انٹرنیٹ اور ہماری سوچ کی تبدیلی

ذیشان احمد

اگر ہم اُس دور کی بات کریں جب انٹرنیٹ ہر گھر میں قابض نہیں تھا تو ہم ایک ایسی دنیا کا تصور کرتے ہیں جہاں افکار، تدبر اور تحقیق کا غلبہ تھا لوگ علم کے لیے کتابوں سے رجوع کرتے تجسس کے ذریعے نئے سوالات اٹھاتے اور گزشتہ اقوام کے نظریات کو سمجھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے نیوٹن کے قوانین حرکت فلسفے کے گہرے سوالات اور دنیا کے نقشے بنانے جیسے اقدامات انسانی ترقی کے روشن سنگ میل تھے

لیکن آج کا دور اس سے بالکل مختلف ہے انٹرنیٹ نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے مگر اس کے ساتھ ہی ہماری تعلیم تحقیق اور سوچ کے معیار کو بھی گرا دیا گیا ہے آج کا سب سے بڑا مقصد صرف پیسہ کمانا رہ گیا ہے اور انٹرنیٹ اس مقصد کو حاصل کرنے کا سب سے آسان ذریعہ بن چکا ہے

اس وقت ایک خاص رجحان سامنے آیا ہے جہاں سوشل میڈیا انفلوئنسرز مختلف کورسز متعارف کرا رہے ہیں اور یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے کورس کے ذریعے ہر غریب پاکستانی بچہ خوشحال ہو جائے گا اور اسے کبھی مالی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا یہ لوگ دعوے کرتے ہیں کہ ان کے کورسز سے آپ چند دنوں میں ہزاروں روپے کمانا سیکھ جائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ کورسز ہماری زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔

ان کورسز میں اکثر وہی باتیں شامل ہوتی ہیں جو عام آدمی پہلے سے جانتا ہے ان کا مواد نہ تو کسی حقیقی تحقیق پر مبنی ہوتا ہے۔ نہ ہی یہ کسی مضبوط تعلیمی بنیاد پر کھڑے ہوتے ہیں۔ اکثر یہ کورسز صرف ان لوگوں کو دھوکہ دینے کا ذریعہ بنتے ہیں جو اپنی مالی حالت بہتر بنانے کے خواہشمند ہوتے ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کورسز کو متعارف کروانے والے لوگ خود اپنی زندگیاں غیر پیداواری کاموں میں گزارتے ہیں

یہ لوگ سوشل میڈیا پر ویڈیوز بناتے ہیں جس میں کبھی اپنی بہنوں اور بیویوں کو وی لاگز کا حصہ بناتے ہیں تو کبھی والدین کو عجیب و غریب انداز میں پیش کرتے ہیں بعض اوقات یہ لوگ جعلی حادثات دکھاتے ہیں یا بے ہودہ مزاحیہ ویڈیوز بنا کر لوگوں کو محظوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے دعوے صرف ظاہری چمک دمک پر مبنی ہوتے ہیں اور ان کی زندگیاں نہ تو تحقیق سے وابستہ ہیں اور نہ ہی کسی تعمیری مقصد سے۔

سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی ویڈیوز اور کورسز کے ذریعے ایک پوری نسل کو اس راہ پر لگا رہے ہیں جہاں مقصد صرف شہرت اور پیسہ بن گیا ہے

آج ہمارے معاشرے میں لوگ ان کی باتوں پر یقین کرکے اپنے وقت اور پیسے کا ضیاع کر رہے ہیں اور یہ بھول گئے ہیں کہ اصل ترقی تحقیق، محنت، اور انسانیت کی خدمت میں ہے

ہمیں اس رجحان کو روکنے کے لیے اپنے تعلیمی اور فکری معیار کو بہتر بنانا ہوگا انٹرنیٹ کو ایک مددگار ذریعہ سمجھنا چاہیے نہ کہ اپنا مقصد ہمیں اپنی نسلوں کو یہ سمجھانا ہوگا کہ کامیابی کے لیے شارٹ کٹ کی بجائے محنت دیانت داری اور تحقیق کا راستہ اپنانا ضروری ہے

اگر ہم نے اس وقت اپنی سمت درست نہ کی تو وہ دن دور نہیں جب ہماری نسلیں صرف دھوکہ دینے والے کورسز اور بے مقصد ویڈیوز کے گرد گھومتی رہی گی اور ہماری اصل قابلیت ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے افکار کو دوبارہ تحقیق تعلیم اور انسانیت کی خدمت کی طرف موڑیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں