہے اور وہ تهی۔ انسانوں سے محبت! ہم جہاں رہتے تهے۔ وہاں بلوچ، سندھی، کچھی، پٹهان، پنجابی، میانوالی اور اردو بولنے والے مہاجر بهی رہائش پذیر تهے۔ یہ ایک پریم نگری تهی جہاں کرسچن اور ہندو مہیشوری برادریوں کی بڑی تعداد بهی مقیم تهی اور ابهی تک ہے۔ اُس دور کی کراچی کی روایتوں اور قدروں کے مطابق ثقافت اپنی اپنی ، عقیدہ اپنا اپنا لیکن ان تمام طبقات کی سماجی زندگی کا محور انسانیت سے محبت ہی تهی۔اُس دور کی خوشگوار یادوں کو الفاظ کا جامہ پہنا کر سمیٹنے اور جونوان نسل تک یہ بات پہنچانے کی سعی اس کتاب میں کی گئی ہے۔ تاکہ وہ ذہن نشین کرلیں کہ کبهی ہمارا یہ چمکتا دمکتا شہر ایک انسانی بستی بهی تها! “ (بلوچ ، رمضان 2024ع،ص: 9)
رمضان بلوچ، کراچی کی تاریخ پر لکھنے والے مصنفین میں اپنے دلکش اسلوب و انداز بیان کے حوالے سے ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔’لاپتہ شہر کا سراغ‘ ان کی نئی کتاب ہے۔ جو کراچی کی تاریخ پر مبنی ہے۔ رمضان بلوچ نے اپنی اس کتاب کا انتساب معروف ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کے نام کیا ہے۔ کتاب کی ابتدائی صفحات میں قارئین کو کتاب کے موضوع و افادیت سمجھانے کے لئے نامور صحافی و مصنف محمود شام ، سماجی سائنس کے ماہرین ڈاکٹر سید جعفر احمد اور ریاض شیخ کی تحریریں شایع کی گئی ہیں۔
رمضان بلوچ کی کتاب’ایک لاپتہ شہر کا سراغ‘ میں کراچی کی قدیم تاریخ و بلخصوص مصنف کی زندگی یعنی قیام پاکستان کے بعد کراچی کی عروج و زوال کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ مصنف پیش لفظ میں لکھتے ہیں:” وہ جو بلندیوں کا ایک شہر تها پہلے شکستہ ہوا، اب لاپتہ ہوچکا ہے۔ کیوں شکستہ و لاپتہ ہوچکا ہے اس کی کھوج اور جستجو نے اس کتاب کو جنم دیا ہے۔“ (بلوچ ، رمضان 2024ع،ص: 8) اسی کھوج و جستجو کے باعث رمضان بلوچ اس کتاب کی ابتدہ 1930ع کے ایک ایسے واقعے کی منظر کشی سے کرتے ہیں جس میں کراچی کے میئر جمشید نسروانجی ایک زخمی جانور کو علاج کے لئے ہسپتال لے جا رہے ہیں! ظاہر ہے قاری حیرت میں مبتلا ہوگا کہ کراچی نے ایسا دور بهی دیکھا تها؟
کراچی کی تاریخ پر کئی کتابیں تحریر کی جاچکی ہیں، ہر کتاب کی اپنی اہمیت ہے۔ اس موضوع پر بنیادی کام رچرڈ برٹن، الیگزینڈر ایف بیلی و دیگر مصنفین نے کیا ۔ مقامی مصنفین کی تحریر کردہ زیادہ پڑهی جانے والی کتب میں محمد عثمان دموہی صاحب کی اردو زبان میں تحریر کردہ تصنیف ’کراچی تاریخ کے آئینے میں‘ اور گل حسن کلمتی کی سندھی کتاب ’کراچی سندھ جی ماروی‘ شامل ہیں۔ غلام رسول کلمتی نے بهی اپنی تصنیف ’ کراچی قدامت، واقعات و روایات‘ میں کراچی کی قدیم تاریخ کا احاطہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ بیشترمقامی مصنفین، کراچی کی تاریخ کو 1729ع یا 1947ع سے شروع کرتے ہیں۔