سندھ پر برطانوی سامراج کا حملہ اور ہوش محمد شیدی کی شہادت

تحریر: ریاض بلوچ
سندھ کی مزاحمتی تاریخ میں ہوش محمد عرف ہوشو شیدی ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔انہیں جنرل ہوش محمد شیدی بی کہا جاتا ہے۔ وہ 1843ءمیں انگریزوں کے خلاف حیدرآباد کے قریب”دو آبے کے میدان” میں جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ ان کا نعرہ "مرسون مرسون، سندھ نہ ڈیسون” (یعنی "مر جائیں گے لیکن سندھ نہیں دیں گے”) بہت مشہور ہے۔
سندھ کے فاتح چارلس نیپیئر کے بھائی ولیم نیپئر اپنی کتاب” Conquest Of Sindh “(فتحِ سندھ) میں ہوش محمد شیدی کی بہادری و جنگی مہارت کا داد دیتے ہوئے لکھتا ہے’ امکان ہے کہ ہوشو فرانسیسی سپہ سالار نپولین کی فوج کا سپاہی تھا، جس نے فرانسیسیوں سے توپ چلانے میں مہارت حاصل کی اور بعد میں مسقط آیا۔ جب سندھ کے امیروں نے مسقط سے توپیں منگوائیں تو ہوش محمد شیدی بھی ان کے ہمراہ سندھ پہنچا۔‘ تاہم سندھ کے مقامی مو¿رخین ولیم نیپیئر کی رائے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق ہوش محمد شیدی کے والد ایرانی خلیج سے اسمگل ہو کر کراچی پہنچے تھے اور انہیں سندھ کے اس وقت کے حکمران میر فتح علی خان تالپر نے خرید کر اپنا ملازم رکھا۔ مورخین کے مطابق ہوش محمد شیدی کی پیدائش اور پرورش شاہی خاندان میں ہوئی تھی۔ جی الانا اپنی سندھی تصنیف ”ہماری آزادی کے رہنما“ میں لکھتے ہیں ” ہوش محمد شیدی کے والد میر فتح علی خان تالپر کے زرخرید غلام تھے، ہوش محمد ان کی حویلی میں پیدا ہوئے۔ میر تالپر اپنے ہاں کام کرنے والے ملازمین کی عزت کیا کرتے اور انہیں اپنے خاندان کا فرد سمجھتے تھے۔ وہ شیدی غلامان کو حضرت علی کے آزاد کردہ غلام ’قمبر‘ کی نسبت سے ’قمبرانی‘ پکارتے تھے۔ “ (الانا، ص:139) جس کے بعد سندھ کے شیدی اپنے آپ کو قمبرانی کہلاتے ہیں۔
ان کے علاوہ سندھ کے بیشتر مقامی مو¿رخین بھی ہوش محمد شیدی کی والادت کے بارے میں یہی رائے رکھتے ہیں۔تاریخی اعتبار سے مقامی مو¿رخین کی رائے درست معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ انگریز فوج کے ساتھ لڑائی کرتے ہوئے ہوش محمد شیدی نے سرائکی زبان میں ”مرس±وں مرس±ون سندھ نہ ڈیسوں“ کا نعرہ بلند کیا تھا جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہوش محمد شیدی سرائیکی زبان بولتے تھے جو سندھ کے تالپر حکمرانوں کی مادری زبان تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہوش محمد شیدی کی پرورش و تربیت بھی سندھ میں میر تالپوروں کے ہاں ہوئی تھی۔
تاریخی کتب میں ہوش محمد شیدی کی پیدائش کے حوالے سے مختلف سال درج ہیں، جیسے 1782ئ، 1791ئ، اور 1801ئ۔ لیکن بیشتر مو¿رخین کے مطابق وہ میر فتح علی خان تالپر کے فرزند، میر صوبدار خان کے ہم عصر اور ساتھی تھے۔ میر صوبدار اپنے والد کی وفات کے وقت 1801ءمیں پیدا ہوئے تھے۔اس کا مطلب ہے ہوش محمد شیدی کا جنم 1801ءمیں ہوا تھا۔
