بلوچستان کا تعلیمی بحران، نظام کی ناکامیوں کو وقتی امتحانی کریک ڈاؤن سے چھپانے کی بجائے اصل وجوہات کو حل کرنا

تحریر: عیسیٰ طاہر
اگر ہم ہر ترقی یافتہ قوم کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ایک بنیادی عنصر سب سے زیادہ نمایاں نظر آئے گا: تعلیم کو ترقی کی بنیاد بنانا۔ معاشی خوشحالی سے لے کر تکنیکی ترقی تک، ہر وہ قوم جس نے مسلسل ترقی حاصل کی ہے، اس نے تعلیم کو اولین ترجیح دی ہے، تعلیمی مواقع کی مساوی فراہمی کو یقینی بنایا ہے اور ہر سطح پر معیاری تعلیمی اداروں میں سرمایہ کاری کی ہے۔بدقسمتی سے، بلوچستان میں، جو قدرتی وسائل سے مالامال ہے، حقیقی ترقی کا سب سے بڑا فقدان تعلیم کے شعبے میں نظر آتا ہے۔ سینکڑوں اسکول بند پڑے ہیں، بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور اساتذہ کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ صورتحال اتنی خراب ہے کہ فعال اسکولوں میں بھی طلبہ پورے تعلیمی سال کے دوران بنیادی مضامین تک نہیں پڑھ پاتے۔محض امتحانی نگرانی ایک ٹوٹے ہوئے تعلیمی نظام کو ٹھیک نہیں کر سکتی اس وقت بلوچستان بھر میں میٹرک کے امتحانات جاری ہیں، اور وزیرِ اعلیٰ نے امتحانی مراکز میں نقل کے خلاف سخت اقدامات کی ہدایت دی ہے۔ امتحانات کی شفافیت یقینی بنانا یقیناً ضروری ہے، لیکن اس سے طلبہ کو درپیش بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے۔ جب طلبہ کو معیاری تعلیمی وسائل، تربیت یافتہ اساتذہ اور فعال کلاس رومز ہی میسر نہ ہوں تو ہم ان سے ایمانداری کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟مثال کے طور پر، گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول نوکنڈی کی حالت دیکھیے، جہاں کل داخلہ تقریباً 550 طلبہ پر مشتمل ہے۔ یہ اسکول، دیگر کئی اسکولوں کی طرح، شدید مسائل سے دوچار ہے:محض پانچ اساتذہ، جن میں پرنسپل بھی شامل ہیں، سیکڑوں طلبہ کو پڑھانے پر مجبور ہیں۔پورے ہائی اسکول کے لیے صرف چھ کمروں پر مشتمل عمارت موجود ہے، جن میں فرنیچر تو دور، بیٹھنے کے لیے چٹائیاں تک نہیں ہیں۔یہ اسکول سرکاری طور پر لڑکوں کے لیے مختص ہے، لیکن لڑکیوں کو بھی داخلہ دیا جاتا ہے کیونکہ خواتین کے لیے قرب وجوار میں کوئی علیحدہ تعلیمی سہولت دستیاب نہیں۔یہی صورتحال نوکنڈی سمیت بلوچستان کے دیگر سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری اسکولوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے، جہاں سائنس کے اساتذہ تقریباً ناپید ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بیشتر اسکولوں میں پورے سال کے دوران کئی مضامین بالکل نہیں پڑھائے جاتے، جس کے نتیجے میں طلبہ امتحانات کے لیے مکمل طور پر تیاری نہیں کر پاتے۔حکومتی اہلکار حقیقی مسائل کی بجائے عارضی حل پر توجہ دے رہے ہیں ان سنگین کمزوریوں کے باوجود، مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے طلبہ کے خلاف سخت رویہ اپنایا ہوا ہے۔ امتحانات میں نقل کرنے والے طلبہ کے خلاف پیپر منسوخ کرنے، قانونی کارروائی کرنے اور حتیٰ کہ قید کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ان اعلانات میں اصل مسئلے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، یعنی کہ حکومتوں کی مسلسل تعلیمی غفلت۔