اس طرح کی تصانیف کا مطالعہ کرنے سے ایسے لگتا ہے جیسے کراچی انسانی آبادی سے محروم وہ سیارہ تها جس پر نیل آرم اسٹرانگ کی طرح اولین قدم سیٹھ بهوجومل نے رکھا یا اس پر زندگی کے ابتدائی آثار قیام پاکستان کے بعد نمودار ہوئے! لیکن رمضان بلوچ صاحب نے ان تمام واقعات کی اہمیت سے انکار کئے بغیر کراچی کی تاریخ کو بہترین طریقے سے پیش کیا ہے۔ یہ کتاب کراچی کی تاریخ پر تحریر کردہ تصانیف سے کئی حوالوں سے منفرد ہے۔ رمضان بلوچ نے دیگر مصنفین کی طرح صرف تاریخی حوالوں کا ڈیٹا جمع کرنے کے بجائے کراچی کی سیاسی، معاشی، جغرافیائی و ثقافتی تبدیلیوں کا تجزیہ کیا ہے ۔
کراچی کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک گنجان آباد شہر کا تصور اُبهر آتا ہے، جس کی سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک کی روانی ہےاور فضا گاڑیوں و صنعتوں کے دهونئیں سے آلودہ ہے، گلی کوچوں میں بہتے گٹر کے گندے پانی و کچرے کے ڈھیر کی بدبوء ہے۔ یہ ایسا شہر ہے جہاں کوئی کسی کا نہیں ہے، ہر طرف بدامنی ہے ، لوگ ایک دوسرے کو ٹارگیٹ کلنگ کرکے لاشیں بوریوں میں بند کرکے کچرا کنڈیوں میں پھینک رہے ہیں! بلکہ سندھی زبان میں تو ایک کہاوت بهی ہے جس کے معنیٰ ہیں’کراچی کی موسم اور لوگ قابل اعتماد نہیں ہیں‘۔ حالانکہ کراچی کی یہ دونوں قابل اعتماد ہی رہےہیں۔ پیر علی محمد راشدی و پیر حسام الدین راشدی نے اپنی تصانیف میں کراچی کی قابل اعتماد و صحت بخش موسم کا ذکر کیا ہے۔ کراچی کے لوگ بهی اگر قابل اعتماد نہ ہوتے تو سب سے زیادہ لوگ اس شہر کا رُخ نہیں کرتے۔ رمضان بلوچ کی یہ کتاب ان منفی تصورات کے برخلاف تاریخ کے دریچے سے اس شہر کے روشن باب کا دیدار کرواتی ہے جہاں ثقافتی، لسانیاتی و مذہبی عقائد کے اختلاف کے باوجود مختلف قومیتوں کے لوگ آپس میں پیار و محبت سے رہتے تهے۔ پھر یہ کتاب ان تمام اسباب کا کھوج لگاتی ہے جن کے باعث ہم نے محبت و امن کے وہ اقدار کھودئے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ محمد عثمان دموہی و گل حسن کلمتی نے کراچی کی قدیم تاریخ کو تفصیل سے بیان کیا ہے لیکن ان کی تصانیف میں کراچی کی سیاسی و سماجی تاریخ لاپتہ ہےجبکہ رمضان بلوچ کی کتاب میں تاریخ کے مذکورہ باب کو بازیاب کروایا گیا ہے۔
کراچی نے ہمیشہ روزگار کی تلاش میں سرگرداں بیروزگاروں کو پناه دی ہے۔ پھر ان میں سے کسی نے ناؤنمل کا کردار نبهایا تو کسی نے چاکر بن نوتک کا۔ دیگر مؤرخین نے ان میں سے کسی ایک کو اپنے تحریر کا محور بنا کر دوسرے کو مکمل نظر انداز کردیا ہے۔ لیکن رمضان بلوچ نے نہ کسی کردار کو نظر انداز کیا ہے اور نہ ہی اس کے ہر عمل کو منفی انداز میں پیش کرکے اس کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔وہ اس کتاب میں کراچی کی قدیم تاریخ کے ہر کردار کا تذکرہ کرکے فیصلہ تاریخ کی عدالت پر چھوڑ دیتے ہیں۔