شیدی قبیلے کی غلامی اور مختلف ممالک میں ان کی فروخت کی تاریخ بہت تکلیف دہ ہے۔ ماسٹر محمد صدیق مسافر، جو خود بھی شیدی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی سندھی تصنیف "غلامی اور آزادی کے عبرتناک نظارے” میں شیدی غلاموں کی کہانی تفصیل سے بیان کی ہے۔ دیگر زبانوں میں بھی اس موضوع پر کئی کتب موجود ہیں۔
سندھ میں شیدی برادری بڑی تعداد میں موجود ہے، جو مختلف علاقوں میں آباد ہے۔ سندھ میں آنے کے بعد بعض شیدی غلاموں نے اپنی ذہانت، وفاداری اور بہادری کے باعث اپنے مالکان کے ہاں اعلیٰ مقام حاصل کیا، جن میں ہوش محمد شیدی بھی شامل تھے۔جو سندھ پر قربان ہوکر امر ہوگئے۔
2024ءکو میں چند صحافی دوستوں کے ہمراہ ہوش محمد شیدی کا مزار دیکھنے گیا تھا۔ وہاں موجود شیدی قبیلے کے مقامی افراد نے شکایت کرتے ہوئے کہا ’ہوش محمد شیدی پر جس طرح تحقیق ہونی چاہیے تھی وہ تاحال نہیں ہوئی ہے۔ ان کے مطابق، سندھ کی تاریخ میں آزادی کے لیے لڑنے والے اس عظیم سپاہی کو اس کے شایانِ شان مقام نہیں دیا گیا۔‘ یقینا یہ شکایت درست ہے، لیکن پھر بھی یہ غنیمت ہے کہ ہوش محمد شیدی کے بارے میں کچھ نہ کچھ مواد موجود ہے، حیدرآباد کے دیھ ناریجا میں ان کا مزار تعمیر کیا گیا ہے، اور شیدی قبیلے کے بقول حیدرآباد میں ایک فلائی اوور ہوش محمد شیدی کے نام سے منسوب کیا گیاہے۔ اس کے علاوہ ان کی سوانح عمری پر بھی کافی تحقیق ہوئی ہے۔ مصنف منصور قادر جونیجو کے مطابق ہوش محمد شیدی کا ایک فرزند کریم داد تھا، جس کی پشت سے ہوش محمد شیدی کی اولاد سندھ کے علاقے ٹنڈو ٹوڑو میں رہائش پذیر ہیں۔
اس کے برعکس میانی و دو آبے کی جنگ میں دیگر ہزاروں شہیدوں کے بارے میں سندھ کی تاریخ خاموش ہے۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے اپنی کتاب ”جنگنامہ“ میں لکھتے ہیں کہ دو آبے کی لڑائی میں ہوش محمد شیدی کے ساتھ شہید ہونے والوں میں میر غلام علی مہکانڑی، میر علی خان مہکانڑی، میر عبداللہ خان مہکانڑی، گوہر خان مری، داو¿د خان، کمال خان مری، قربان علی لغاری، جعفر خان مری، میر بلوچ، علی خان مری، مزرو خان مری، شادمان خان کپری، میر بلوچ خان خانانڑی تالپر، بالاچ خان ترک، عنایت خان ترک، علی بڈانی، غلام محمد جان، قیصر خان قمبرانی و دیگر شامل ہیں۔ جبکہ دو آبے کے شہیدوں میں شاہن خان رند کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ان کے علاوہ نوحانی قبیلے کے جانباز وں نے اس جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ان میں سے بیشتر شہیدوں کو حیدرآباد سے 6 میل کے مفاصلے پر دیھ ناریجا میں سپرد خاک کیا گیا۔ لیکن ان کی آخری آرام گاہوں پر کتبے تک موجود نہیں ہیں۔ بہرحال سندھ کی دفاع و انگریز سامراج سے نبرد آزما ہونے والے تمام شہیدوں (جن میں اکثریت بلوچوں کی تھی) نے اپنی دھرتی ماں کا حق نبھایا لیکن ان میں ہوش محمد شیدی ایک منفرد مقام رکھتے ہیں، کیونکہ بلوچ (خود یا ان کے سردار) کسی نہ کسی طرح حکمرانی میں حصہ دار تھے جبکہ ہوش محمد شیدی تو ایک خانہ زاد غلام تھے، ان کا نہ حکمرانی میں کوئی حصہ تھا اور نہ مستقبل میں اس کا کوئی امکان تھا پھر بھی انہوں نے بہادری سے لڑتے ہوئے اپنی جان قربان کی۔
1843ءمیں انگریزوں سے حیدرآباد کے قریب”میانی“ و ”دو آبے“ کے مقامات پر دو بڑی جنگیں ہوئیں، جن میں ہزاروں جانثاروں نے اپنے وطن کے لئے قربانی دی لیکن اس کے باوجود برطانوی فوج ، سندھ فتح کرنے میں کامیاب ہوا۔ ان دونوں جنگوں میں تالپر فوج کی شکست کے کئی اسباب ہیں، جس کے لئے سندھ کی ہمسایہ ریاستوں کے ا±س وقت کی صورتحال کو دیکھنا بھی ضروری ہے۔
1839ءمیں برطانوی فوج نے افغانستان پر حملہ کردیا۔ راستے میں بلوچ قبائل نے خان گڑھ (جیکب آباد) سے درہ بولان تک برطانوی فوج کا راستہ روکا۔ برطانوی فوج میں ہمیشہ کی طرح ہندستان کے مقامی افراد بھی شامل تھے۔ ایسے ہی ایک مقامی جمعدار سید فدا حسین ترک سوار تھے، جو افغانستان پرحملہ آور برطانوی فوج میں شامل تھے۔ انہوں نے بعد میں اپنی یاداشت کو الفاظ کا جامعہ پہنایا۔ جو 1845ءمیں شایع ہوئیں۔ جمعدار ترک سوار لکھتے ہیں کہ ’حیدرآباد کے والی میر صاحبان کو 22 لاکھ روپے ادا کرکے ہم آگے بڑے۔ خان گڑھ (جیکب آباد) کے قریب اچانک سے گولی چلی اور ہمارے ایک سپاہی کے سینے میں پیوست ہوگئی۔ یہ گولی جکھرانی قبیلے کی جانب سے فائر کی گئی تھی۔ جس کے بعد انگریز کمانڈر پوسٹن نے خان گڑھ کے قلعے پر یکے بعد دیگرے توپ کے 50 گولے فائر کئے۔ کئی افراد ہلاک ہونے کے بعد ہم نے خان گڑھ کا قلعہ بلوچوں سے خالی کیا۔‘ جمعدار ترک سوار مزید لکھتے ہیں ’جب ہم (یعنی برطانوی فوج ) درہ بولان پہنچے تو بلوچوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ جس کے باعث ہمارے کئی سپاہی اور جانور ہلاک ہوئے۔ انہوں نے ہمارا سامان کا ایک بہت بڑا حصہ لوٹ لیا۔ لڑتے جھگڑتے ہم شال کوٹ اور پھر افغانستان پہنچے۔ ‘
مو¿رخین کے مطابق اس جنگ میں برطانوی فوج کو افغانوں کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ خان گڑھ و خاص طور درہ بولان میں بلوچوں کے حملے کے باعث انگریزسامراج غصے سے بپھر گیا۔اس نے میر محراب خان سے بدلہ لینے کے لئے قلات پر حملہ کردیا، جس میں خان آف قلات میر محراب خان میدان جنگ میں لڑتے ہوئے نمیران ہوئے۔ میر محراب خان کی شہادت کے بعد برطانوی فوج نے بلوچوں پر ظلم کے پہاڑ گرائے۔ بلوچستان مکمل جنگ زدہ علاقہ بن گیا۔جنگ نفسک و ساڑت آف میں مری قبیلے نے انگریز کو شکست دی اور وہ اپنی توپیں چھوڑ کر بھاگ گیا۔ لیکن بے پناہ وسائل و افرادی کے قوت کے باعث وہ ہر صورت میں افغانستان کو فتح کرنا چاہتا تھا اور اس کے لئے اسے بلوچستان کو اپنے زیر دست کرنا ضروری تھا۔