اسی دوران، اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بیوروکریٹس اور سیکریٹریز امتحانی مراکز کے دورے کر کے سخت نگرانی کا تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے اقدامات سرخیوں اور سوشل میڈیا پر توجہ حاصل کر سکتے ہیں، مگر اساتذہ کی کمی، ناقص تعلیمی سہولیات اور پرانے نصاب جیسے مسائل حل نہیں کر سکتے۔ دنیا کے بہترین تعلیمی نظاموں میں، اعلیٰ سرکاری حکام امتحانی مراکز کی نگرانی کی بجائے ایسی پالیسیاں بناتے ہیں جو تعلیمی معیار کو بہتر بناتی ہیں۔بلوچستان کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے امتحانی دن کی پابندیوں کی بجائے طویل المدتی اصلاحات کی ضرورت ہےاگر حکومت واقعی بلوچستان میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانا چاہتی ہے، تو وقتی حل کی بجائے مستقل بنیادوں پر اصلاحات کرنی ہوں گی۔ درج ذیل اقدامات فوری طور پر کیے جانے چاہئیں:اساتذہ کی خالی آسامیوں کو پُر کرنا اور بھرتی کے نظام میں بہتری لانا۔سائنس اور ریاضی کے مضامین کے ماہر اساتذہ کی ہنگامی بنیادوں پر بھرتی کی جائے۔کنٹریکٹ پر بھرتیوں کا آغاز کیا جائے، جن کی کارکردگی پر سخت نگرانی رکھی جائے۔اسکولوں کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری لانا۔ہر اسکول میں کم از کم مناسب کلاس رومز، بیٹھنے کی سہولیات اور بنیادی حفظانِ صحت کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔لیبارٹری کے آلات، لائبریریاں اور سائنسی تدریسی مواد فراہم کیا جائے۔تعلیم کے لیے دستیاب وسائل کا مؤثر استعمال اور اضافی فنڈز کا حصول۔اگر محکمہ تعلیم کو مالی وسائل کی کمی کا سامنا ہے، تو بین الاقوامی عطیہ دہندگان، اقوامِ متحدہ کے ادارے، اور ترقیاتی بینک جیسے ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے امداد حاصل کی جائے۔بلوچستان کے معدنیاتی علاقوں میں کام کرنے والی کان کنی کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ کارپوریٹ سماجی ذمہ داری (CSR) کے فنڈز تعلیم پر خرچ کریں، خصوصاً چاغی اور نوکنڈی میں، جہاں یہ کمپنیاں اربوں روپے کا منافع کما رہی ہیں۔امتحانی بورڈز کو شفاف اور غیرسیاسی بنانا۔امتحانی بورڈز کو خودمختار، پیشہ ورانہ انداز میں چلایا جائے اور انہیں سیاسی مداخلت، اقربا پروری اور جانبداری سے پاک رکھا جائے۔سخت احتسابی نظام متعارف کروایا جائے تاکہ طلبہ کی جانچ ان کی قابلیت کی بنیاد پر کی جا سکے، نہ کہ کسی سفارش یا اثر و رسوخ کی بنا پر۔تعلیمی اصلاحات مزید تاخیر برداشت نہیں کر سکتیں، ماضی کی حکومتوں کی ناکامیوں نے بلوچستان کے نوجوانوں سے پہلے ہی کئی دہائیاں چھین لی ہیں۔ اگر فوری اصلاحات نہ کی گئیں تو بلوچستان ملک کے دیگر حصوں سے مزید پیچھے رہ جائے گا اور اس کے موجودہ سماجی و معاشی مسائل مزید گہرے ہو جائیں گے۔حل وقتی امتحانی پابندیوں میں نہیں بلکہ ایک طویل المدتی، مربوط، اور مالی طور پر مستحکم حکمتِ عملی میں مضمر ہے، تاکہ ہر بچے کو معیاری تعلیم، تربیت یافتہ اساتذہ اور کامیابی کے لیے ضروری وسائل مہیا کیے جا سکیں۔حکومت کا اصل امتحان یہ نہیں کہ وہ طلبہ کو نقل سے کیسے روکتی ہے، بلکہ یہ ہے کہ آیا وہ اتنی بصیرت، عزم اور دیانت داری رکھتی ہے کہ وہ اس تباہ حال تعلیمی نظام کو ہمیشہ کے لیے درست کر سکے؟؟

اپنا تبصرہ بھیجیں