دنیا کے دیگر شہروں کی طرح کراچی میں بهی مختلف اقوام و مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں۔ جن میں کچھ لوگ صدیوں قبل یہاں آباد ہوئے تو کچھ لوگوں کی آمد چند سال قبل ہوئی۔ ان کے رہن سہن، رسم و روایات،طرز زندگی، زبان و عقائد مختلف رہے ہیں۔ مختلف سیاسی نظریات و وابستگیوں کے باعث کراچی کے شہریوں کے مابین اختلافات بهی رہے ہیں ۔ہمارے بیشتر مؤرخین و صحافی حضرات نے ایسے معاملات کا تجزیہ کرتے ہوئے ترش لہجا اپنایا ہے لیکن رمضان بلوچ صاحب اپنے دلکش اسلوب و انداز بیاں کے ذریعے سیاسی معاملات کا تجزیہ کرتے ہوئے اتنی خوبصورتی سے تنقید کرتے ہیں کہ ہدف تنقید بهی نالاں ہونے کے بجائے غور و خوض کرنے پر متدبر ہوجاتا ہے۔ مثل وہ کراچی کے شہریوں کی جانب سے جنرل ایوب سمیت ہر آمر کے خلاف مزاحمت کا تذکرہ کرتے ہوئے جنرل ضیاالحق کے دور میں کراچی کے سیاسی حالات کے بارے میں لکھتے ہیں:” ذوالفقار علی بهٹو کے منظر عام سے ہٹنے کے بعد جب ایک جمہوری آئین کو یک لخت لپیٹ کر آمر جنرل ضیاالحق نے اپنی رٹ اپنے ہی بنائے ہوے مذہبی نکتہ نظر کے تحت زبردستی اور جبر کے ساتھ قائم کی توحیرت کی یہ بات نکلی کہ ضیاالحق کے دور میں کراچی کا مجموعی مزاحمتی مزاج، جمہوری تقاضے اور آمر حکمرانوں سے ناراضگی کی فضا برقرار ہوتی نظر کیوں نہیں آئی؟ بلکہ ضیا کابینہ میں جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور کے شامل ہونے سے یہ بات عیاں ہوئی کہ اب کراچی والے برسر اقتدار آگئے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے ہاں ایسا تاثر پہلی بار قائم ہوتا محسوس ہوا تها، ورنہ اس سے پہلے کے حکمرانوں کے خلاف یہ ہمیشہ مزاحمت کا جھنڈا بلند کرنے والی حزب اختلاف کا شہر قرار پاچکا تها۔“ (بلوچ ، رمضان 2024ع،ص: 194)
اس کتاب کی ایک انفرادیت یہ بهی ہے کہ اس میں قیام پاکستان کے بعد مذہبی جنونیت سے تنگ آکر اپنا شہر چھوڑ کر ہندستان جانے والے ہندوؤں اور سکھوں کے دکھ و مصائب بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اُس وقت کی اخبارات کی خبروں و بیانات کی روشنی میں ہندستان سے آئے ہوئے اردو بولنے والے مسلمان غریب مہاجرین کے مسائل و کسمپرسی کی زندگی ، ان کے ساتھ حکمرانوں کے نارو سلوک کو بهی قلمبند کیا گیا ہے۔