سندھ کے والی میر صاحبان یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ جبکہ سندھ کی دوسری جانب رنجیت سنگھ بھی انگریز کا اتحادی بن چکا تھا۔ ادھر کراچی میں سیٹھ ناو¿نمل نے غداری و سہولت کاری کے باعث 1839ع میں کراچی پرانگریز کا قبضہ کرچکا تھا۔ میر صاحبان کی یہ بھی ایک کمزوری تھی کہ ان کی حکومتی امور سنبھالنے والے بیشتر افراد ہندو عامل تھے، جن کی اکثریت ناو¿نمل کی ہمنوا بن چکی تھی اور ان کے ساتھ دیگر کئی مقامی افراد بھی انگریز فوج کی مخبری کر رہے تھے۔ اس لئے انگریزوں کے وعدہ خلافیوں اور بلوچ عوام کے بار بار اصرار کے باوجود بھی میر صاحبان انگریزوں سے دست و گریبان ہونے سے گریز کر رہے تھے۔ حیدرآباد کے والی میر نصیر خان تالپر آخری وقت تک چارلس نیپیئر سے صلح کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
17 فروری 1843ءکو انگریز فوج نے حملہ کیا، تو چند بلوچ سرداروں کی قیادت میں سندھ کے جانثار حیدرآباد سے کچھ میل دور میا نی کے میدان میں جمع ہوئے۔ انگریز اور اس کے حمایتی مورخین نے میا نی کی جنگ میں چارلس نیپئر کو ایک عظیم جنگجو ثابت کرنے کے لیے سندھ کی فوج کی تعداد 28 ہزار سے40 ہزار تک لکھی ہے، جبکہ انگریز فوج کو 1700 سے 2800 تک دکھایا ہے۔ حالانکہ یہ سراسر مبالغہ آرائی ہے۔انگریز فوج میں شامل صرف انگریز سپاہیوں کی تعداد بتائی گئی ہے، جبکہ انگریز فوج میں ہمیشہ کثیر تعداد میں ہندستانی افراد شامل ہوتے تھے۔ دوسری جانب میر صاحبان کے ہاں کبھی بھی اتنی بڑی فوج نہیں رہی۔ انہوں نے کلہوڑا عباسیوں کو 1783ءمیں ہالانی کی لڑائی میں شکست دیکراپنی حکومت کا بنیاد رکھا تب بھی ان کی فوج پانچ ہزار پر مشتمل تھی اور 1834ءمیں افغانستان کے شاہ شجاع درانی سے مقابلہ کرتے وقت میر صاحبان کی فوج 8 ہزار افراد پر مشتمل بتائی جاتی ہے۔ میانی میں تو چند بلوچ سرداروں کی فوج تھی، جن میں لغاری، نظامانی، مری، قبائل شامل ہیں۔ جو اپنی آزادی کی خاطر اور آزادی پسند سرداروں کے حکم پر لڑ رہے تھے، نہ کہ کسی سرکاری حکم پر۔
میا نی کی جنگ میں سپر پاور سلطنت برطانیہ کی فوج جدید ہتھیاروں اور منظم حکمت عملی کے ساتھ میدان میں آئی تھی، جبکہ دوسری جانب پرانی بندوقیں و تلوار لئے، وطن کے دفاع کے لیے آئے ہوئے سرفروش تھے۔ شکست تو ہونی ہی تھی، لیکن عام لوگوں نے قربانی کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔ ”تاریخ تازہ نوائے معارک“ کے مصنف منشی عطا محمد شکارپوری ا±س دور کے چشم دید مو¿رخ ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ جنگ سے قبل بلوچوں نے قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کر عہد کیا کہ’ سندھ ہماری ماں ہے، ہم اپنی زندگی مادر وطن پر قربان کرینگے۔‘ ولیم نیپیئر اپنی کتاب” Conquest Of Sindh“میں لکھتے ہیں کہ بلوچوں نے بڑی بہادری سے ہمارا مقابلہ کیا، ہماری فوج انہیں قتل کرتے ہوئے تھک گئی لیکن شکست کھانے کے بعد بھی وہ حواس باختہ ہوکر فرار ہونے کے بجائے بارعب طریقے سے منتشر ہوئے۔ قادر بخش نظامانی کے مطابق ہوش محمد شیدی کے والد میانی کی جنگ میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔
میا نی کی جنگ کے بعد، 24 مارچ 1843ءکو حیدرآباد سے 6 میل کے فاصلے پر دیھ ناریجا میں دو آبے کے مقام پر میر شیر محمد تالپر کی قیادت میں سندھ کی فوج اور انگریزوں کے درمیان ایک اور جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں بھی سندھ کے بلوچ سپاہیوں نے سخت مزاحمت کی، لیکن انگریزوں نے مقامی جاسوسوں کے ذریعے بلوچوں کے گولہ بارود کے ذخیرے کو آگ لگوا دی، جس سے جنگ کا رخ بدل گیا۔
اس کے باوجود، سندھ کے بہادر جنگجو انگریزوں سے آخر تک لڑتے رہے۔ شہید ہوشو شیدی "مرسون مرسون، سندھ نہ ڈیسون” کا نعرہ لگا کر میدان میں کود پڑے اور وطن کے لیے جان قربان کر دی۔ تاہم شکست سے قبل ساتھیوں کے مشورے سے میر شیر محمد تالپر میدان جنگ سے نکل گئے۔ بعض محققین تنقید کرتے ہیں کہ میر صاحبان نے چند گھنٹوں کی دو لڑائیوں کے بعد سندھ کو انگریزوں کے حوالے کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے میر شیر محمد تالپور 1857ءکی جنگ آزادی تک برطانوی سامراج کے خلاف گوریلا جنگ کرتے رہے۔ ان کے علاوہ دلمراد خان کھوسہ، دریا خان جکھرانی، ترک علی جکھرانی اور بجار خان ڈومکی نے انگریزوں کو ایک دن بھی سکون سے بیٹھنے نہیں دیا۔
جب میں ہوش محمد شیدی کے مزار کی زیارت کرنے گیا تو وہاں موجود قمبرانی قبیلے کے مقامی افراد نے ہمیں ہوش محمد شیدی کے مزار سے کچھ فاصلے پر ایک ٹاور دکھایا، جس پر انگریز فوجیوں کے نام درج تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹاور ایک اجتماعی قبر پر تعمیر کیا گیا ہے، جو انگریزوں نے یادگار کے طور پر بنایا تھا۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انگریزوں کو میانی و دو آبے کی جنگ کے بعد بھی سندھ میں سخت مزاحمت کا سامنا تھا۔ اگر وہ باآسانی سندھ کو فتح کر رہے ہوتے تو اپنے فوجیوں کی الگ الگ قبریں بناتے، لیکن وہ ایسا نہ کر سکے ، بلکہ انہیں اپنے افسران و جوانوں کو اجتماعی قبر میں دفن کرنا پڑا۔
بہرحال اس جنگ میں ہوش محمد شیدی سمیت ہزاروں بہادرجنگجوو¿ں کی شہادت سندھ کے لئے ایک بہت بڑے نقصان کا باعث بنی، جس کا خمیازہ سندھ کی سرزمین آج تک بھگت رہی ہے!