اس کتاب میں سیٹھ بهوجومل کی کراچی آمد سے انگریز کے قبضے تک کراچی کی تاریخ کو مختصر طور پر بیان کیا گیاہے۔ پهر انگریزوں کے دور میں کراچی کو مشرق کی ملکہ بنتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ قابض ہوتے ہوئے بهی انگریز نے اس شہر میں جو تفریحی مقامات، سڑکیں، تعلیمی ادارے، کتب خانے ودیگر ادارے قائم کئے، ان کا تفصیل سے تذکرہ کیا گیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت قرار دیکر سندھ سے علیحدہ کرنے کی حکومتی تجاویز و سندھ کے وزیراعلیٰ کے خدشات، مسلمان مہاجرین کی آمد اورحکمرانوں کی عدم توجہی کے باعث ان کے بڑهتے ہوئے مصائب و آلام کا خود مہاجر دانشوروں کے زبانی بیان ، حیدرآباد میں پهلائی گئی افواہوں کے باعث کراچی میں چار سؤ سے زائد سکھوں و ہندوؤں کے قتلاعام، کراچی میں آباد سندھی ہندوؤں کی ہندستان کی جانب ہجرت کے واقعات کا مصنف نے سائنسی تحقیقی اصول و ضوابط کے ساتھ مستند و اختصار سے تجزیہ کیا ہے۔ رمضان بلوچ کے مطابق ان ناخوشگوار واقعات کے باعث وقتی طور پر ماحول خوف و ہراس کا شکار ضرور ہوا لیکن مجموعی طور پر کراچی کے حالات سازگار رہے، عوام آپس میں شیر و شکر تهی۔ تفریحی مقامات پر لوگ بلا خوف چہل پہل کرتے رہے۔ لیکن پهر ملک پر آمریت کی سیاه رات آگئی اور کراچی نے اس تاریکی کو قبول نہیں کیا۔ جنرل ایوب کے نام نہاد ریفرنڈم میں کراچی کے بیشتر علاقوں سمیت لالو کھیت میں بهی آمریت کو شکست ہوئی تو مہاجروں کی جهوپڑیاں نذر آتش کردی گئیں۔آگ جهونپڑیوں کی راکھ سے مہاجر و پشتون کےدلوں میں منتقل ہوگئی۔ بعد میں ایک اور آمریت میں بشرا زیدی کا واقعہ پیش آیا، جس کو آمریت نے اپنے فائدے میں استعمال کرتے ہوئے ایسی آگ و نفرت میں تبدیل کردیا جس نے چند جهونپڑیوں کے بجائے کراچی کی محبت، اقدار، ترقی کو جلا کر راکھ کردیا۔ ہزاروں بے گناه شہریوں کی جانوں کا زیاں ہوا اور یہ شہر اُس وقت لاپتہ ہوگیا! ان تمام واقعات کو تفصیلی و تحقیقی انداز میں قلمبند کرتے ہوئے رمضان بلوچ اپنی اس کتاب کو کراچی کی تاریخ پر تحریر شدہ چند اہم تصانیف کی فہرست میں شمار کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
البتہ کتاب میں تاریخ کراچی سے وابستہ چند اہم ابواب اوجھل ہیں۔کراچی کی زمینوں پر قبضے (چائنا کٹنگ) ا ور اس کے پسمنظر میں ہونے والے جرائم کا ذکر کتاب میں موجود ہے لیکن اس کے باوجود مصنف نے ملیر کی گرین بیلٹ کو بحریہ ٹاؤن و دیگر غیر قانونی رہائشی منصوبوں میں بدلتے ہوئے دیکھ کر بهی ان کا تذکرہ نہیں کیا! مستی خان خاندان کا کراچی کی سیاست میں اہم کردار رہا ہے۔ مصنف خود یوسف مستی خان کی سیاست کے چشم دید گواه ہیں ۔ لیکن کتاب کا وہ باب غائب ہے۔ مصنف اگر عبداللہ مراد کی عوامی سیاست و ان کی شہادت پر چند سطریں تحریر کرتے تو کتاب مزیدمستند ہوتا ۔کراچی کو دور عروج میں داخل کرنے والےبرطانوی افسران کا ذکر کتاب میں موجود ہے تو کیا بہتر ہوتا اگر رمضان صاحب ایک باب قیام پاکستان سے آج تک اس شہر پر قابض اس اشرافیہ کے بارے میں لکھتے جنہوں نےکراچی کے عروج کو زوال میں بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